درس کیسے دیا جائے؟

استاذ بہی الخولی

واعظینِ کرام اور داعیان دین کامعروف طریقہ یہ رہا ہے کہ اپنے درس کا موضوع اللہ کی کتاب سے کسی آیت یا رسول اللہ ﷺ کی کسی حدیث کو بناتے تھے۔
درس دینے والے پر لازم ہے کہ وہ مہارت و باریکی، اور تفکر و تدبر سے کام لے، ہر کلمہ پر بلکہ بسا اوقات، ہر حرف پر ٹھہرنے غوروفکر کرنے کے نتیجے میں انسان کے ذہن میں ایسے اشارات اور نقطے نظر آتے ہیں جو اپنی روشنی تلاش و جستجو کرنے والے کے سینے میں اتار دیتے ہیں اور جس سے اس کا دل و ذہن کا بند دروازہ کھل جاتا ہے۔ اس میں وسعت آجاتی ہے اور اللہ کے اس فضل پر اسے مسرت ہوتی ہے۔اور وہ درس دینے والے کی باتوں کو اپنے دل کی آواز تصور کرتا ہے۔
اس لیے یہ بات بہت اہم ہے کہ درس لطیف و نفیس چیزوں سے معمور ہو، جن سے قلب میں حرکت پیدا ہوسکے اور اس کے الفاظ براہِ راست انسانی ذہن و فکر کو مخاطب کرسکیں۔آیت کے تمام الفاظ کے معنیٰ آپ کی سمجھ میں آجائیں تو آپ دیکھیں گے کہ الفاظ سے ہٹ کر بڑے بڑے اہم اور لطیف مفاہیم آپ کے ذہن میں آرہے ہیں تو ان سے نوٹ کرلیں، پھر انہیں ترتیب دے لیں اور ایک دوسرے سے مربوط کردیں۔ پھر گفتگو کا دائرہ وسیع کرکے اس مفہوم کی آیات و احادیث اور صحابہ کے اقوال و اعمال اور قدیم وجدید انسانوں کے حالات بیان کریں اور جہاں تک ہوسکے اس چیز کو آپ زندگی کے حوادث اور اس کے ایسے واقعات سے متصل کردیں ، جن کا انسان روز مرہ کی زندگی میںمشاہدہ کرتا ہے۔ اس طرح سننے والا قرآن کریم کو اپنی عملی زندگی سے قریب تر محسوس کرے گا اور اس کے عملی پہلوؤں کو بھی سمجھنے کے قابل ہوسکے گا۔ اگر حدیث کا درس بھی قرآن کے درس ہی کی طرح دیا جائے تو بہتر ہوگا۔ البتہ اس میںاس امر کا لحاظ رکھا جانا چاہیے کہ قرآن اللہ کا کلام ہے اور حدیث اس کی عملی و فکری تفسیر ہے۔ اس طرح حدیث کے درس میں جگہ جگہ قرآنی آیات کو پیش کرکے اللہ تعالیٰ کے حکم سے قریب کرکے دکھایاجاسکتا ہے۔
لیکچر سے کہیں زیادہ درس فائدہ مند ہے۔ درس کی تیاری ہر وقت آسان ہے بس آپ اپنے گھر میں یا مسجد میں بیٹھ جائیے تاکہ موجود لوگوں کو درس دے دیں اور لیکچر میں ایسا نہیں ہوتا۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ چونکہ درس میں عام طور سے تعداد کم ہوتی ہے اس لیے درس دینے والے کو اس بات پر قابو حاصل رہتا ہے کہ وہ سامعین کے دلوںمیں اپنی اچھوتی باتوں کے ذریعہ اثر ڈال سکے۔
بات کے دل پر اثر انداز ہونے کے لیے محض یہ کافی نہیں ہے کہ آپ کتاب اللہ اور سنتِ رسول کا مطالعہ کرتے اور ان کا شعوررکھتے ہیں، اس لیے کہ سامعین کا شعور آپ کے مقابلے میں کم بیدار ہوسکتا ہے، اس لیے آیت یا حدیث کا مضمون بیان کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اپنے ذوق، اپنی جسارت اور اپنے تجربات سے آپ سامعین پر چھا جائیں اور ان کو اس میں شریک کریں۔
سلمان فارسیؓ کہتے ہیں کہ : میں اللہ کے رسول کے ساتھ ایک درخت کے نیچے بیٹھا تھا۔ آپ نے اس کی ایک سوکھی شاخ پکڑ کر ہلائی یہاں تک کہ اس کی پتیاں جھڑ گئیں۔ آپؐ نے پوچھا: سلمان! تم مجھ سے یہ نہیں پوچھ رہے ہو کہ میں ایسا کیوں کررہا ہوں؟ میں نے پوچھا: اچھا بتائیے، آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپؐ نے فرمایا:
’’جب مسلمان وضو کرتا ہے اور اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر پانچ وقت کی نمازیں پڑھتا ہے تو اس کے گناہ اسی طرح جھڑجاتے ہیں جس طرح یہ پتیاں جھڑگئی ہیں۔‘‘
پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت کی:
واقم الصلوٰۃ طرفی النہار وزلفا من اللیل۔ ان الحسنت یذہبن السیات ذلک ذکری للذکرین۔ (ہود: ۱۱۴)
’’اور نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر۔ درحقیقت نیکیاں برائیوں کو دور کردیتی ہیں۔ یہ ایک یاددہانی ہے ان لوگوں کے لیے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں۔‘‘
آپ دیکھتے نہیں کہ اس خوبصورت عملی تمہید کے بعد ہمارے دل و دماغ میں قبولیت کی صلاحیت بڑھ گئی، بلکہ ان کی زندگی اور مسرت میں اضافہ ہوگیا کیوںکہ انہیں آیت کی روشنی اور اس کی بہترین توجیہ میسر آگئی گرچہ عقل و شعور کی بیداری میں نہ کوئی شخص رسول اکرمﷺ کے برابر ہوسکتا ہے نہ قرآن کے ذریعے کسی کے قلب میں وہ زندگی آسکتی ہے جو آپ کے قلب میں آتی تھی۔ اس لیے آپؐ نے یہ مناسب سمجھا کہ کتابِ الٰہی سے عبرت انگیزی کے لیے بہترین طریقہ اختیار کیا جائے پھر ہم لوگ تو آپؐ سے کہیں زیادہ اس کے حاجت مند ہیں۔
انسان اس طرح کی بے شمار تمہیدیں اکٹھا کرسکتا ہے جو ذہن کو بیدار کردیں اور راہ ہموار کردیں بشرطیکہ وہ آیت اور حدیث کااچھی طرح فہم رکھتا ہو، اس کے بعض اشارات اور مقاصد کو احاطہ کیے ہوئے ہو پھر وہ اس سے عجیب و غریب نکتے نکالے جس سے سامع حیرت میں پڑجائے یا کوئی لطیف پہلو مستنبط کرے جو نفس کو اس حقیقت کی معرفت پر متوجہ کردے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ کسی مردِ نیک نے اپنے پیروکاروں اور سامعین سے پوچھا: تم میں سے کون اس دنیا میں رہتے ہوئے جنت کی رہائش کو پسند کرتا ہے؟ اس کے جواب میں ہر ایک نے اپنی شدید خواہش کا اظہار کیا۔ حیرت کی بات تھی، جنت کا وعدہ آخرت میں کیا گیا تھا، پھر بھلا ہم اس میں کیسے داخل ہوسکتے ہیں؟
مردِ بزرگ نے کہا: پھر تو تم میں سے ہر ایک کو ذکر و علم کی مجلسوں کی پابندی کرنی ہوگی، اس لیے کہ ان میں سے ہر ایک جنت کا ایک باغ ہے اور اس مردِ نیک نے اللہ کے رسول کے اس قول سے استشہاد کیا:
’’جب جنت کے باغات سے تمہارا گزر ہو تو چرچگ لو۔‘‘ لوگوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! جنت کے باغات کون سے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ’’علم کے حلقے۔‘‘ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146