دس فٹ پر موت

اعجاز احمد

نیو جرسی، امریکہ میں یکم؍مئی ۱۹۸۹ء سوموار کا ایک خوشگوار دن تھا۔ اس علاقے کی ایک عورت کیٹ پرٹ چارڈ اس دن اپنی کار پر گھر کے لیے سودا سلف لائی تھی۔ وہ اپنی کار سے تھیلے اٹھا اٹھا کر اپنے کمرے کے اسٹور میں رکھ رہی تھی۔ جس وقت کیٹ اپنے کام میں مشغول تھی اس نے دور ایک ریل گاڑی کی آواز سنی۔ ریلوے لائن ان کے گھر سے فقط ۳۰۰ فٹ دور سے گزرتی تھی۔ گھر اور ریلوے لائن کے درمیان کوئی باڑ نہ تھی۔ صرف چند درخت بیچ میں کھڑے تھے۔ اس وقت اس کے دو بچے ساڑھے تین سال کا ٹوڈ اور ڈیڑھ سالہ اسکاٹ بیرونی صحن میں، جو ریلوے لائن کی طرف تھا، کھیل رہے تھے۔
’’یہیں کھیلتے رہنا۔‘‘ کیٹ نے اپنے بچوں کو تاکید کی۔ ’’میں سامان رکھ لوں، پھر اندر جاکر کھانا کھائیں گے۔ رائٹ؟‘‘
’’رائٹ۔‘‘ ٹوڈ نے اپنے باپ کی طرح ہاتھ کا انگوٹھا اوپر اٹھاتے ہوئے جواب دیا۔
’’رائت…‘‘ ننھے اسکاٹ نے اپنے بھائی کی نقل اتارتے ہوئے کہا۔
ٹوڈ اپنی ماں کو تھیلے اٹھائے کار سے گھر جاتے دیکھتا رہا اور پھر بڑوں کی طرح چھوٹے بھائی کو اچھا بچہ بننے کی نصیحت کرنے لگا۔ اسکاٹ گرچہ ڈیڑھ سال ہی کا تھا لیکن وہ صرف نصیحت سننے کا عادی نہیں تھا، بلکہ اسے آگے کسی دوسرے تک پہنچانے کا شوق بھی رکھتا تھا۔ اس نے یہ نصیحت آگے اپنے کھلونے بھالو کو کردی اور اسے اچھا بچہ بننے کا حکم دیا۔ کیٹ ایک پھیرے کے تھیلے کا سامان ریفریجریٹر میں رکھ کر باہر آئی تو اس نے دیکھا کہ بچے بالکل اسی جگہ بیٹھے ہوئے ہیں جہاں وہ انہیں چھوڑ کر گئی تھی۔
’’بہت اچھے۔‘‘ اس نے دل میں کہا اور مطمئن ہوکر اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔ جب وہ کار کی ڈگی سے مزید تھیلے اٹھا رہی تھی تو اس نے درختوں کے جھنڈ سے پرے ریل گاڑی کی آواز پھر سنی۔ اس نے گاڑی کی اسپیڈ سے اندازہ لگایا کہ وہ کوئی ایکسپریس مسافر گاڑی تھی۔ اس نے تھیلے اٹھائے اور گھر کی طرف روانہ ہوگئی۔ ٹرین کی آواز نے بچوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالی۔ وہ درختوں کے جھنڈ سے گزر کر اس طرف گئے اور ڈھلان اتر کر ریلوے لائن کے پاس کھیلنے لگے۔
مغرب کی طرف سے ایک مسافر گاڑی آہستہ آہستہ بچوں کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ریل کی روشنیوں میں گاڑی کے انجینئر ڈرائیور رچ کمپانا نے اندازہ لگایا کہ آگے راستہ صاف ہے اور وہ پوری رفتار یعنی ۴۰ میل فی گھنٹہ سے جاسکتے ہیں۔ یہ اندازہ لگاکر اس نے گاڑی کی رفتار، تھروٹل کھینچ کر بڑھا دی اور کنڈکٹر انتھونی فلازو سے گپیں ہانکنے لگا۔ وہ اس وقت انجن کی کھڑکی کے پاس بیٹھا تھا۔
’’ہاں تو فلازو، تم نے سنڈے کے دن کیا کیا؟‘‘ رچ نے پوچھا۔
اوسط قد اور گٹھے ہوئے جسم کا مالک ۳۵ سالہ فلازو گزشتہ سترہ سال سے گاڑی کے اس روٹ پر کام کررہا تھا۔ وہ اور رچ اکثرنیویارک اور نیو جرسی کے درمیان گاڑی چلاتے ہوئے ہم سفر ہوتے تھے۔ اکثر اوقات اپنے گھروں کے پچھلے صحنوں میں کھیلتے بچے گاڑی کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتے۔ فلازو ہمیشہ اپنا ہاتھ ہلاکر بچوں کو جواب دیا کرتا۔ وہ ایک فرض شناس کنڈکٹر تھا۔ اس نے رچ کی طرف منہ پھیرا اور مسکرا کر اپنا رخ پھر سامنے کی طرف کرکے بولا: ’’کچھ بھی نہیں۔ کھایا پیا، ٹی وی دیکھا اورسو رہا۔‘‘ فلازو نے جواب دیا۔
’’اب تم شادی کرلو۔‘‘ رچ نے ہنستے ہوئے کہا۔ دونوں قہقہے لگانے لگے۔
فلازو کو ریلوے کی نوکری بہت پسند تھی۔ اس کے والد اور ان کے بہت سے دوست بھی ریلوے کے ملازم تھے۔ جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا، دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ اس پر حاوی رہتا تھا۔ وہ چھ سال تک رضا کارانہ طور پر پولیس آفیسر کی ڈیوٹی بھی سنبھالے رہا۔ اس کا کام گلیوں، بازاروں میں لوگوں کی مدد کرنا تھا۔ جس وقت دونوں دوست ہنس رہے تھے، اس وقت گاڑی کی رفتار ۲۱؍میل فی گھنٹہ ہوچکی تھی اور وہ مزید رفتار پکڑ رہی تھی۔ انجن کے ساتھ ۱۹؍بوگیاں منسلک تھیں اور گاڑی اپنے معمول کے مطابق رواں دواں تھی۔ اس وقت رچ اور فلازو نے ایک ہی وقت میںریلوے لائن پر تھوڑی دور کوئی چیز دیکھی۔
’’وہ آگے کیا ہے؟‘‘ رچ نے سوال کیا۔
فلازو نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کی ساری توجہ سامنے ریلوے لائن پر مرکوز تھی۔ اس نے دیکھا کہ لائن پر گتے کا ایک ڈبہ اور ڈبے سے نکلے ہوئے کاغذ کے ٹکڑے بکھرے پڑے ہیں۔ گاڑی تھوڑی اور آگے بڑھی تو دونوں نے دیکھ لیا کہ لائن پر کیا ہے۔ فلازو نے فوراً ہنگامی بریکوں پر دباؤ بڑھایا تاکہ گاڑی کی رفتار کم ہو اور وہ رک جائے اور زور زور سے ہارن بجانے لگا۔ ادھر ہارن بجا، ادھر فلازو کے منہ سے نکلا:
’’لائن پر بچے!‘‘
فلازو کئی سال سے، خصوصاً پولیس کی نوکری کے دوران، ہنگامی حالات سے نپٹتا چلا آیا تھا، لیکن اس وقت وہ جس ہنگامی صورتِ حال سے دوچار ہوا ایسی پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ پھر بھی خود بخود اس کا جسم ہنگامی حالت سے نپٹنے کے لیے تن گیا۔
وہ انجن کی راہداری سے دوڑتا ہوا نکلا اور اس تختے پر پہنچ گیا جو انجن کے پہیوں کے اوپر لگا ہوا تھا۔ وہ ہاتھوں کے سہارے احتیاط سے چلتا ہوا تختے پر آگے چلا گیا۔ اس تختے سے نیچے لوہے کا ایک اورتختہ لگا ہوا تھا جو زمین سے کچھ ہی اونچا تھا۔ فلازو اس تختے پر منتقل ہوگیا۔ اب وہ دو ننھے منے بچوں کو ریلوے لائن پر بیٹھے کھیلتے ہوئے صاف دیکھ سکتا تھا۔
’’ہٹ جاؤ… ہٹ جاؤ، لائن سے پرے ہٹ جاؤ۔‘‘ فلازو چلایا۔
لیکن بچے دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے کھیل میں محو تھے۔ انھوں نے فلازو کی آواز سنی ہی نہیں۔ فلازو نے اپنے دماغ میں ٹرین کی کم ہوتی رفتار کا حساب لگایا۔ اس کے مطابق گاڑی بچوں تک پہنچنے سے پہلے نہیں رک سکتی تھی اور ان کا اس کے نیچے آکر کچلا جانا یقینی تھا۔
ٹوڈ اور اسکاٹ اپنے کھیل میں منہمک تھے۔ انھوں نے قریب آتی گاڑی کی آواز بالکل نہ سنی۔ بالآخر جب گاڑی بہت قریب پہنچی اور اس کی آواز بچوں کو سنائی دی تو وہ شدت و خوف سے منجمد ہوکر رہ گئے اور ان کے جسم میں ریلوے لائن سے ہٹنے کی سکت ہی نہ رہی۔
اگرچہ گاڑی کی رفتار لمحہ بہ لمحہ کم ہورہی تھی لیکن فلازو جانتا تھا کہ بچوں کا بچ نکلنا ناممکن ہے۔ اس نے اپنی جان پر کھیل کر بچوں کو بچانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ گاڑی کے، بچوں کے نزدیک پہنچے کا انتظار کرنے لگا۔ وہ تختے پر بیٹھا گاڑی سے چھلانگ لگانے اور دوڑ کر بچوں کو بچانے کا پروگرام بنانے لگا۔ اور پھر اس وقت جب انجن کے آگے لگے چھجے اور بچوں کے درمیان دس فٹ کا فاصلہ رہ گیا، فلازو نے چھلانگ لگادی۔ اس نے بڑی ہمت اور ہوشیاری سے اپنا توازن برقرار رکھا اور ٹرین کی رفتار سے کہیں زیادہ تیزی سے آگے بڑھا، دونوں بچوں کو دبوچ کر اپنے جسم کے نیچے لٹالیا اور خود ان کے اوپر لیٹ گیا۔
فلازو نے زبردست قربانی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن اسے شاید کچھ دیر ہوگئی تھی۔ انجن کے آگے لگا ہوا چھجا ننھے اسکاٹ کے سر سے ٹکرا گیا تھا اور اس کے سر سے خون کا فوارہ نکلنے لگا۔ فلازو نے بچوں کو اپنے جسم کے نیچے دبائے رکھا اور ٹرین ان کے اوپر سے گزرتی گئی۔ فلازوکا دل ڈوبنے لگا۔ وہ سوچنے لگا کہ اس کی محنت پوری طرح بار آور نہیں ہوئی اور ایک ننھی جان ختم ہوگئی۔
گاڑی کے طوفانی ہارن نے کیٹ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ اسے ہارن کی آواز اپنے سر پر ہتھوڑے کی طرح لگتی محسوس ہوئی۔
’’میرے بچے!‘‘ اس نے سوچا اور پھر وہ بچوں کی طرف دوڑ پڑی۔ یہ دیکھ کر اس کے اوسان خطا ہوگئے کہ بچے اپنی جگہ موجود نہ تھے۔ وہ درختوں کے جھنڈ سے گزرتی ہوئی ریلوے لائن کی طرف بھاگنے لگی۔
کیٹ جب ریلوے لائن تک پہنچی تو گاڑی رک چکی تھی۔ ٹوڈ کو کوئی گزند نہ پہنچا تھا۔ وہ گاڑی کے نیچے سے نکل کر باہر کھڑا چیخ رہا تھا۔ کیٹ نے اسے دیکھا تو دوڑ کر اس کے پاس پہنچی اور اسے اپنے ساتھ لپٹا لیا۔ پھر اس کی نگاہ گاڑی کے نیچے گئی۔ اس نے ایک شخص کو ڈبے کے نیچے پڑے دیکھا۔ اس کے نیچے اسکاٹ دبا ہوا تھا جس کا سر خون آلود تھا۔
’’اسکاٹ!‘‘ کیٹ زور سے چلائی اور ٹرین کے نیچے گھسنے لگی۔ فلازو نے اپنا رخ کیٹ کی طرف پھیرا اور اسے گھر جاکر پولیس اسٹیشن اور ایمبولینس بھیجنے کے لیے اسپتال ٹیلی فون کرنے کو کہا لیکن اس نے فلازو کی بات سنی ان سنی کردی اور ’اسکاٹ اسکاٹ‘ پکارتی ٹرین کے نیچے گھستی چلی گئی۔
’’میڈم! میں نے کہا ہے آپ پولیس اور اسپتال کو فون کریں۔ اسکاٹ کو طبی امداد کی ضرورت ہے۔‘‘ فلازو نے نرمی اور شائستگی سے دوبارہ کہا۔
بات کیٹ کی سمجھ میں آگئی۔ وہ دوڑتی ہوئی گھر گئی۔ اس نے پولیس، اسپتال اور اپنے خاوند کو فون کیا اور دوبارہ ریلوے لائن کی طرف بھاگی آئی۔ جب تک طبی امداد نہ پہنچی فلازو ننھے اسکاٹ کو ٹرین سے نکلنے کے بعد بھی بھینچے کھڑا رہا۔ بچے کے سر سے خون بہہ رہا تھا اور وہ چیخ چلا رہا تھا۔ اس کے رونے سے یہ احساس ہورہا تھا کہ وہ زندہ ہے۔ بظاہر اس کے سر پر ہلکی سی خراش تھی، لیکن فلازو کو وہم تھا کہ کوئی اندرونی چوٹ نہ آئی ہو۔ جب ڈاکٹر نے مکمل معائنے کے بعد کہا کہ اسکاٹ کو زیادہ چوٹ نہیں لگی تو کیٹ اور فلازو نے سکھ کا سانس لیا۔ اسکاٹ کو اسپتال لے جایا گیا،تاہم اس کے زخموں پر ۱۳ ٹانکے لگے۔ بعد میں ٹرین کا معائنہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ اس کا چھجا پٹری سے فقط ۱۴ انچ اونچا تھا۔ اس ۱۴ انچ کے خلا میں لیٹ کر فلازو نے اپنی اور بچوں کی جان بچائی تھی۔ اس نے بے شک بچوں کو بچانے کے لیے اپنی جان کی با زی لگا دی تھی۔
اس حادثے کے بعد جب ایک اخباری رپورٹر نے پوچھا کہ کیا بچوں کی جان بچانے کے لیے چھلانگ لگاتے وقت وہ ایک لمحے کے لیے ہچکچایا تھا تو فلازو نے جواب دیا: ’نہیں۔‘‘ اگر وہ ایک لمحے کے لیے بھی ہچکچاتا تو وقت ہاتھ سے نکل جاتا اور بچے ٹرین کے نیچے آجاتے۔ اس نے بتایا کہ اس نے بچوں کو جب ریل کی پٹری پر دیکھا تو دل میں سوچا کہ یہ پھول جیسے بچے، جنہیں اپنی زندگی کی طویل بہاریں ابھی دیکھنی ہیں، ٹرین کے بے رحم پہیوں کے نیچے کچلے جانے والے ہیں۔ وہ یہ برداشت نہ کرسکا اور ان معصوم بچوں کو بچانے کے لیے سب کچھ کرگزرا۔ اس حادثے کے چند روز بعد فلازو نے ٹوڈ اور اسکاٹ کے گھر چکر لگایا۔ اس نے دونوں بچوں کو باری باری اپنے بازوؤں میں لے کر بھینچا اور پیار کیا۔ فلازو، کیٹ کے خاندان کا ایک فرد سا بن گیا اور کیٹ کے خاوند نے اپنے گھر کے پچھلے صحن اور ریلوے لائن کے درمیان ایک مضبوط جنگلا لگا دیا۔ یہ جنگلا ریلوے لائن پر معجزہ رو نما ہونے کی یاد دلاتا ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں