کردار:
۱۔ بادشاہ ۲۔ وزیر
۳۔ طبیب ۴۔ دربان اور سپاہی
منظر: 1
(پردہ اٹھتا ہے ۔ تخت پر نیم دراز ایک بہت موٹا بادشاہ ،انگور کھا رہا ہے۔ اس کے دائیں جانب میز پر پڑے طشت میں بہت سارے پھل رکھے ہیں۔ وزیر دست بستہ اس کے سامنے کھڑا ہے۔)
بادشاہ: ہمیں نہایت افسوس ہے کہ ہماری سلطنت میں ایک بھی قابل طبیب نہیں۔
وزیر: حضوروالا، آج میں نے ایک حکیم حاذق کو بلوایاہے۔ ان شاء اللہ، وہ ضرور آپ کا علاج کر لے گا۔
بادشاہ: خدا کرے ایسا ہی ہو، اب تک تو حکیموں نے ہمیں مایوس ہی کیا ہے۔
دربان:(داخل ہو کر تین بار سلام کرتا ہے) جہاں پناہ، حکیم صاحب شرفِ ملاقات حاصل کرنا چاہتا ہے۔
بادشاہ: (ہاتھ کے اشارہ سے آنے کی اجازت دیتا ہے اور انگور کا گچھا میز پر رکھے طشت میں رکھ دیتا ہے۔)
(چند لمحوں بعد حکیم دربار میں داخل ہوتا ہے اور تین مرتبہ جھک کر سلام کرنے کے بعد ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوجاتا ہے)
وزیر: آئیے حکیم صاحب، خوش آمدید۔
حکیم: میرے لیے کیا حکم ہے جہاں پناہ؟
بادشاہ: حکیم صاحب، ہم ایک انتہائی موذی مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارا علاج کریں۔
حکیم: یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہوگی۔ فرمائیے آپ کو کیا پریشانی ہے؟
بادشاہ: کیا آپ دیکھ نہیں رہے، یہ موٹاپا، یہ موٹاپا ہی ہمارا سب سے بڑا مرض ہے۔ہم اس موٹاپے سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔ اب تک متعدد حکیم آئے اور ناکام گئے۔ وزیر صحت کے مشورے پر آپ کو طلب کیا گیا ہے۔
حکیم: اجازت ہو تو میں آپ کا معائنہ کرنا چاہتا ہوں۔
بادشاہ: (لمبی سانس لے کرسیدھا بیٹھ جاتا ہے۔)
حکیم: (بادشاہ کے قریب جاکر معائنہ کرنے کے بعد دوبارہ اپنی جگہ کھڑا ہوجاتا ہے)کیا میں تمام حکیموں کے علاج کے نسخوں کی تفصیل دیکھ سکتا ہوں۔
وزیر: تمام طبیبوں کے مجوزہ علاج کا دفتر پیش کیا جائے۔
(ایک سپاہی سرخ رنگ کی بڑی سی بیاض لا کر دیتا ہے۔ حکیم دھیرے دھیرے اوراق پلٹتا ہے۔)
حکیم: جان کی امان پاؤں تو عرض کروں۔
بادشاہ: بے خوف کہیے۔
حکیم: حضور، میں علم طب کے ساتھ علم نجوم کا بھی علم رکھتا ہوں۔ چونکہ پچھلے حکیم تمام ممکنہ علاج کر چکے ہیں، اس لیے میں ایک آخری کوشش کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن یہ علاج طویل کھنچ سکتا ہے ، اس لیے میں علم نجوم کے ذریعہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ آپ کی زندگی کتنی ہے۔ اگر آپ کی زندگی لمبی ہوئی تو میں آپ کا علاج کروں گا۔
وزیر: (گھبرا کر) حکیم صاحب یہ آپ … یہ… کیا…
بادشاہ: (چہرے پر غصہ کے آثار) ٹھیک ہے، آپ علم نجوم کے مطابق فیصلہ کر سکتے ہیں۔
حکیم: حضور! مجھے آپ کا زائچہ عنایت فرمائیں۔
بادشاہ: (غصہ سے وزیر کو اشارہ کرتا ہے اور حکیم سے کہتا ہے)آپ بیٹھ سکتے ہیں۔ (حکیم جھک کر سلام کرتا ہے اور ایک جانب رکھی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔)
وزیر: بادشاہ سلامت کا زائچہء مبارک لایا جائے۔
(کچھ دیر بعد ایک سپاہی حکیم کو زائچہ لاکر دیتا ہے اور حکیم بہت سارے کاغذات نکال کر دیکھنے لگتا ہے۔)
بادشاہ: کہیے حکیم صاحب، آپ کے علم کے مطابق ہماری زندگی کتنی ہے؟
حکیم: (دکھ بھری آواز میں)حضور والا، مجھے یہ کہتے ہوئے نہایت دکھ ہو رہا ہے کہ اس زمین پر آپ کی زندگی صرف ایک مہینہ باقی بچی ہے اور چونکہ میرے علاج کے لیے یہ مدت نہایت قلیل ہے اس لیے میں آپ کا علاج کرنے سے قاصر ہوں۔ امید کہ آپ مجھے معاف فرمائیں گے۔
وزیر: یہ کیا بد تمیزی ہے؟؟سپاہیو اس حکیم کو گرفتار کرلو۔
حکیم: بیشک آپ مجھے گرفتار کرلیں لیکن جہاں پناہ، سپاہیوں کو حکم دیجیے کہ ایک ماہ بعد جب میری پیشین گوئی درست ثابت ہوجائے تو مجھے رہا کردیں۔
بادشاہ: (غصہ سے )حکیم کو زندان میں قید کردیا جائے۔
( سپاہی حکیم کو پکڑ کر لے جاتے ہیں۔بادشاہ لمبی لمبی سانسیں بھرتا ہوا تخت سے اٹھتا ہے اور سر جھکا کر ٹہلنے لگتا ہے۔)وزیر صحت، یہ نالائق تھا… ہاے، آپ کا شاندار حکیم، اُف…یہ کم بخت… اُف (بادشاہ لگاتار اُف، اُف کہتا جاتا ہے۔)
منظر: 2
بادشاہ: (صحت بری طرح گر چکی ہے۔) آج ۲۸ دن ہوگئے، وزیر ذی وقار، آپ کے حکیم کی پیشین گوئی میں صرف دو روز باقی ہیں۔
وزیر : (سر جھکائے) حضور آپ کا سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ قائم رہے۔ وہ بکواس کر رہا تھا۔ میں اس کے انتخاب پر انتہائی شرمندہ اور پشیمان ہوں۔
بادشاہ: اس بد تمیز حکیم کو حاضر کیا جائے۔
(کچھ دیر بعد ایک سپاہی حکیم کو لے کر حاضر ہوتا ہے۔)
بادشاہ: آؤ حکیم بے دماغ، دیکھو تمھاری پیشین گوئی کو ۲۸ دن ہوگئے اور ہم الحمدللہ زندہ ہیں۔اب تم کیا کہتے ہو؟
حکیم: (مسکراتے ہوئے)میں کیا کہہ سکتا ہوں عالی جاہ۔مستقبل کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
بادشاہ: شاید زندان کے اندھیروں نے تمھاری عقل کو روشن کردیا۔
حکیم: عالم پناہ! میں خود اپنی زندگی کے بارے میں نہیں جانتا کہ اگلے پل میرے ساتھ کیا ہوگا۔آپ کے بارے میں کیسے جان سکتا ہوں؟
بادشاہ: (غصہ سے)پھر جھوٹ کیوں کہا تھا؟
حکیم: میں نے جھوٹ نہیں کہا تھا۔
بادشاہ: بد تمیز، تم نے ہماری زندگی کے بارے میں پیشین گوئی نہیں کی تھی؟
حکیم: (جھک کر سلام کرتا ہے) ظل الٰہی، آپ کا اقبال بلند ہو، دراصل آپ دبلا ہونا چاہتے تھے۔اطباء ہر ممکن علاج کر چکے تھے اس لیے میں نے آپ کا نفسیاتی علاج کرنے کا فیصلہ کیا۔
بادشاہ: کیا…؟
حکیم: جہاں پناہ، دکھ اور پریشانی سے زیادہ اور کوئی چیز انسان کو دبلا نہیں کرسکتی۔ آپ کی زندگی کے بارے میں نے جو کچھ عرض کیا تھا وہ ایک حیلہ تھا، میری چال تھی کہ آپ دکھ اور پریشانی میں مبتلا ہوجائیں۔
بادشاہ: ہاے ظالم، یہ ۲۸ دن ہم نے کیسے گذارے تم کیا جانو۔
حکیم: براہِ کرم آئینہ میں خود کو ملاحظہ فرمائیں، کیا آپ اتنے دبلے نہیں ہوگئے جتنا آپ ہونا چاہتے تھے؟
بادشاہ: (مسکراتا ہے) وزیر صحت، واقعی آپ نے ایک قابل طبیب کو منتخب کیا تھا۔
وزیر: (جھک کر سلام کرتا ہے) خدا آپ کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر قائم رکھے۔
حکیم: آپ کی صحت جنت کی نعمتوں کی طرح لازوال اور آپ کی عمر آسمان کی مانند بے حد و حساب ہو۔
بادشاہ: (ہنستے ہوئے)حکیم صاحب ، آپ علم نجوم میں نہ سہی فن طب میں بیشک مہارت رکھتے ہیں۔
حکیم: (جھک کر سلام کرتا ہے۔)
بادشاہ: حکیم صاحب کو دس ہزار سونے کے سکے اور خلعت سے نوازا جائے۔ ساتھ ہی انھیں چالیس گاؤںکی جاگیر بھی دی جاتی ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہماری سلطنت میں ایسے قابل طبیب موجود ہیں۔