دامِ تزویر (مرکزی خیال فارسی حکایت سے ماخوذ)

پروفیسر محمدیحییٰ جمیل

کردار:
۱۔فرید(ہوٹل کا مالک)
۲۔ رضوان (غسال)
۳۔ پڑوسی۔۱
۴۔ پڑوسی۔۲
(پہلا منظر)
(فرید ،ہوٹل میں قورمہ پکا رہا ہے۔)
فرید: (پتیلے میں سے گوشت نکال کر چھوتا ہے) گوشت اب تک نہیں گَلا!! بلکہ بوٹیاں تو ایسی لگ رہی ہیں جیسے پتھر ہو گئی ہوں۔قصاب کے بچہ نے آج یہ کیسا گوشت دے دیا! (پھر شوربہ ہتھیلی پر ڈال کر چکھتا ہے)گوشت کا شوربہ بھی بے مزہ ہوگیا۔(چولہے کے پاس سے ہٹ کر تولیہ سے ہاتھ پونچھتا ہے۔) گاہک اسے کھا نہیں سکتے۔ کیا کروں، کیا کروں، کیا کروں….؟
رضوان: سلام علیکم فرید بھائی۔
فرید: (دھیرے سے) واہ کام ہوگیا۔ (اونچی آواز میں ) وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔ کیا دے دوں؟
رضوان: قورمہ ۔
فرید: کتنا؟
رضوان: مجھے زیادہ نہیں سمجھتا، بس اتنا دو کہ آٹھ دس آدمی کھا سکیں ۔
فرید: گھر میں مہمان آگئے ہیں کیا؟
رضوان: ہاں، کچھ رشتہ دار ہیں۔
فرید: اور روٹیاں کتنی کردوں؟
رضوان: نہیں نہیں، روٹیاں گھر میں بن رہی ہیں۔
فرید: (ہنس کر) عام طور پر بیویاں کہتی ہیں سالن میں بنالیتی ہوں روٹیاں لے آؤ، لیکن باجی بخوشی روٹیاں بنا لیتی ہیں، اچھا ہے (پتیلااس کے سامنے رکھ دیتا ہے۔)لے جاؤ۔
رضوان: یہ کچھ زیادہ نہیں ہو جائے گا؟
فرید: جو بچ جائے وہ اگلے دن کھا لینا اگر پھر بھی بچ جائے تو اس کے اگلے دن بھی کھا سکتے ہو۔
رضوان: لیکن زیادہ قورمہ لے کر میں کیا کروں گا؟
فرید: میں اس قورمہ کے تم سے پیسے نہیں مانگ رہا ہوں۔
رضوان: (ہنس کر) تو کیا آج مفت بانٹ رہے ہو۔
فرید: میں تمھیں مفت نہیں دے رہا، بلکہ سودا کر رہا ہوں۔
رضوان: سودا؟ میں سمجھا نہیں۔
فرید: (ایک لمبی آہ بھر کر) بھائی، تم جانتے ہی ہو کہ میرے کوئی اولاد نہیں ہے۔ جو رشتہ دار ہیں وہ سبھی مطلبی اور خود غرض ہیں۔ اب اگر میں کسی دن مر جاؤں تو خدا جانے یہ مجھے غسل دیتے بھی ہیں یا بغیر غسل کے ہی دفن کردیتے ہیں۔
رضوان: نہیں نہیں، ایسا کوئی نہیں کرتا۔مردہ کو غسل دیا جاتا ہے۔
فرید: یہ تم اس لیے کہہ رہے ہو کیونکہ تم میرے رشتہ داروں کو نہیں جانتے۔ سب میرے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ اس ہوٹل پر قبضہ کر سکیں۔
رضوان: خیر، ٹھیک ہے پھر؟
فرید: تم غسال ہو۔ مردہ کو غسل دیتے ہو۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ اگر کسی دن میری موت ہوجائے تو تم اس قورمہ کے عوض مجھے غسل دے دینا بس۔
رضوان: (خوش ہو کر)اوہ، اتنی سی بات۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس پتیلا بھر قورمہ کے عوض تمھیں بہت اچھی طرح غسل دوں گا۔
فرید: ٹھہرو پتیلا گرم ہے، میں کپڑا دیتا ہوں اس سے اٹھا کر لے جاؤ۔(کپڑا لانے اندر جاتا ہے۔)
رضوان: (پتیلے کا ڈھکن اٹھا کر دیکھتا ہے) اتنا سارا قورمہ واہ۔ اس نے صرف غسل کے عوض اتنا قورمہ دے دیا۔ یہ تو بڑا بیوقوف نکلا۔ خیر، عمدہ سودا ہو گیا۔ پیسے بھی بچ گئے، قورمہ بھی مل گیا۔
فرید: (کپڑا لے کر آتا ہے)لو ، اس سے اٹھا کر لے جاؤ۔
رضوان: (کپڑے سےپتیلا اٹھاتا ہے )شکریہ، اب غسل کی فکر نہ کرنا، میں ہوں۔
فرید: (اس کے جانے کے بعدزور سے ہنستا ہے۔)
(دوسرا منظر)
(فرید، رضوان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔)
رضوان: (دروازہ کھول کر )ارے تم!سلام علیکم ۔
فرید: وعلیکم السلام بھائی، پورا ہفتہ گذر گیا۔ ملاقات ہی نہیں ۔
رضوان: ہاں کچھ مصروف تھا۔
فرید: تمھارا مصروف ہونا اچھا نہیں (زور سے ہنستا ہے) خیر، میں اورنگ آباد جارہا ہوں اس لیے تمھیں لینے آیا ہوں۔
رضوان: معاف کرنا، میں تمھارے ساتھ نہیں آسکتا۔
فرید: نہیں نہیں تمھیں میرے ساتھ اورنگ آباد چلنا پڑے گا۔
رضوان: بھائی، میں نہیں آ سکتا۔ میرے اپنے کام ہیں۔
فرید: وہ سب میں نہیں جانتا تمھیں میرے ساتھ دو مہینوں کے لیے اورنگ آباد چلنا ہی پڑے گا۔
رضوان: دو مہینوں کے لیے! بھائی میں دوماہ کے لیے تمھارے ساتھ کیوں آؤں؟
فرید: مجھے غسل دینے کے لیے۔
رضوان: (قہقہہ لگا کر) طے یہ ہوا تھا کہ تمھارے مرنے کے بعد میں تمھیں غسل دوں گا۔
فرید: جانتا ہوں، اسی لیے تمھیں ساتھ لے جانا چاہتا ہوں کہ اگر خدا نخواستہ اورنگ آباد میں میری موت ہوجائے تو تم مجھے غسل دے سکوگے۔
رضوان: (گھبرا کر)کیا؟ تم ماشاء اللہ ابھی صحت مند ہو، تمھیں کیسے موت آ سکتی ہے؟
فرید: کیوں نہیں موت آ سکتی؟ زندگی کا کوئی بھروسہ ہے؟
رضوان: زندگی کا تو کوئی بھروسہ نہیں، لیکن میں  تمھیں اسی وقت غسل دوں گا جب تم اس شہر میں انتقال کرو۔
فرید: دیکھو تم اپنے وعدہ سے مکر رہے ہو۔ یہ بات طے نہیں ہوئی تھی۔طے یہ ہوا تھا کہ تم میرے مرنے کے بعد مجھے غسل دوگے۔
رضوان: بیشک لیکن یہ بھی طے نہیں ہوا تھا کہ میں اس کام کے لیے تمہارے پیچھے پیچھے گھومتا رہوں گا۔
(شور سن کر دو پڑوسی ان کےقریب آتے ہیں۔)
پڑوسی۱: کیوں کیا بات ہے ؟
فرید: دیکھو بھائی، میں نے رضوان کو پتیلا بھر قورمہ اس شرط پر دیا تھا کہ وہ میرے مرنے کے بعد مجھے غسل دے گا۔اب وہ اس بات سے مکر رہا ہے۔
رضوان: میں مکر نہیں رہا ہوں بلکہ اپنے وعدہ پر قائم ہوں۔
پڑوسی۲: پھر جھگڑا کس بات کا؟
رضوان: یہ کہہ رہے ہیں کہ میں ان کے ساتھ اورنگ آباد جاؤں ۔
پڑوسی۲: آپ اسے اورنگ آباد کیوں لے جانا چاہتے ہیں؟
فرید: اگر اورنگ آباد میں میری موت ہوجائے تو غسل دیا جائے گا یا نہیں؟
پڑوسی۲: کیوں نہیں۔ ضرور غسل دیا جائے گا۔
فرید: بس اسی لیے میں رضوان کو ساتھ لے جانا چاہتا ہوں کہ وہ مجھے وہاں غسل دے سکے۔
رضوان: میں تمھارے ساتھ اورنگ آباد نہیں جا رہا، جو کرنا ہے کرلو۔
فرید: دیکھو میاں یہ ڈھٹائی کسی اور کے ساتھ کرنا۔ تم نے پتیلا بھر قورمہ مجھ سے مفت لیا ہے۔
رضوان: مفت نہیں لیا، تم نے دیا اور مفت نہیں بلکہ اپنے غسل کی قیمت دی ہے۔
فرید: بس تو پھر ، دو ماہ کے لیے میرے ساتھ اورنگ آباد چلو۔
پڑوسی۱: فرید کی بات میں دم ہے۔ خدا نخواستہ اگر اورنگ آباد میں وہ انتقال کر جائیں تو ان کے غسل کے لیے تمھارا وہاں ہونا لازمی ہے۔تمھیں اورنگ آباد جانا چاہیے۔
رضوان: (سر پکڑ کر)کیا مصیبت ہے۔ آپ یوں کہہ رہے ہیں جیسے اورنگ آباد میں فرید کا مرنا طے ہے۔
پڑوسی۱: وہ احتیاطاً تمھیں ساتھ لے کر جارہے ہیں۔ چلے جاؤ۔
پڑوسی۲: ہاں وعدہ کے مطابق تمھیں جانا ہی چاہیے۔
رضوان: نہیں، یہ تو نہیں ہوسکتا۔ فرید تم اپنے قورمہ کی قیمت لو اور میری جان چھوڑو۔
فرید: نہیں، مجھے قورمہ کی قیمت نہیں چاہیے۔ میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد تم مجھے غسل دو۔
رضوان: (ہاتھ جوڑ کر)اس مصیبت سے میری جان چھڑاؤ۔
پڑوسی۱: بھائی، معاملہ ختم کرو۔ اپنے قورمہ کی قیمت لے لو۔
فرید: (ہاتھ ملتے ہوئے)تم لوگ کہہ رہے ہو تو میں مان لیتا ہوں لیکن چونکہ رضوان وعدہ توڑ رہا ہے اس لیے بطور ہرجانہ مجھے دوگنی رقم چاہیے۔
رضوان: یہ تو زیادتی ہے۔
فرید: پھر اورنگ آباد چلو۔
رضوان : اورنگ آباد جانے کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا۔ کہو کتنے پیسے چاہیے؟
فرید: وہ ایک ہزار روپئے کا قورمہ تھا، تم مجھے دو ہزار روپئے دے دو۔
رضوان: (حیرت سے)استغفراللہ، دو ہزار روپئے! اس قورمہ کے! سخت بوٹیوں والےبد مزہ قورمہ کے؟
فرید: (پڑوسیوں سے مخاطب ہوکر )لیجیے اب صاحب اس میں عیب گنا رہے ہیں۔
رضوان: جوبھی ہو، دو ہزار بہت زیادہ ہیں۔
فرید: پیسے دینا نہ چاہو تو میرے ساتھ اورنگ آباد چلو۔ورنہ میں حاکم کے پاس شکایت لے کر جاتا ہوں۔
رضوان: (جیب سے دوہزار روپئے نکال کر) لو دو ہزار روپئے لو ۔
فرید: (روپئے لے کر جیب میں رکھتا ہے) خدا حافظ۔
(سب خدا حافظ کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔)
رضوان: (سر پکڑ کر) فرید تو انتہائی فریبی نکلا۔ ہاے ہاے، ذرا سی لالچ نے میرا کتنا نقصان کردیا۔ مکار اور فریبی لوگوں سے ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہیے ۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں