میں نے زمین پر پڑے اخبار کو اٹھایا ۔ ابھی پوری طرح کمر سیدھی بھی نہیں ہوئی تھی کہ صائمہ بھاگتی ہوئی آئی اور گردن سے لپٹ گئی ۔ اس نے بھی دائیں ہاتھ سے اسے جکڑکر رخسار پر ہلکا سا بوسہ لیا۔
’’کیا بات ہے بیٹے آج بڑی جلدی جاگ گئی ۔‘‘
’’ابو دیکھئے نا میری گڑیا کی گردن کسی نے مروڑ دی ، کپڑے بھی پھاڑ دئیے ہیں۔‘‘
’’افوہ!ـــــــــــــــــــــــــ…یہ تو بہت برا ہوا …کوئی بات نہیں میں دوسری گڑیا لا دوں گا ۔ ‘‘
’’نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔مجھے دوسری گڑیا نہیں چاہئے۔‘‘ اس نے روہانسا سا منہ بنا لیا ۔
’’ٹھیک ہے میری گڑیا رانی…امّی اس کو ٹھیک کر دے گی …جائو امّی سے کہوکہ میں لان میں ہوں چائے وہیں لگا دیں ۔ ‘‘
وہ لان میں پہنچ کر آرام کرسی پر دراز ہو گیا۔ اخبار کھولا پہلے صفحے کی سرخی پر نظر گئی ۔ وہ چونک گیا۔
’’چھ سالہ بچی کی لاش گھر کے سامنے ملی ۔‘‘
اس نے اپنی عینک صاف کی اور تجسس کی نگاہ سے خبر پڑھنے لگا۔
’’ درندوں نے ایک چھ سالہ بچی کوگلا دبا کر مار ڈالا۔ جسیم پورکی رہنے والی یہ معصوم دو دن سے لاپتہ تھی ۔ وہ مقامی اسکول میں دوسرے درجے کی طالبہ تھی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بچی کے ساتھ ریپ ہونے کے ثبوے ملے ہیں ۔ اس غیر انسانی فعل کے بعد گلا دبا کر قتل کرنے کی بھی تصدیق ہوئی ہے ۔‘‘…
اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اورآنکھیں دھندلانے لگیں ۔
’’جی آپ کی چائے‘‘… بیوی کی آواز سے وہ چونک گیا۔
’’ہاں یہیں رکھ دو‘‘۔۔۔۔اس نے مردنی سی آواز میں کہا اور عینک صاف کرنے لگا ۔
’’کیا ہوا آپ پریشان لگ رہے ہیں؟‘‘۔۔۔۔۔ بیوی نے اس کی بھیگی ہوئی آنکھیں دیکھ لیں۔ اس نے اخبار بیوی کی طرف بڑھا دیا ۔بیوی نے اخبار پر نظر دوڑائی ، سرخی دیکھ کر دنگ رہ گئی۔ منہ سے بے اختیار نکلا۔’’ کیا؟ ۔۔۔۔ انسان ایسی درندگی کیسے کر سکتا ہے؟‘‘اس کی آنکھیں بھی آنسوئوں سے بھیگ گئیں۔
وہ لب ساکت کھڑا ہوا ۔ سامنے لان میں اس کی بٹیا اپنی گڑیا کو بڑے پیا ر سے گود میں لٹائے چوٹی گتھ رہی ہے۔ ’’۔۔۔۔وہ بھی اتنی ہی بڑی رہی ہوگی ۔۔۔بالکل ایسی ہی معصوم ۔۔۔۔۔۔۔ ننھی سی ۔۔۔۔ظالم درندے۔۔۔۔۔وحشی ۔۔۔۔‘‘ اس کی نگاہ صائمہ پرٹھہر گئی۔
اب وہ کچھ گنگنا رہی ہے ،شاید اپنی گڑیا کو لوری سنا رہی ہے۔
’’صائمہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!‘‘
’’جی ابو۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’بیٹے اندر جائو۔۔۔۔۔۔۔۔۔اندر ہی کھیلنا۔۔۔۔۔۔۔باہر مت نکلنا۔۔۔۔۔‘‘
بیوی دم بخود اس کی کیفیت دیکھتی رہی۔۔۔۔۔۔۔صائمہ ابھی تک گڑیا سے کھیل رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ایک عجیب و غریب مثلث نما منظر ۔۔۔۔۔۔صائمہ کی کل کائنات گڑیا ۔۔۔۔۔بیوی کا مرکز نگاہ ’’وہ خود‘‘اور صائمہ اس کی زندگی ۔۔۔۔۔ صائمہ اپنے کھلونے لے کر خاموشی سے اندر چلی گئی۔ بیوی بدستور اسے دیکھ رہی ہے ۔’’آپ پریشان نہ ہو ۔اللہ بہت بڑا محافظ ہے۔‘‘
’’ہوں۔۔۔۔۔‘‘
وہ بہت دیر تک وہیں کھڑا کچھ سوچتا رہا پھر گھر کے اندر داخل ہوا مگر اس کا ذہن اسی خبر پر ٹکاہوا تھا ۔ ’’کیا خطا تھی اس معصوم کی ؟۔۔۔کیا انسان ۔درندہ ہوگیا ہے؟ ۔۔۔۔ یا اس سے بھی خطرناک؟‘‘
آفس جاتے ہوئے اس نے بیوی کوہدایت دی۔’’خیال رکھنا ۔۔۔۔گھر سے باہر مت نکلنے دینا۔ ‘‘ صائمہ کی پیشانی چومی اور گھر سے نکل پڑا۔
گلی سے شاہراہ تک ، شاہراہ سے بس اسٹاپ تک انسانوں کا جم غفیر تھا۔ ہر شخص اپنے آپ میں مصروف ہونے کے باوجود اسے وحشیوں کی مانند محسوس ہو رہا تھا ۔ وہ وحشت زدہ چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ نوکیلے دانتوں اور تیز پنجوں والے درندوں کے درمیان کھڑا ہے۔ گلی کے نکڑ کے پاس ایک عجیب ڈراونی شکل والا شخص گزر رہا تھا۔ اس کے جسم میں لرزش پیدا ہو گئی ۔ اس نے فورا موبائل نکال کر نمبر ڈائل کیا ۔
’’ہلو‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ہاں ہلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب خیریت ہے نا۔۔۔۔۔۔؟‘‘
’’جی سب خیریت ہے۔۔۔۔۔ ابھی تو آپ ۔۔۔۔؟‘‘
’’صائمہ ۔۔۔۔۔؟‘‘
’’یہیں آنگن میں کھیل رہی ہے ۔‘‘
اسے قدرے اطمینان ہوا۔ اب وہ آفس پہنچ چکا تھا مگر کام میں دل نہیں لگ رہا تھا ۔ آفس میں اسی خبر پہ گفتگو ہو رہی تھی ۔
’’اب لڑکیاں بالکل محفوظ نہیں۔‘‘
’’آئے دن ایسے حادثات بڑھتے جا رہے ہیں۔‘‘
’’ایسے مجرموں کو توپھانسی دے دینی چاہیے۔‘‘
’’بھا ئی صاحب آپ نے ڈاکٹر کا بیان پڑھا، ۔۔۔۔پوسٹ مارٹم کرنے والا ڈاکٹر بھی کانپ گیا۔‘‘
’’جناب پورا شہر کانپ رہا ہے۔‘‘
’’پچھلے سال کے آنکڑوں کے مطابق پورے ہندوستان میں چوبیس ہزار ریپ ہوئے ہیں۔‘‘
’’شرما صاحب یہ جو آنکڑے ہیں، یہ تو ان کے ہیں جن کی رپورٹنگ ہوئی ہے ۔۔۔۔مگر کتنی ہی ایسی مجبور اور بے بس ہیں جن کی رپورٹ لکھی ہی نہیں جاتی ۔‘‘
’’ہاں بھائی ۷۰فیصد لڑکیاں اپنی عزت بچانے کے لیے رپورٹ ہی نہیں کرتیں ۔‘‘
دن بھر آفس میں یہی چرچہ ہوتی رہی مگر وہ خاموش رہا۔ شاید کسی گہری سوچ میں تھا۔ وہ اپنی کرسی پر بیٹھا لوگوں کے مباحثے سنتارہااور کسی ناگہانی خوف سے اس کا چہرہ سرخ ہوتارہا۔ وہ ریسور اٹھا کر نمبر ڈائل کرتا۔ تھوڑی دیر بات کرتا اور پھر ریسیور اپنی جگہ رکھ کر گہری سانس لیتا ۔ وہ لنچ کے بعدمرزا صاحب کے کیبن میں چلا گیا ۔
مرزا صاحب اپنی کرسی پر گھومتے ہوئے بولے۔ ’’میاں اگر یہی حال رہا تو انسان بیٹی پیدا ہوتے ہی گلا دبا دے گا۔‘‘
وہ خاموش رہا۔
’’بھئی آپ خاموش کیوں ہیں خیریت تو ہے؟‘‘
تھوڑی دیرپھر خاموشی رہی۔
’’مرزا صاحب میں بھی ایک معصوم بچی کا باپ ہوں ۔ اس خبر نے میرے دل و دماغ پر جو اثر کیا ہے میں بیان نہیں کر سکتا ۔ سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ انسان ہونا گناہ ہے یا پھر کسی بچی کا باپ ہونا۔۔۔۔۔؟‘‘یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی عینک اتار کر آنکھیں صاف کیں اور اٹھ کھڑا ہوا۔ گھر آکر اس نے تھوڑی راحت محسوس کی مگر پھر بھی اس کا ذہن مضطرب تھا ۔
شام کا وقت تھا۔ وہ لان میں آرام کرسی پر بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا ۔وہیں تھوڑی دور پر اس کی بیٹی صائمہ کھیل رہی تھی۔ پاس ہی ایک پھاوڑا پڑا ہوا تھا۔ وہ سر ٹیک کرکرسی پر دراز ہو گیا ۔
مرزا صاحب کی آواز اس کا پیچھا کر رہی ہے وہ آبادی سے دور بالکل سنسان بیابان کی طرف چلا جا رہا ہے ۔۔۔۔کاندھے پر پھاوڑا ہے۔۔۔۔اس کی بیٹی انگلی تھامے اس کے ساتھ چل رہی ہے۔۔۔۔ننھی سی جان تھک کر بے حال ہو رہی ہے۔۔۔۔۔وہ کئی بار پوچھ چکی ہے۔’’ابو ہم کہاں جا رہے ہیں؟‘‘یکا یک شاہراہ کو چھوڑ کر وہ پتلی پگڈنڈی کے راستے سے پہاڑی کی طرف چل پڑتا ہے۔ ’’ابو کیا ہم پہاڑی پر جا رہے ہیں ؟‘‘ مگر جواب میں خاموشی کے سوا کچھ نہیں ملتا ؟۔۔۔۔سعادت مند بیٹی پھر چلنے لگتی ہے۔ پہاڑی کے سرے پر وہ رک جاتے ہیں ۔۔۔۔۔بیٹی کو ایک ٹیلے پر بیٹھا کر وہ زمین کو کھودنے لگتا ہے ۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر کدال چلاتا ہے پھر بیٹھ کر گڈھے سے مٹی نکالتا ہے ۔۔۔۔پھر کھودتا ہے۔۔۔۔پھر مٹی نکالتا ہے۔۔۔۔۔ اس کی بیٹی بھی اب مدد کر رہی ہے۔ وہ بھی گڈھے سے مٹی نکالتی ہے ۔۔۔۔۔۔
باپ نے گڈھے کی پیمائش کی ۔۔۔۔ابھی تھوڑی سی کسر باقی ہے ۔۔ ۔۔۔ ۔وہ تھک کر نڈھال ہو چکا ہے ۔۔۔۔۔۔اس کی ہمت جواب دے رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی نگاہ اپنی بیٹی پرپڑی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر وہ تمام تر قوت کو جمع کرکے مٹی نکالنے لگتا ہے۔ کچھ مٹی اس کے کپڑوں پر بھی لگ رہی ہے ، بیٹی اس کے کپڑے صاف کر دیتی ہے اور مسکراتے ہو ئے اپنے باپ کو دیکھتی ہے ۔۔۔۔اس کی نگاہ بیٹی کے مسکرتے چہرے پر پڑتی ہے، اس کی آنکھیں بھر آتی ہیں ۔۔۔۔۔آنکھوں سے چند قطرے آنسو نکل کر مٹی کے ڈھیر میں گم ہو جاتے ہیں۔ کچھ دیر توقف کے بعدآسمان کی طرف دیکھتا ہے ۔۔۔۔۔پھر اپنی آنکھیں بند کرتا ہے اور اپنی بیٹی کو اس گڈھے میں ڈال کر جلدی جلدی مٹی ڈھکنے لگتا ہے۔ اس کی آنکھیں بند ہیں، وہ کچھ دیکھنا نہیں چاہتا ۔۔۔۔۔اس کے کانوں میں رونے کی ، چیخنے کی ، عاجزی کی آواز گونج رہی ہے مگر وہ کچھ سننا نہیں چاہتا ۔ وہ تیز تیز مٹی ڈالتا رہتا ہے ۔۔۔۔۔ڈالتا رہتا ہے۔۔۔۔ یہاں تک کہ وہ آواز آنا بند ہو جاتی ہے ۔اس کی انکھوں سے زار و قطار آنسو نکل رہے ہیں ، وہ پسینے سے تر ہو چکا ہے ۔
اچانک اپنی گردن کے گرد کسی کا لمس محسوس کرتا ہے۔ اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ وہ اپنی آرام کرسی پر سر ٹیکے لیٹا ہوا تھا۔ اس کی بیٹی صائمہ اس کے گردن سے لپٹی ہوئی مسکرا رہی تھی ۔ اس نے اپنی آنکھیں صاف کیں ، پیشانی سے پسینہ پونچھا پھر اپنی گردن سے لپٹے نرم ہاتھ کو پکڑ کر سامنے لایا، اس کی پیشانی چوم کر سینے سے چپکا لیا۔ ’’خدا تمہیں ہر مصیبت سے محفوظ رکھے۔‘‘lll