دانت جسم انسانی کا ضروری حصہ ہیں۔ ان کو خون کے ذریعے خوراک پہنچتی ہے۔ سولہ دانت اوپر والے جبڑے میں ہوتے ہیں اور سولہ نچلے جبڑے میں۔ دانت خوراک کو پیس کر باریک کردیتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ خوراک لعابِ دہن میں ملتی ہے اور پھر معدے میں چلی جاتی ہے اور آسانی سے ہضم ہوجاتی ہے۔
دانت چہرے کے حسن کے بھی ضامن ہیں۔ قدیم عرب میں چہرے کے حسن اور دانتوں کی خوبصورتی کے بڑے چرچے تھے۔ چہرے کی خوبصورتی، دلکش گفتگو اور مسکراہٹ کی خاص ادا حسین دانتوں کی ہی مرہونِ منت ہے۔ دانت چہرے کو تقویت بھی بخشتے ہیں۔
آج امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں دانتوں کی سائنس عروج پر ہے۔ حفاظتی امور، مسوڑھوں کے امراض کا تدارک، سرجری اور صفائی کے ایسے طریقے رائج ہوگئے ہیں کہ انسان دانتوں کے امراض سے بہ آسانی نجات پاسکتا ہے۔ دنیا کے بے شمار ممالک میں ہیلتھ ایجوکیشن کے ساز و سامان میسر ہیں۔ تقاریر اور سلائیڈوں سے کام لیا جاتا ہے۔ ٹیلی ویژن اور ریڈیو جیسے ادارے ڈینٹل تعلیم دینے میں مصروف ہیں مگر جو سادہ طریقہ اسلام نے بتایا تھا وہ آج بھی اسی طرح مؤثر ہے جیسے پہلے تھا۔ وضو کے بغیر نماز نہیں ہوسکتی اور منہ کی صفائی وضو کا اہم حصہ ہے۔ لہٰذا منہ کی صفائی عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ نبی کریم ﷺ دنیا کے پہلے ہیلتھ ایجوکیٹر یا معلّم صحت ہیں۔ آپؐ نے دانتوں کی صفائی اور حفاظت پر زور دیا۔ دنیا میں آج تک جتنے بھی ہیلتھ ایجوکیٹر آئے وہ اتنے مؤثر ثابت نہیں ہوئے جتنے کہ اللہ کے نبی حضرت محمد ﷺ۔
حضور ﷺ نے فرمایا:اگر میں اپنی امت پر شاق نہ سمجھتا تو بیشک انہیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا۔ آپؐ نے جو کام خود پسند کیا وہی ہمیں کرنے کا حکم دیا۔ کسی نے حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے دریافت کیا کہ حضور ﷺ رات کو سوتے وقت اور صبح اٹھ کر کیا کام کرتے تھے تو انھوں نے فرمایا: ’’مسواک۔‘‘
ایک اور روایت میں ہے کہ آپؐ نے اس جہانِ فانی سے رخصت کے وقت فرمایا: ’’لاؤ میری مسواک کہاں ہے؟‘‘ حضرت عائشہؓ نے آپ کی مسواک نرم کرکے دی اور آپؐ نے مسواک کی۔ ہر روز مسواک کرنا ثواب ہے۔ جمعہ کے روز مسواک کرنا کہیں زیادہ ثواب ہے۔ عیدین کو مسواک کرنا سنت ہے۔
ایک روایت کے مطابق ایک بار ایک طبیب حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اجازت مانگی کہ آپ کے علاقے میں طبیب کے طور پر کام کروں۔ آپؐ نے اجازت دے دی۔ چھ ماہ کے بعد وہ حکیم پھر حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور مایوس ہوکر کہنے لگا کہ میرے پاس کوئی مریض آتا ہی نہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’یہاں کے لوگ خوب مسواک کرتے ہیں، اس لیے بیمار نہیں ہوتے۔‘‘
مسواک کرنے کا طریقہ
آپٔ نے وہ طریقہ بھی ارشاد فرمایا جو آج کل کا تہذیب یافتہ انسان ذاتی تجربات اور تحقیق کی بنا پر اختیار کررہا ہے۔ مسواک کا رخ مسوڑھوں سے دانتوں کی طرف ہونا چاہیے یعنی اوپر والے جبڑے کے لیے اوپر سے نیچے اور نیچے والے جبڑے کے لیے نیچے سے اوپر کی طرف مسواک یا برش کریں۔
کوئی نماز وضو کے بغیر نہیں ہوتی اور وضو میں منہ کی صفائی ضروری ہے۔ گویا نماز کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب منہ کو خوب صاف کیا جائے۔ تین دفعہ پانی سے، انگلی سے اور مسواک سے منہ صاف کیا جاتا ہے۔ یوں منہ کی صفائی عبادت کا اولین جزء ہے۔ غور کریں کہ اسلام نے منہ کی صفائی کو کس طرح اور کس قدر اہمیت دی ہے اور کیا مقام بخشا ہے اور ہم ہیں کہ اس پر توجہ ہی نہیں دیتے۔حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ جب رسولِ خداﷺ رات کو تہجد یا عبادت کے لیے اٹھتے تو مسواک فرماتے۔ گویا ڈینٹل ہائی جین نبی کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ سے شروع ہوتی ہے۔ آپؐ نے ہر مقام پر دانتوں کی حفاظت اور صفائی پر زور دیا ہے۔ حضورؐ نے فرمایا کہ سو کر اٹھو تو اپنے ہاتھ دھو لیا کرو، کیا پتہ سوتے میں تمہارے ہاتھ کہاں کہاں لگے ہوں۔
ام المؤمنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسواک پاکیزگی کا تالا اور منہ کے لیے خدا کی خوشنودی کا سبب ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپؐ طہارت بدنی کو کتنی اہمیت دیتے تھے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسول خدا ﷺ مسواک اور دانتوں کی صفائی پر اسقدر زور کیوں دیتے تھے؟ اور خود بھی اس پر سختی سے عمل پیرا کیوں تھے؟
اس کی بہت سی اہم وجوہ میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ اگرچہ اس وقت سائنس اور جرثومی اثرات پر تحقیق نہیں ہوئی تھی مگر کوشش کی جاتی تھی کہ خوراک کے ذرات کسی صورت میں دانتوں کے درمیان نہیں رہنے چاہئیں اور ان ذرات کو انگلی، مسواک یا خلال سے نکالا جائے۔
آج کی سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ منہ کی بیشتر بیماریاں جرثومی اثرات سے ہوتی ہیں۔ منہ میں جراثیم ہوتے ہیں جن کا دانتو ںکے درمیان بچی کھچی خوراک پر انحصار ہوتا ہے۔ یہ خوراک کھاکر جراثیم بڑھنا شروع ہوتے ہیں۔ منہ کی رطوبت ان کی مدد کرتی ہے۔ جراثیم ایک تیزاب پیدا کرتے ہیں جو مسوڑھوں اور دانتوں کو خراب کرتا ہے۔ اس مسلسل کیفیت سے منہ سے بدبو آنا شروع ہوجاتی ہے۔ جسم میں سستی اور کاہلی پیدا ہوجاتی ہے۔ بخار کے علاوہ جسم میں دیگر امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ منہ اور دانت جسم میں دروازے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دروازہ ہی گندا ہوگا تو وہاں سے گزر کر آنے والے کب صاف ستھرے رہ سکتے ہیں۔ خوراک منہ میں چبائی جاتی ہے۔ دانت اس خوراک کو پیستے ہیں۔ دانتوں میں پہلے سے موجود خوراک کے گلے سڑے ذرات تازہ خوراک کے ساتھ مل کر معدے میں چلے جاتے ہیں۔ اس طرح خوراک اچھی طرح ہضم نہیں ہوتی اور جزو بدن نہیں بنتی۔ یوں جسم کمزور ہونے لگتا ہے۔ جسم کمزور ہو تو قوتِ مدافعت کم ہوجاتی ہے اور آدمی مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ ان چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے رسول کریم ﷺ نے جسم اور صحت کو بچانے کے لیے منہ کی صفائی پر زور دیا اور تاریخِ اسلام کا یہ باب نہایت ہی خوشگوار ہے۔
——