ایک طویل جدوجہد کے بعد 1947 میں ہمارا ملک انگریز حکومت کے تسلط سے آزاد ہوا، آزادی کے بعد ہمارے قائدین اور دستور ساز اسمبلی کے ارکان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج ایک ایسے جامع دستور کی تدوین و ترتیب تھا جو ملک کے تمام شہریوں کے لیے ایک محفوظ و باعزت زندگی جو انسانی اقدار پر مبنی معیار زندگی کو یقینی بنانے میں کامیاب ہوسکے۔ خصوصاً ان طبقات کے لیے جن کا صدیوں سے استحصال ہوتارہا ہے جن میں خواتین بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ خواتین کے حقوق کے تحفظ و ہمہ جہت ترقی کو یقینی بنانا جہاں ضروری تھا وہیں ایک بڑا چیلنج بھی تھا۔
دستور سازاسمبلی کا پہلا اجلاس 9دسمبر 1946ء کو ہوا جس کے بعد 11دسمبر1946ء کو ڈاکٹر راجندر پرساد اس کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ آئین کو وضع کرنے کے لیے بہت سی کمیٹیاں بھی قائم کی گئی تھیں اور ان کمیٹیوں کی رپورٹ کی بنیاد پر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی قیادت میں 19اگست 1947ء کو ایک ڈرافٹنگ کمیٹی وجود میں آئی۔ فروری 1948ء میں اس قانون کا مسودہ (ڈرافٹ) شائع کیا گیا، دستور ساز اسمبلی میں 284 اراکین اسمبلی کی دستخط کے ساتھ دستور ہند کا مسودہ تیار کیا گیا تھا۔ 26نومبر 1949ء کو آئین کو منظوری دے دی گئی اور اس کا اطلاق 26جنوری 1950ء کو ہوا۔ 1950ء سے اب تک اس آئین میں تقریباً 103ترمیم ہو چکی ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ہمارے ملک میں زمانہ قدیم سے خواتین کو مردوں کے مقابل یکساں درجہ کبھی حاصل نہیں رہا ہے۔ مذاہب کے ساتھ ساتھ سماجی و تہذہبی بنیادوں پر بھی خواتین کے ساتھ جنس کی بنیاد پر تفریق کا سلوک ہوتا رہا ہے۔ تعلیم کا میدان ہو یا روزگار کا، خواتین کے لیے یکساں مواقع موجود نہیں تھے۔ دستور نے خواتین کو یکساں مواقع و مساوی درجہ فراہم کرنے کی غرض سے متعدد دستوری مراعات و حقوق فراہم کیے ہیں۔ دستور کی یہ مساوی تعلیمات آئین کے پریمبل (تمہید) سے شروع ہوتی ہیں جو صاف الفاظ میں کہتا ہے کہ‘‘ہم، بھارت کے عوام متانت و سنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ بھارت کو ایک مقتدر سماج وادی غیر مذہبی عوامی جمہوریہ بنائیں گے اور اس کے تمام شہریوں کے لیے سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف حاصل کریں گے، تمام ہی شہریوں کے لیے اظہار خیال، عقیدہ، دین اور عبادت کی آزادی کے ساتھ تمام شہریوں کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں گے۔ دستور کے پریمبل نے ہی یہ واضح کردیا کہ ہمارے دستور نیز دستوری حکومت میں تمام شہری چاہے وہ مرد ہوں یا عورت دستور کی نگاہ میں یکساں اہمیت اور درجہ کے حامل ہوں گے جن کے ساتھ جنس، نسل، زبان، مذہب، رنگ یا علاقہ کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی کوئی تفریق نہیں کی جائے گی۔
دستور کا آرٹیکل 14 عمومی اصول کے طور پر تمام شہریوں کو قانون کی نظر میں یکساں ہونے کا یقین دلاتا ہے، یعنی قانون کی نظر میں تمام شہری برابر ہوں گے نیز تمام ہی شہریوں کو قانون کا یکساں تحفظ فراہم ہوگا۔ دستوری برابری کے بعد عورت پر ظلم کرنا مرد کے لیے کم از کم اصولاً اب جائز نہیں رہا، اور یہیں سے برابری کی وہ روح ہمارے نظام قانون میں سرایت کرتی ہے جو سماج میں عورت کے خلاف رائج جرائم کو روکنے کے لیے حرکت میں آتی ہے، مثلا گھریلو تشدد یا جہیز جیسے جرائم کو ختم کرنے کی کوشش تاکہ مرد اور عورت دونوں ہی قانونی طور پر برابر و مستحکم ہوسکیں۔
آرٹیکل 15 شہریوں کی مساوی دستوری حیثیت کو یقینی بناتا ہے۔ آرٹیکل 15 (1) و (2) کے تحت حکومت یا ریاست کسی بھی شہری کے ساتھ مذہب، نسل، ذات، جنس یا جائے پیدائش کی بنیاد پر کوئی تفریق یا بھید بھاؤ نہیں کرے گی۔ آرٹیکل 15 (3) حکومت کے اوپر ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ وہ خواتین اور بچوں کی فلاح و بہبود نیز ان کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اسپیشل تجویز تیار کرے۔ آرٹیکل 15 (4) کے تحت حکومت کو یہ دستوری ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ سماجی و تعلیمی میدان میں پسماندہ وپچھڑے طبقات کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مخصوص تجاویز تیار کرے۔
آرٹیکل 15 میں پیش کی گئیں دستوری تجاویز کی روشنی میں خواتین کے تحفظ اور ان کے ساتھ ہونے والے بھید بھاؤ اور تفریق کو ختم کرکے، ان کی فلاح و بہبود کی غرض سے کئی اہم قوانین تیار کیے گئے۔
آرٹیکل 16 تمام شہریوں کو یہ دستوری حق فراہم کرتا ہے کہ حکومت ان کو روزگار کے مواقع نیز حکومتی اداروں میں تقرری کے یکساں مواقع فراہم کرے گا۔
آرٹیکل 39 کے مطابق حکومت کو مرد و خواتین کے یکساں حقوق کو یقینی بنانے کی سمت میں پالیسی بنانے کا حکم دیا گیا، نیز مرد و خواتین کو یکساں کام کے لیے یکساں اجرت کو یقینی بنانے کی رہنمائی کی۔
آرٹیکل 42 حکومت کو یہ حکم دیتا ہے کہ میٹرنٹی ریلیف و منصفانہ پالیسی کو یقینی بنائے، یہ اسکیم خواتین کے لیے نہ صرف معاشی تعاون کی غرض سے ضروری تھی بلکہ ان کو معاشی تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کے روزگار کو بھی قائم و باقی رکھنے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔
آرٹیکل 51A تمام شہریوں کو بطور بنیادی فریضہ کے یہ رہنمائی کرتا ہے کہ خواتین کے تئیں عزت و احترام کا رویہ اپنائیں نیز ہتک آمیز رویہ سے گریز کریں۔
آرٹیکل 243 کے تحت پنچایت و میونسپلٹی کی ایک تہائی سیٹوں کو خواتین کے لیے مختص کرنے کا حکم دیتا ہے، نیز پنچایت و میونسپلٹی کی تمام نوکریوں میں ایک تہائی یعنی 33 فیصد نوکریاں بھی خواتین کے لیے مختص کی جائیں گی۔
آئین کے ذریعے تحریر شدہ حقوق اور حکومت کو دی گئی ہدایات اور احکامات کی روشنی میں خواتین کے حقوق و مفادات کے تحفظ کے لیے حکومت نے متفرق قوانین و متعدد پالیسیاں اختیار کیں، مثلا گھریلو تشدد پر روک تھام کے لیے مخصوص قانون بنایا، جہیز و ستی جیسی سماجی برائیوں کی روک تھام کے لیے خاص قانون بنائے، تعزیرات ہند (انڈین پینل کوڈ) 1860میں ’’خواتین کے خلاف جرائم‘‘کا الگ باب موجود ہے، ورک پلیس (کام کرنے کی جگہ) پر ہونے والے جرائم کی روک تھام کے لیے سپریم کورٹ نے’’وشاکھا بنام اسٹیٹ راجستھان‘‘ کے تاریخی فیصلے میں رہنما اصول متعین کیے، تاہم ان تمام دستوری شقوں، قوانین اور حکومتی پالیسی کے بعد خواتین کی صورت حال میں کیا تبدیلیاں آئیں؟ اس اہم سوال پر ایک تجزیاتی مطالعہ کی اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اہم دستوری اقدامات میں 1993 کا مرکزی قانون’’قانون برائے تحفظ حقوق انسانی‘‘1993 اور پھر نیشنل و صوبائی کمیشن برائے حقوق انسانی کا قیام، خواتین کے مسائل کے جلد حل نیز ان کے تحفظ کے لیے ہمہ وقت کوشش کرنے کی غرض سے 1990 میں’’نیشنل کمیشن برائے خواتین‘‘ کے ساتھ صوبائی سطح پر’’صوبائی کمیشن برائے خواتین‘‘کا قیام کرنا ہے۔ خواتین کے تحفظ کے لیے سخت قوانین پاس ہونے نیز پرانے قوانین میں ترمیم کرکے سخت تجاویز شامل کرنے میں نیشنل کمیشن برائے خواتین کی کوششوں و کاوشوں کا بہت اہم کردار رہاہے۔ دستور ہند کی تعلیمات کی روشنی میں خواتین کے ارتقا کے لیے متعدد دیگر پالیسیوں کا بھی تعارف ممکن ہوا جن میں’’قانون برائے یکساں اجرت (Equal Remuneration Act)‘‘، غیر اخلاقی اور جسمانی کاروبار میں استعمال کرنے کے لیے غریب و مجبور لڑکیوں کو نوکری یا شادی کا جھانسہ دے کر شہروں میں لے جاکر فروخت کردیا جاتا ہے، ایسی کسی بھی انسانی تجارت کو غیر قانونی تسلیم کرتے ہوئے اس کی روک تھام کے لیے قانون (The Prevention of Immoral Traffic Act) کا پاس ہوا۔ ہمارے سماج میں جہیز کی مانگ ایک سماجی لعنت ہی نہیں بلکہ نظام قانون کے لیے ایک چیلنج بن گیا ہے جس کو ختم کرنے کے لیے مخصوص قانون بنام’’جہیز مخالف قانون‘‘بنایا گیا۔ دستور ہند میں خواتین کے بنیادی حقوق نیز یکساں مواقع کے لیے بڑے اور بنیادی چیلنجز میں شمار ہوتے ہیں۔
معاشرے میں خواتین کے مالی و اقتصادی حقوق کا تحفظ ضروری ہے اور اس کی شروعات وراثت سے ہوتی ہے۔ ہمارے سماج میں خواتین کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا تھا، مسلمانوں میں اگرچہ شرعی طور پر وراثت میں خواتین کو حصہ داری ہے مگر کم ہی مسلمان اس پر عمل کرتے ہیں۔ ایک طویل جدوجہد اور بحث ومباحثے کے بعد ہمارے ملک کی پارلیمنٹ نے 1956 میں’’ہندو وراثت قانون (The Hindu Succession Act,1956)‘‘ پاس کیا جس کے بعد وراثت میں خواتین کو دستوری و قانونی طور پر مساوی حق حاصل ہوا۔
جہیز کی لالچ میں خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی نیز ان کا قتل سماج اور ملک کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتا جارہا ہے، یہ ایک ایسا سماجی مسئلہ ہے جس کو روکنے میں نہ صرف سماج بلکہ ہمارا نظام قانون بھی پوری طرح ناکام ہوتا محسوس ہورہاہے، اگر ہم جہیز کے لیے ہونے والی اموات کا سرکاری اعدادوشمار دیکھیں تو یہ چونکادینے والے ہیں،مگر ہم اس وقت ان پر گفتگو نہیں کرتے بات صرف اتنی ہے کہ اس ناکامی کے اسباب و وجوہات کیا ہیں؟
اس کی دو اہم وجہیں ہوسکتی ہیں، پہلی یہ کہ انڈین پینل کوڈ میں موجود دفعہ 498A کا صحیح استعمال نہ ہونا نیز دوسرا جہیز مانع (روک تھام) قانون میں موجود تجاویز پر حکومتوں و عدالتوں کا عمل درآمد کرانے میں ناکام ہونا، مثلا جہیز روک تھام کے لیے مخصوص آفیسر کا موجود نہ ہونا جس کے سبب جہیز کی مانگ کو لے کر ہونے والی شکایات کا ریکارڈ نیز مستقل نگاہ میں رکھنا ممکن نہیں ہوتا۔
خواتین کے ساتھ گھریلو تشدد کے واقعات ہمارے سماج کے لیے معمول کے واقعات بن گئے ہیں، معمولی باتوں یا کسی بھی وجہ سے خواتین خصوصا بیوی کے ساتھ مارپیٹ کرناخصوصا خواتین کی عزت نفس نیز ان کے انسانی حقوق کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے، انڈین پینل کوڈ میں متعدد دفعات موجود ہونے کے باوجود مزید تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے 2005 میں پارلیمنٹ نے’’پروٹیکشن آف وومن فرام ڈومسٹک وائلنس ایکٹ 2005‘‘ (Protection of Women from Domestic Violence Act,2005)پاس کیا، جس کا واحد مقصد خواتین کو تحفظ فراہم کرنا تھا لیکن اس قانون کو پاس ہونے کے تقریبا 16 سال کے بعد بھی خواتین کے ساتھ ہونے والے گھریلو تشدد کے واقعات میں کوئی خاطر خواہ کمی دیکھنے کو نہیں ملتی۔
کام کرنے کی جگہ مثلا آفس، کارخانہ، ورکشاپ جیسی جگہوں پر خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے بڑھتے واقعات کی روک تھام کے لیے سپریم کورٹ آف انڈیا نے 1997 میں وشاکھا فیصلے میں رہنما اصول وضع کیے، یہ رہنما اصول وشاکھا گائیڈ لائنس کے نام سے موسوم ہیں۔ امید تھی کہ ان رہنما اصولوں کے بعد ورک پلیس پر خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر قابو کیا جاسکے گا لیکن کوئی خاطرخواہ تبدیلی نہ ہوسکی، چنانچہ کام کرنے کی جگہ پر خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے ایک بل پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا جس کا نامSexual Harassment of Women at Workplace (Prevention, Prohibition and Redressal Bill 2013 تھا اور یہ 9 دسمبر 2013 میں صدرجمہوریہ کی دستخط کے بعد قانون کی شکل اختیار کرگیا۔
شوہر کے مرنے کے بعد بیوی کو شوہر کی چتا کے ساتھ آگ کے حوالے کردیا جاتا تھا، یہ رسم آزادی کے بعد بھی جاری تھی، اگرچہ انگریزوں نے اپنے دور اقتدار میں اس رسم کو ختم کرنے کی کوششیں کیں تاہم یہ رسم ختم نہیں ہوسکی تھی۔ آزادی کے بعد 1987 میں ستی جیسی غیر انسانی رسم کو پوری طرح ختم کرنے کی غرض سے Commission of Sati Prevention Act, 1987 بنایا، اس قانون کے بعد ستی کی رسم ہمارے ملک سے تقریبا پوری طرح ختم ہوگئی۔
رحم مادر میں لڑکیوں کا قتل ایک پرانا رواج رہا ہے، لڑکیوں کو ہمارے ملک میں بدشگون سمجھاجاتا رہاہے، لڑکوں کو ہمیشہ سے لڑکیوں پر فوقیت دی گئی ہے، حتی کہ لڑکوں کے پیدا ہونے پر خوشی منائی جاتی ہے جب کہ لڑکی کے پیدا ہونے پر اس کی ماں کو ستانا اور تشدد کا نشانہ بنانا عام رواج رہاہے، ہمارے ملک میں میڈیکل ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے حمل کے دوران ہی ماں کے پیٹ میں لڑکیوں کا قتل کردیا جاتا تھا، کہیں اسقاط حمل کے ذریعے تو کہیں دوسرے طریقے رائج تھے، اس رواج کی وجہ سے جنسی تناسب بھی بگڑ رہاتھا، چنانچہ لڑکیوں کو دوران حمل ختم کرنے کے سماجی مسئلہ سے نبٹنے کے لیے ہمارے ملک میں 1971 میں Medical Termination of Pregnancy Act کا قانون پاس کیا اور پھر 1994 میںPre-Coception and Pre-Natal Diagnostic Techniques Prohibition of Sex Selection Act, 1994 پاس کرکے جنسی تفریق کی بنیاد پر خواتین کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔
اب ہر ہاسپٹل میں نوٹس بورڈ پر جلی حروف میں آویزاں ہوتا ہے کہ‘‘ہمارے ہاسپٹل میں دوران حمل پیٹ میں لڑکا یا لڑکی ہونا نہیں بتایا جاسکتا ہے، یہ غیر قانونی ہے۔’’اس جرم کی سزا تین سال سے لے کر عمر قید تک کی تجویز کی گئی ہیں کیونکہ پیٹ میں لڑکی کو مارنا قتل کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔
لڑکیوں کی غیر قانونی تجارت یا ٹریفکنگ، ناخواندگی، کم عمری میں شادی، خواتین کو وراثت سے محروم کرنا اہم چیلنجز رہے ہیں۔
مسلمانوں کے خواندگی مسائل مثلا شادی، طلاق، وراثت، نان نفقہ جیسے اہم اشوز دستوری طور پر مسلم پرسنل لا کے تحت زیر غور ہوتے ہیں، تاہم مسلم خواتین کے حق و انصاف کے نام پر کچھ غلط رسم و رواج کے پیدا و مروج ہونے کی بنیاد پر مسلم خواتین کو لے کر بھی دستوری و قانونی شقوں کا اضافہ ہوا ہے مثلاً، مسلم عورت کی طلاق اور اس کے بعد ہونے والے مسائل کو حل کرنے کے لیے انگریز دور حکومت میں Disintegration of Muslim Marriage Act, 1939 پاس ہوا، لیکن آزادی کے بعد 1986 میں Muslim Women (Protection of Rights on Divorce) Act, 1986 پاس ہوا، حالیہ دنوں میں تین طلاق کو لے کر پارلیمنٹ نے جو قانونThe Muslim Women (Protection of Rights on Marriage) Act, 2019 پاس کیا ہے اس کو بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی کہا جاسکتا ہے۔ مسلم خواتین اور طلاق سے متعلق قوانین کی دستوری حیثیت یا مسلم پرسنل لا سے دستوری ٹکراؤ یقینا ایک اہم بحث ہے، تاہم اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ سماج میں پھیلی ہوئی غلط رسم و رواج سے پیدا حالات سے مجبور ہوکر کچھ مسلم خواتین بھی فیمنسٹ تحریکوں کا حصہ بن کر ان قوانین کی مانگ اٹھارہی تھیں۔
طلاق کے بعد نان نفقہ (Maintanance) کا مسئلہ بہت اہم ہوتا ہے، ہمارے ملک میں نافذ کرمنل پروسیجر کوڈ کی دفعات 125 سے 128 تک نان ونفقہ سے متعلق ہیں۔ ہمارے ملک کے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والی خواتین ان دفعات کے تحت ہی عدالت سے نان و نفقہ کی مانگ کرسکتی ہیں۔
دستور ہند کی خاص بات یہ ہے کہ یہ صرف خواتین کو مساوی درجہ ہی فراہم نہیں کرتا، بلکہ حکومتوں کو اس بات کا ذمہ دار بناتا ہے کہ وہ خواتین کی فلاح و بہبود نیز ان کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ انسانی اقدار کے ساتھ زندگی گزارنے میں مدد کریں۔ ہمارے ملک میں خواتین کی فلاح و بہبود کی غرض سے نہ صرف پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں نے ٹھوس قدم اٹھائے بلکہ ان کے سماجی سیاسی معاشی و تعلیمی ارتقا کی غرض سے فلاحی پالیسیاں، پلان، اور پروگرام بھی بنائے۔ ہمارے ملک میں اگر دستور کی ان تمام تجاویز اور شقوں کے بعد متعدد قوانین اور عدالتوں کے سخت رہنما اصول و ضوابط کے بعد بھی اگر خواتین کی صورت حال میں خاطر خواہ کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی ہے تو اس کے ذمہ دار ہم، ہمارا سماج اور سماج کا بکھرا ہوا تانا بانا ہے جو سماج میں ظلم و ستم ہوتا ہوا دیکھتا ہے لیکن اس کو روکنے نیز سماج میں سماجی برائیوں اور مسائل کے روک تھام کے لیے اپنی اخلاقی و دستوری ذمہ داری ادا کرنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔