درد آشنا

صبیحہ عنایت

حسبِ معمول ڈرائنگ روم کی صفائی کرتے کرتے جب اس کے ہاتھ دیوار پر آویزاں فریم کو صاف کرنے لگے تو سینری کے خوبصورت منظر، دیار کی لہروں پر نظر پڑتے ہی ایک جھٹکے سے اس نے اپنا ہاتھ چھڑالیا اور گھوم کر کرسی پر بیٹھ گئی۔

’’میری زندگی دریا کی اس لہر جیسی ہے جو کنارے کو چھونے سے پہلے ہی ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے۔‘‘ سلمہ پر اس بات کا انکشاف اس وقت ہوا جب اس نے حمیدہ کی آنکھوں کو ٹٹول کر دیکھا تھا۔ ظاہر داری سب الجھنوں پر پردہ ڈال دے تو کیا ہوا آنکھیں اورمسکراہٹ ان کی پردہ پوشی نہیں کرسکتیں؟

’’ہر لہر کے نصیب میں کنارا نہیں ہوتا۔ حمیدہ، کسی کو ٹوٹ کر بکھرنا ہے تو کسی کو طوفانی موجوں سے ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہے، کچھ کہو کہ تم مجھے اپنا راز دار پاؤگی۔‘‘

’’نہیں مجھے کچھ کہنا نہیں ہے۔‘‘

مگر آنکھیں اور مسکراہٹ دلی کرب کی غمازی کررہی ہیں۔ سلمہ بضد ہوگئی۔

’’ان کی غمازی کا کیا ہے؟‘‘

’’بہت کچھ۔‘‘

’’کچھ نہیں۔‘‘

’’سب کچھ۔‘‘

’’سلمہ پلیز۔‘‘

’’حمیدہ پلیز۔‘‘

’’سلمہ کے مسلسل اصرار پر حمیدہ مسکرائی۔ مگر دوسرے ہی لمحہ وہ سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی۔‘‘

’’مجھ میں اتنی تاب نہیں کہ ابھی بتادوں ورنہ اس بھری مجلس میں مردوں کی کل بنوں۔‘‘

’’کسے معلوم ہے کہ وہ کل ہماری زندگی میں آئے گا بھی۔‘‘

’’کیسی مخلص سے پالا پڑا مجھے۔‘‘

’’کیسی چٹان سے پالا پڑا مجھے۔‘‘

’’میں چٹان کب ہوں؟‘‘

’’میں مخلص کب ہوں؟‘‘

’’اصرار جو کررہی ہو۔‘‘

’’اصرار میں اصرار ہے۔‘‘

’’پھر تو بندی تیار ہے۔‘‘

اس شاعرانہ گفتگو پر دونوں کھکھلا اٹھیں۔

’’بہت دنوں بعد آج ہی ہنسی ہوں۔ کچھ پوچھ کر مجھے رنجیدہ مت کرو۔‘‘

’’کچھ پوچھ کر رنجیدہ بنانا نہیں بلکہ بھڑاس نکالنا ہے۔‘‘

’’اچھی طرح سن لو سلمہ! ماضی، حال، مستقبل کے اس تکون فریم میں میرا اپنا عکس کچھ ایسی دھندلکی لیے ہوئے ہے کہ نہ تو تم مجھے پوری طرح دیکھ پاؤگی اور نہ ہی پہچان سکو گی۔‘‘

’’تو ان دھندلکوں کو دور کرو۔‘‘

’’وہ کیسے؟‘‘

’’ریشمی آنچل سے نہیں، فلالین کے تولیے سے نہیں بلکہ قدرت کی عطا کردہ انگلیوں سے۔‘‘

’’تو کیا اس سے کوئی حل نکل آئے گا؟‘‘

’’تو کیا صبر و کوشش رنگ نہیں لائیں گے؟‘‘

’’پھر تو ٹھیک ۔‘‘ حمیدہ اپنی ساری داستان کو محدود تر کرتے ہوئے بولی۔ ایک شام تمہارے جیجا جی آفس سے آئے۔ اچانک کہنے لگے ۔ ’’حمیدہ ! میں چاہتا ہوں کہ باہر چلا جاؤں تاکہ ہماری زندگی بن جائے اس لیے بہتر ہے کہ تم اپنے میکہ جاکر تیس ہزار کا انتظام کردو۔‘‘ میں نے کہا: ’’ایک کی زندگی بنے اور دوسرے کی اجڑ جائے کیسا رہے گا؟‘‘

میرے اس سوال پر وہ ایک دم برہم ہوگئے۔ ایک ماہ تک خانگی جنگ چلتی رہی۔ آخر یہ کہتے ہوئے انھوں نے مجھے طلاق دے دی کہ جب اپنے ماں باپ کا اتنا درد اور اتنا خیال ہے تو ہمیشہ کے لیے وہیں کی ہو کر رہ جاؤ۔‘‘

’’خوب! پھر تو تمہیں شکر کرنا چاہیے۔‘‘

’’ظالم! بے درد کہیں کی اجڑتی زندگی پر شکر کرنے کو کہتی ہے۔‘‘

’’بالکل‘‘ سلمہ نے سنجیدگی سے سرہلایا۔

’’نالائق سلمہ! تم نے میرے زخموں پر نمک پاشی کی۔‘‘

’’نمک پاشی نہیں، شبنم کا چھڑکاؤ۔‘‘ طلاق دے کر ہمارے جیجا جی نے تم پر احسان کیا کہ تم عقد ثانی کا تو حق رکھتی ہو مگر …‘‘ اس سے آگے سلمہ کچھ اور نہ کہہ سکی اس کی آنکھیں ڈبڈباگئیں، چاہا کہ وہاں سے اٹھ جائے حمیدہ نے کھینچ لیا۔

’’میں نے تمہارے حل کا برا نہیں مانا سلمہ، یہ تمہاری آنکھیں کیوں بھیگ رہی ہیں؟‘‘

’’یہ پوچھتے بہت دیر کی تم نے۔‘‘

’’جلدی کیسے کرتی تمہاری بارات جیسی زندگی پر۔‘‘

’’بارات کن معنوں میں۔‘‘ وہ سراپا سوال بن گئی۔

’’تمہارے پاس کیا نہیں ہے، زر، زیور، حسن سب سے بڑھ کر تمہاری خوش اخلاقی۔‘‘

’’سب کچھ ہوتے ہوئے بھی میرے پاس کچھ نہیں۔‘‘ جہاں ہمارے جیجا جی دولت کے پجاری تھے وہاں تمہارے جیجا نفس کے پرستار ہیں۔ وہ کلبوں کی زندگی تو شمپئن، بیر، وہسکی کے شیدائی ہیں۔‘‘

’’تو سمجھوتہ کرلو۔‘‘ سلمہ کے اچانک انکشاف پر اپنی حیرانگی چھپاتے ہوئے حمیدہ نے اپنا خیال ظاہر کیا۔

’’ہرگز نہیں… برائی برائی ہے چاہے وہ خوبصورتی لیے ہو۔‘‘

’’تو کیا کروگی؟‘‘

’’مقابلہ کروں گی، ہاتھ سے روک کر، زبان سے کہہ کر، ایسے ہی جب درخواست کی گئی تو … تو…‘‘ سلمہ ہچکیاں لینے لگی۔

حمیدہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ سلمہ کی زندگی طوفان لیے ہے جو بظاہر پُرسکون نظر آتی ہے، ادھر تجسس نے کنکر مارا ادھر ٹوٹتے ضبط نے گرداب بکھیر دئیے۔

’’تو کیا ہوا؟ بولو نا… بولو… بولو ۔‘‘حمیدہ روہانسی ہوگئی۔

’’تم دریا کی لہر تھیں اور میں مرغِ بسمل کے مانند تمام زندگی تڑپتی رہوں گی۔ نہ مجھے طلاق ملی اور نہ شوہر کا گھر۔‘‘ مالکِ حقیقی نے مجھے آزمائشی صلیب پر تازندگی لٹکا دیا۔‘‘ پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

’’اف خدایا! مگر جہاں تم نے مجھے دل دیا اپنے لیے کچھ نہیں کیا سلمہ!‘‘

’’مجھے اپنے ہی لیے زندہ رہنا نہیں ہے اس دنیا میں ماں باپ بھی ہیں جو اولاد کے لیے زندہ ہیں۔ اگر انھیں سب بتادوں تو وہ زندہ درگور ہوجائیں گے جبکہ باپ دمہ کا مریض ہے توماں دل کی مریض۔‘‘

’’پھر جگر کے اس لعل کا کیا ہوگا؟‘‘

’’اس کو اچھی تربیت دے کر شریف نوجوان بنانا ہے تاکہ مرنے کے بعد اس صدقہ جاریہ پر میری روح فخر کرسکے…‘‘ ایک دمکتے احساس پر وہ ہلکے سے مسکرائی۔

’’اگر وہ اپنے پاپا کو پوچھے تو …‘‘

حمیدہ کے اس سوال پر وہ چلائی نہیں، دھاڑیں بھی نہیں ماریں بلکہ کچھ چاہے کچھ نہ چاہے اٹک اٹک کر جواب دیا:

’’یہی جواب دیتی ہوں کہ حکومت نے اپنی خدمات لینے انھیں باہر بھیج دیا ہے۔ خوب کماتے ہیں…!!!‘‘

’’پھر تو تمہارا دل پھوٹ پھوٹ کر روتا ہوگا؟‘‘ انجانے میں حمیدہ نے سلمہ کے احساسات پر بھر پور وار کیا۔

’’ہاں! مگر حقیقت سے نا آشنا دو دل کھل کھل کر ہنستے بھی ہیں وہ ہیں دمہ کا مریض اور دل کی مریضہ جو میرے لیے قدرت کا انمول عطیہ ہیں۔‘‘ سلمہ کی آنکھیں بے اختیار ہوگئیں۔

’’پٹاخ!‘‘ اچانک ہوا کے ایک تیز جھونکے سے کھڑکی کا پٹ دیوار سے جا ٹکرایا۔ دوسرے ہی لمحے وہ کرسی سے اٹھی اور لپک کر دیوار پر آویزاں فریم کو پلٹا کر رکھ دیا۔

(حجاب اپریل ۱۹۸۰ء)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146