کوئی قبرستان کی یوں تعریف نہیں کرتا جیسے میں کررہا ہوں۔ ایک جدید آبادی میں صاف ستھری قرینے اور سلیقے سے بنی قبریں، ہر قبر کے مکین کا نمبر، نام وتعارف ایک جیسے بورڈ پر لکھا تھا۔قبروں کے درمیان ایک سا فاسلہ اور ہر ایک تک پہنچنے کا ایک سا راستہ تھا۔ چلنے کے راستے بڑے ہی سلیقے سے بالکل سیدھے بنائے گئے تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ پھول دار پودے لگے تھے۔ قبروں کی حالت دیکھ کر یہ نہیں لگتا تھا کہ یہاں بسنے والوں کے عزیز و اقارب انہیں دفنانے کے بعد کبھی پلٹ کر نہیں آئے۔ میری اہلیہ میرے ساتھ تھیں اور ہم اسی کی ایک کلاس فیلو کے ہاں تعزیت اور پھر ایک ’’کرٹسی وزٹ‘‘ کے لیے قبرستان تک آگئے تھے۔ اس بیچاری کی بہن اور تین بیٹیاں گھر میں آگ لگنے سے جان بر نہ ہوسکیں تھیں، بہنوئی نے جھلسنے کے بعد چھلانگ لگادی مگر زمین پر گرنے کے بعد اس سے بھی زندگی روٹھ گئی تھی۔ ایک ہی گھر سے چار جنازے اٹھے، چار قبریں آباد ہوگئیں۔ قبرستان سے ہم دونوں کی دلچسپی اس حد تک ہے کہ وہاں جانے کا نام بھی لے لیا جائے، تو ایک دوسرے سے ناراضی چہروں پر ہی آکر نہیںبیٹھتی بلکہ آنکھیں اور لفظ بھی دیر تک روٹھے رہتے ہیں۔ موت پر یقین ہے اور مرنے پر بھی، مگر جیتے جی اور جانتے بوجھتے تو ہم میں سے کوئی بھی مرنے پر آمادہ نہیں ہوتا، نہ ہی اپنے کسی پیارے کو اس موضوع پہ بات کرنے کی اجازت اور سہولت دینے کا خواہاں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قبرستان کے آس پاس بنے ہوئے گھر جن کے دروازے اور بالکونیاں قبرستان کے رخ کھلتی ہیں، وہ بیچنے تک مشکل ہوجاتے ہیں۔ قبرستان کے دروازوں کے پاس واقع پھولوں کی دکانوں سے شاید ہی کوئی پھول خرید کر گھر لانے کا روادار ہو۔ لوگوں کو ان تازہ پھولوں کی پتیوں سے بھی موت کی مہک آتی ہے۔
انہی قبروں کو دیکھتے، مکینوں کے نام پڑھتے جب ہم واپس آرہے تھے، تو ایک بے ضرر سی خواہش نے ضرور سر اٹھایا کہ ہر محلے اور سوسائٹی کے قبرستان بھی ایسے ہی سلیقے اور نفاست سے بنانے چاہئیں۔ یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں ہے، مگر توجہ اور سوچ کا مسئلہ ہے۔ وہ جس طرف ہوجائے انسان اسی کا سوچتا اور اسی کو وقعت دیتا ہے۔
غیر متوقع جملے، باتیں، سوال او رمنظر سبھی کسی نہ کسی طور ہمیں بے مزہ کرتے ہیں۔ کبھی تکلیف کا باعث بنتے ہیں اور کبھی زندگی کی رفتار میں کمی لاتے ہیں۔ اس روز قبرستان سے واپسی سے ذرا پہلے ایک قبر پر لکھے نام نے ہم دونوں کے قدم جکڑ لیے۔ ہمارے میزبان آہستہ آہستہ چلتے آگے نکل گئے۔ وہ قبر سنبل کی تھی۔
نوے کی دہائی میں دو کیس بہت مشہور ہوئے تھے۔ ایک کا تعلق بیرون ملک سے آئے دو بھائیوں کی ’’نوکیا کمیرا‘‘ نام کی ایک کمپنی سے تھا او ر اس کمپنی نے ایک ایک کروڑ روپے کے بل بورڈ اور ہورڈنگ لگانے کا آغاز کیا تھا۔ موبائل کلچر کے آغاز کے دن تھے جب ایک روز اشتہار چھپا کہ شرمین نام کی ایک ایم بی اے لڑکی کمپنی کا دو لاکھ لے کر بھاگ گئی ہے۔ بری بات ہو یا الزام ہم سننے اور ماننے میں تاخیر نہیں کرتے، مگر ہوا یہ کہ اس سے اگلے ہی روز شرمین پریس کلب پہنچ گئی اور اس نے روتے ہوئے کہا میں نے پڑھائی اپنی عزت اور وقار کے لیے کی ہے۔ میرے بڑوں نے یہی سکھایا تھا، زندگی میں سب سے بڑی دولت اپنے ہی ہاتھ اور وجود سے تعلق رکھتی ہے۔ میرے باس نے مجھے دفتر میں وجہ بے وجہ روکنا شروع کیا پھر اکاؤنٹنٹ کے ذریعے سبز باغ دکھائے، مگر میں نے اس کی ترغیب کے آگے جھکنے کے بجائے استعفیٰ دے دیا، تو اس نے بجائے اپنی کمینگی پر شرمندہ ہونے کے میرے خلاف اشتہار چھپوا دیا۔ اب میں چپ نہیں رہوں گی اور اسے سزا دلوا کر رہوں گی۔ معاملہ ایک لڑکی کی عزت اور وقار کا تھا، وہ حق اور سچ پہ تھی۔ دونوں بھائیوں کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا اور کروڑوں روپے کی کمپنی رسوائی سمیٹ کر تاریخ کے کوڑے دان کا یوں حصہ بنی کہ آج کسی کو نام بھی یاد نہیں۔
سنبل کی قبر پہ کھڑے ہم دونوں جانتے تھے کہ وہ کس قدر خوبصورت، جاذبِ نگاہ اور بولڈ تھی۔ ایک عام سے گھرانے سے تعلق رکھنے والے اس لڑکی کے خواب بہت بڑے بڑے تھے۔ آنکھوں کو خیرہ کرنے والی ترقی اور دولت سے بھرے۔ اس کی گفتگو میں ایک ہی ٹیپ کا بند ہوتا تھا ’’میں اپنے گھر کے حالات بدل کر رکھ دوں گی‘‘ دوسرا کیس اسی سنبل کا تھا۔
انہی دنوں میں لڑکیوں کے حقوق ’’جینڈر ایکویلٹی‘‘ کے لیے حکومت پنجاب کے قائم کردہ ایک ادارے کے زیرِ اہتمام ملک کی پانچ بڑی جامعات میں طلبہ کی کیریر کونسلنگ کے لیے نئی منتخب ہونے والی لڑکیوں کی پہلی ورکشاپ میں ماسٹر ٹرینر کے طور پر ٹریننگ کروانے کے فوراً بعد جامعہ پنجاب میں ’’جینڈر اسٹیڈیز ڈیپارٹمنٹ‘‘ میں منعقدہ ایک روزہ سیمینار کرانے کے لیے آیا تھا۔ وہیں سنبل سے ملاقات ہوئی، تب وہ جاب کررہی تھی اور خصوصی طور پر ورکشاپ میں شرکت کے لیے آئی تھی۔ اس نے بڑی شدت سے میری ایک بات سے اختلاف کیا۔ کہنے لگی آپ نے لڑکیوں کو کیوں ڈرایا ہے، انھیں کیوں کہا کہ آپ جتنی مرضی اچھی، ذہین اور خوبصورت ہوں، یاد رکھیے ہر جاب آپ کے لیے نہیں ہوتی، اچھی تعلیم اور بڑی ڈگری کا مطلب تھوڑی سمجھداری، ڈھیر سی کتابی معلومات، اکثر خطرناکی کو چھوتا اعتماد اور اچھی پہننے اوڑھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اداروں اور انسانوں کے چہروں کو پڑھنے اور جاننے کا وصف کہیں زیادہ ضروری اور لازم ہے۔ جو لڑکی اس وصف سے محروم رہ جاتی ہے، وہ کامیابی سے نہیں زندگی سے محروم ہوجاتی ہے۔ وہاں سے واپسی نہیں ہوتی، سفر کے آغاز میں ساری احتیاطیں کرلی جائیں، تو زندگی آسان ہی نہیں محفوظ بھی ہوجاتی ہے۔ اس کی دلیل بالکل مختلف تھی، بولی سر! ’’زمانہ بدل گیا ہے۔ بولڈ ہونا ضروری ہے۔ ہر جگہ جانا چاہیے، ہر کام کرنا چاہیے کسی کی جرأت نہیں آپ کو ہاتھ لگائے۔ حالات بدلنے ضروری ہیں، پھر وہ میرا جملہ دہرا کر مسکرائی حالات بدلنے کے لیے خیالات بدلنا ضروری ہیں۔‘‘
’’سر! آپ بھی اپنے خیالات بدل لیں…… یہ جینڈر ایکولٹی (Gender Equality) کا زمانہ ہے۔‘‘
تجربے اور مشاہدے کی فضیلت اسی لیے ہے کہ یہ جذبات کے جوار بھاٹے میں بھی سلامتی کے ساتھ کھلی آنکھوں سے دیکھنے اور سوچنے کی سہولت بہم پہنچاتا ہے۔
میں نے مسکراتے ہوئے ڈائس سے اپنے کاغذ سمیٹے اور کہنا شروع کیا: ’’ایکسپریس وے پر تیز رفتاری کی بظاہر ایکولیٹی ہے۔ سب 120 کی رفتار سے بھاگ سکتے ہیں۔ اس کی اجازت بھی ہے مگر ساتھ ہی جگہ جگہ ہدایات بھی لکھی نظر آتی ہیں۔ Keep the Distance، کب اچانک بریک لگانی پڑجائے، لین بدلنی پڑجائے، غیر متوقع حالات پیش آجائیں، احتیاطی فاصلہ نہیں ہوگا، تو حادثہ ضرور ہوگا۔
انسانی رشتوں، اداروں اور ان کے سربراہوں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ان کو سمجھنا، ان کے ساتھ بھاگنا، ترقی کی ساری حدیں پھلانگنا، بظاہر آزادی لگتا ہے ، مگر جونہی فاصلہ کم ہوتا ہے۔ حادثہ منتظر ہوتا ہے اور وہ اکثر جاب لیوا نہیں جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔
اسی لیے میری لکھی پڑھی اور غیر کتابی رائے یہ ہے کہ جو مرضی حالات ہوں، لڑکیو ںکو جاب کرتے ہوئے اپنی عزت، حفاظت اور وقار کی سلامتی کے محفوظ دروازے کی چابیاں اپنے ہاتھ میں ہی رکھنی چاہئیں۔ جہاں ایک آدمی ہی مالک اور سیٹھ ہو، جہاں لڑکیاں کام نہ کررہی ہوں، جہاں وجہ بے وجہ دیر تک بٹھانے کا رواج ہو، جہاں باس خود گھر ڈراپ کرنے کی سہولت دینے لگیں، کھانے اور پارٹیوں کی دعوتیں، مسلسل اور تواتر سے ملنے لگیں، سوشلائیزیشن کے نام پر کلائنٹس سے قربت اور روابط کے مواقع بڑھنے لگیں، وہاں خطرے کی گھنٹی نہ بجے، فاصلہ رکھنے کو دل نہ مانے اور بگٹٹ بھاگتے رہنے کی خواہش بے قابو ہوجائے، تو لمحہ بھر کو ضرور رک کر سوچنا چاہیے۔ یہ تخلیقی سوچ نہ سہی مگر احتیاطی سوچ ہے اور یہ احتیاط زندگی کو بربادی سے بچا لیتا ہے۔
سنبل سے ایک دن یہی چوک ہوگئی جب باس نے اسے ایک کلائنٹ سے ملنے اسلام آبا دجانے کو کہا۔ اس نے صاف منع کرنے کے بجائے کہا بڑی بہن اجازت نہیں دیں گی۔ باس نے کہا صبح صبح جہاز پر چلی جاؤ شام کو گھر آجانا۔ گھر بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ میں بھی اسلام آباد جارہا ہوں۔
اپنی اپنی میٹنگ بھگتا کر شام کو واپس گھر آجائیں گے۔ ٹکٹیں آگئیں اور اگلے روز دونوں اسلام آباد پہنچ گئے۔ مری روڈ پر واقع ایک موٹل میںکلائنٹ ہوٹل کی لابی میں موجود تھا۔ خوشگوار مسکراہٹوں کے تبادلے کے کچھ دیر بعد ڈائریکٹر صاحب رخصت ہوگئے۔ کلائنٹ کےکمرے میں ڈسکشن کامیاب رہی۔ ایگریمنٹ پہ دستخط کروا کے اٹھنے لگی، تو کلائنٹ نے مکروہ سی مسکراہٹ کے ساتھ دیا دلایاکہ معاہدے کی ایک شق باقی ہے۔ سنبل نے حیرت سے پوچھا وہ کیا؟ جواب ملا اتنی بھولی نہ بنو، لاہور سے اسلام آباد ہوئی ہو۔ ڈائریکٹر صاحب نے بتلایا تو ہوگا کہ تم ہماری اشتہاری مہم کی ڈیل کا حصہ ہو۔ سنبل انکار کرتے، مزاحمت کرتے، روتے ہوئے اپنے آپ کو بچانے میں کامیاب نہ ہوسکی۔ کلائنٹ نے اپنا بیگ اٹھایا اور خاموشی سے رخصت ہوگیا۔
سنبل لٹنے اور اپنی زندگی کی خوبصورتی سے محرومی کے بعد بیڈ کی پٹی سے لگی سسکیاں بھررہی تھی جب ویٹر کمرے میں داخل ہوا۔ سنبھل کو ناگفتہ بہ حالت میں دیکھ کر وہ سوری کہہ کر واپس چلا گیا۔ کچھ ہی دیر بعد اس کی واپسی فلور منیجر کے ساتھ ہوئی۔ جس نے آکر اسےتسلی دی۔ اس ظلم پر اظہارِ ہمدردی کیا اور اس سے وعدہ کیا کہ اس درندے کو برے انجام تک پہنچانے میں وہ مکمل ساتھ دے گا۔ منیجر کے کمرے میں پانی پینے کے بعد اسے لگا کہ اس دنیا میںکچھ اچھے لوگ بھی ہیں، جن میں انسانیت باقی ہے۔ روتے روتے اسے اونگھ آگئی یا پانی کی تاثیر نے اسے سلادیا۔ جب اس کی آنکھ کھلی، وہ ہوٹل منیجر کے کمرے میںایک بار پھر لٹ چکی تھی۔ انسانی شکل میں ایک دوسرا سوٹڈ بوٹڈ سانپ اسے ڈس چکا تھا۔ اندرونی اور بیرونی زخموں سے چور اس لڑکی کی زندگی سے معصومیت، خوشی، اعتماد، اعتبار سب رخصت ہوچکا تھا۔
وہ ایک ڈری سہمی ہرنی کی طرح وہاں سے نکلی، تو خالی ذہن اور خالی ہاتھ تھی۔ واپسی کی ٹکٹ اس کے باس کے پاس تھی اور وہ اس نامہرباں شہر میں پہلی بار آئی تھی اور خوف، دکھ اور بے بسی کے ان لمحات میں ٹیکسی میں بیٹھنے کے بعد وہ محلِ وقوع کی Orientationہی نہیں اپنے حواس بھی کھوچکی تھی۔ ٹیکسی ڈرائیور نے اس کے پرس سے گھر کا پتا دیکھ کر موٹروے پر چند گاڑیو ںکو روکنے کی بعد ایک معقول اور خدا ترس فیملی کے سپرد کیا جو لاہور جارہی تھی۔ سنبل رات دیر گئے اپنے گھر پہنچائی گئی۔ جہاں بیوہ ماں اور بہن اس کی گمشدگی سے رو رو کر ہلکان تھیں۔ دفتر والوں نے خیر خبر دینے کے بجائے سرے سے اس کے دفتر آنے ہی سے انکار کردیا تھا۔ سنبل کی اس حالت کی خبر محلے میں آگ کی طرح پھیلی کہ جس کی لپٹوں اور تپش سے خوفزدہ ہوکر ماں بیٹیوں کو محلہ ہی چھوڑنا پڑا۔ جن لوگوں نے اسے اس حالت میں دیکھا وہ بتاتے تھے کہ وہ سارا سار دن آسمان کو تکتی رہتی اور اس کی آنکھیں نیر بہاتی رہتیں۔’’میں حالات بدل دوں گی۔‘‘ شاید وہ یہ کہنا چاہتی تھی یا شاید وہ جان گئی تھی کہ اس قیمت پر حالات کبھی نہیں بدلتے۔ اس واقعے کے بعد جب تک وہ سانس لیتی رہی، کسی نے اس کی آواز نہیں سنی۔ سارا صدمہ، دکھ، اذیت، بے عزتی اور ذلت جو اس کے بدن اور روح نے سہی تھی، وہ اس کی برداشت سے باہر تھی۔ ہم ان دنوں اس سے ملنے اور عیادت کے لیے جانے کا حوصلہ جمع نہ کرپائے تھے تو وہ زندہ رہنے کی ہمت کیسے مجتمع رکھتی۔ ایک روز اس کی برداشت اور اس کے اعضا جواب دے گئے۔ خدا جانے یہ نادانی چھوٹی تھی کہ بڑی جو اس نے اپنی نوکری اور باس سے وہ فاصلہ نہ بناکر رکھا جہاں وہ حفاظتی بریک لگاسکتی، ناں کرسکتی ۔ چور دروازہ دکھانے والے کی نیت اور ارادے کو پہچان پاتی۔
سچ تو یہ ہے کہ بظاہر خوبصورت، پیاری اور معصوم سی لڑکیاں عام طور پر سامنے والے کے ارادے اور نیت کو ہی نہیں جان پاتیں اور ایک مسکراہٹ، دو پیار بھرے بول، تین چار تحائف اور چند ڈرامائی اور جذباتی ڈائیلاگ انھیں ڈھیر کردیتے ہیں۔ چند سال پہلے رائے ونڈ روڈ پر واقع ایک یونیورسٹی جہاں میں ایچ آرڈی کا سربراہ تھا ۔ ایک شام دیر تک ’’ویگنزا‘‘ کی تقریبات چلتی رہیں۔ لڑکے رقص کرتے رہے، لڑکیاں داد دیتی رہیں اور اساتذہ کونوں کھدروں میں بے بسی سے منہ چھپائے کھسیانی ہنسی سے اپنے آپ کوبہلاتے رہے۔
سلیقے سے بنی قبروں کے بیچ ایک خوبصورت لڑکی کی قبر آباد دیکھ کر میں اپنے اندر تک ویرانی محسوس کررہا تھا۔ قبرستان کے راستے بالکل صاف اور سیدھے تھے مگر زندگی ایسی صاف اور سیدھی کہاں ہوتی ہے۔ یہاں ٹوٹے خوابوں کے ٹکڑے ان چاہی ذلتوں کے داغ جگہ جگہ نوٹس بورڈ لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ کیپ دا ڈسٹینس (Keep The Distance)۔ لوگ اور ادارے اور عارضی بنے رشتے ویسے نہیں ہوتے، جیسا یہ معصوم، خوبصورت اور سادہ دل لڑکیاں سوچتی ہیں اور بن سوچے نئے رشتے بنانے اور اپنے حالات بدلنے نکل کھڑی ہوتی ہیں۔
کوئی میری طرح یوں قبرستان کی تعریف نہیں کرتا، جہاں ایک معصوم و مظلوم لڑکی کے نام کا کتبہ بھی لگا ہو۔ اکثر تو کتبے لگانے کی نوبت ہی نہیںآتی، آنسوؤں سے لکھے نام ویسے ہی دھل جاتے ہیں۔