دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں!

رضی الدین سید

دعائیں کیوں قبول نہیں ہوتیں جبکہ ہم بہت دعائیں مانگتے ہیں؟ ہمارے معاشرے کا آج یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ لوگ روتے ہیں، گڑگڑاتے ہیں، فریاد کرتے ہیں اور پھر دعائیںقبول نہ ہونے پر مایوس ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔ آج کونسا فرد ہے جو مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا نہیں ہے؟ اور کون سی ایسی سنگینی ہے جو عوام الناس کو اپنے شکنجے میں لیے ہوئے نہیں ہے؟ لوگ رو رو کر اپنے ذاتی و خاندانی حالات کی تبدیلی کے لیے اللہ تعالیٰ کے پاس دعائیں کیے جاتے ہیں۔ کسی کی بیٹی کی شادی کا مسئلہ درپیش ہے، کسی کے بچے کی سنگین بیماری اسے مارے ڈال رہی ہے، کسی کے گھر فاقوں کی نوبت آرہی ہے، کسی کا گھر بربادی کے کنارے آپہنچا ہے اور کسی کی نافرمان اولاد اسے دل کا مریض بنائے ہوئے ہے، لیکن قبولیت دعا ہے کہ ا س کے آثار کہیں سے نظر ہی نہیں آتے۔
انسان اپنے رب سے ہر صبح ایک نئی امید لے کر بیدار ہوتا ہے، لیکن پھر پتہ لگتا ہے کہ یہ صبح بھی کل والی صبح کی مانند ویسی ہی زخم زخم اور ویسی ہی زَرد زَرد تھی۔ بیٹیاں بوڑھی ہوجاتی ہیں، باپ صدمے سے چل بستا ہے، اولاد ایک دوسرے کا گلا کاٹنے میں مصروف ہوجاتی ہے۔ لیکن دعائیں ہیں کہ ہرگز قبول نہیں ہوتیں۔ مولویوں کے پاس جاؤ، مفتیوں کے پاس جاؤ، اللہ والوں کے درباروں میں حاضری دو مگر ایک شاخ نہال غم جسے دل کہیں سو وہ ہری ہی رہتی ہے اور لوگ چیخنے لگتے ہیں کہ ’’اب خدا بھی ہم غریبوں کی سنتا نہیں۔‘‘
تاہم احادیث کی رو سے قبولیت دعا یا غیر قبولیت کے مختلف پہلو ہیں۔ ایک پہلو یہ ہے کہ قبول نہ کی جانے والی جائز دعائیں اللہ تعالیٰ کے پاس آخرت میں ذخیرہ ہوجاتی ہیں اور قیامت کے دن ’’پکارنے والے‘‘ کے ذخیرہ اجر سے ان غیر قبول شدہ دعاؤں کے پاس بہت سا نادیدہ اجر بھی اس کے حوالے کردیا جائے گا۔ حیران و پریشان اس لامحدود ’’انعام‘‘ کے بارے میں پکارنے والے کو جب اصل حقیقت بتائی جائے گی تو دنیا کا بے صبرا بندہ تب حسرت بھرے انداز میں کہہ اٹھے گا کہ اگر یہ بات تھی تو پھر کاش دنیا کی میری ایک دعا بھی اللہ کے ہاں قبول نہ کی جاتی۔ گویا بیشتر دعاؤں کے نہ سنے جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بعض مصلحتوں کے تحت اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کو آخرت کا زادِ راہ بنانا چاہتا ہے، جو اس کے لیے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ تاہم دعائیں قبول نہ کیے جانے کا یہ محض ایک پہلو ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان غصے اور انتقام میں اپنے لیے ایسی ایسی دعائیں مانگنے لگتا ہے جن کا مانگنا حرام قرار دیا گیا ہے، مگر جن کے حرام ہونے کو اس کا دل قبول نہیں کرتا۔ مثلاً وہ دعا مانگتا ہے کہ ’’اے اللہ! کل کی آتی ہوئی موت اسے آج آجائے۔‘‘ یا ’’اے اللہ مجھے بہترین ادا کارہ بنادے۔‘‘ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے ناجائز و حرام کاموں کے لیے کی جانے والی دعائیں کبھی قبول نہیں ہوسکتیں خواہ انسان ان کی خاطر نفلی روزے رکھ لے اور صدقے و خیرات کا اہتمام کرلے۔
اگر ہم غور کریں تو ہمیں سمجھ میں آجائے گا کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے اس قدر خلوص کے ساتھ بار بار کی جانے والی ہماری دعاؤں کے رَو کی ایک اور بڑی وجہ بھی ہے اور وجہ یہ ہے کہ ہمارے گھروں میں حرام آمدنیاں دھڑلے سے روزانہ داخل ہوتی اور دھڑلے سے روزانہ خرچ ہوتی ہیں۔ اللہ کے نبی ﷺ نے پہلے ہی آگاہ فرمادیا تھا کہ ایک زمانہ آئے جب جب انسان اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ آیا اس کی آمدنی حلال ہے یا حرام۔ ہم میں سے ایک معقول تعداد ایسے حضرات کی ہے جن کی معیشت کا دارومدار بینکوں کے سودی معاملات پر ہے اور سود وہ ذریعۂ آمدنی ہے جسے پیغمبر انسانیت ﷺ نے خود اپنے آپ اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ جنگ قرار دیا ہے اور مزید غضبناک ہوکر فرمایا کہ اس کا حاصل کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کرے۔ تاہم ہم میں سے اکثر، کیا دہریہ اور کیا باشرع اور کیامرد اور کیا عورت، اسی ناپاک آمدنی سے اپنی اور اپنے گھر والوں کے جسموں کی پرورش کررہے ہیں۔ مزید ستم اس پر یہ ہے کہ انہی آمدنیوں سے وہ صدقے، زکوٰۃ، قربانی اور حج و عمرے کے دینی فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔
ہمارے اکثر مکانات و دکانیں بھی بینکوں کے عطا کردہ سودی قرضے کے سہارے بنے ہوئے ہیں۔ ہماری دانست میں آج ہزار میں سے کم از کم دس مکانات تو ضرور سودی قرضوں سے بنے ہوئے ہیں اور شہری زندگی میں تو یہ تناسب بہت زیادہ ہوگا۔ دوسری جانب ہمارے گھروں میں کھڑی کاریں اور دیگر گاڑیاں بھی کاروباری بینکوں کے انہی سودی قرضوں کی مرہونِ منت ہیں۔ بس ماہانہ مرکب سودی قسطںی دینی شروع کردو اور گاڑی کے مالک بن جاؤ۔ ہمارے بیشتر کاروبار و صنعتیں بھی اسی طرح بینکوں کے سودی قرضوں کے ممنون احسان ہیں۔ صنعت و کاروبار کا اب اصول ہی یہ ٹھہر گیا ہے کہ تھوڑا بہت سرمایہ اپنے پاس سے لگاؤ اور باقی ساری رقم قرض پر بینکوں سے حاصل کرلو۔ تاہم ہم کبھی یہ غور نہیں کرتے کہ یہ سودی قرضے تو اللہ تعالیٰ کو کبھی خوش نہ کرسکیں گے۔
حرام آمدنی کا یہ تو ایک پہلو ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو لوگ سرکاری نوکریوں میں ہیں ان میں سے اکثر سرکاری ملازموں کی ماہانہ آمدنی رشوتوں میں ملوث ہوجاتی ہے۔ اس معاملے میں کسی بڑے سرکاری افسر یا کسی چھوٹے سرکاری قاصد دونوں میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔ سرکاری ملازمت حاصل کرنے کے دیگر اسباب کے علاوہ ایک بڑا سبب یہ بھی ہوتا ہے کہ اس میں ’’اوپر‘‘ کی آمدنی حاصل کرنے کے مواقع بہت کھلے ہوتے ہیں۔ اس لیے ہر سرکاری ملازم الاَّ ماشاء اللہ، ڈٹ کر رشوتیں لیتا اور اپنے اور اپنے گھر والوں کو بیش بہا سہولیات بہم پہنچاتا ہے۔ پولیس والوں کو دیکھیں، کسٹم والوں کو دیکھیں، ریلوے والوں کو پرکھیں، انکم ٹیکس والوں پر نظر ڈالیں، جج حضرات پر نظر گھمائیں، شہری حکومت کے اہل کاروں کو جانچیں، ان میں سے کوئی ایک بندہ بھی الا ماشاء اللہ ایسا نہیں ملے گا جو ’’اوپرکی کمائی‘‘ کا حق دار نہ ہو۔
ہماری زندگیوں کا ایک اور تکلیف دہ پہلو ہمارا شرکیہ عقائد میں مبتلا ہونا ہے۔ ایک اللہ سے ہم نے دوری اور دوسرے کئی خداؤں سے قربت حاصل کرلی ہے۔ ہم نے سمجھ لیا ہے کہ اصل مالک اللہ تو ہماری دعائیں شاید نہیں سنتا ہے جبکہ باقی تمام آستانوں اور ’’درباروں‘‘ کے ولیان و قطب یہ دعائیں ضرور سنتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کو اگر سب سے زیادہ غصہ کسی بات پر آتا ہے تو وہ یہی شرک ہے۔ اس نے واضح طور پر تاکید کی ہے کہ وہ سارے گناہوں کو معاف کرسکتا ہے لیکن اپنے ساتھ کسی کو شریک کرنے کے گناہ کو کبھی معاف نہیں کرسکتا۔
حرام آمدنی کا ایک دوسرا ذریعہ اپنے اداروں سے (۱) دفتری اشیاء چوری کرنے اور (۲) گھر بیٹھے تنخواہ لینے کا بھی ہے۔ خصوصاً اساتذہ میں تو یہ بیماری بہت پائی جاتی ہے۔ اس لیے ہمارے یہاں ’’گھوسٹ اساتذہ‘‘ (یعنی پراسرار غائب اساتذہ) کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔ دفتروں سے اپنے گھر چیزیں لے جانے کا بھی بہت عام رواج ہے۔ دفتر کی اشیاء دراصل اپنی اشیاء ہی سمجھی جاتی ہیں۔ حرام آمدنی کا ایک اور دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ ہمارے اکثر کاروباری حضرات دھوکہ دہی اور ملاوٹ کے دھندے کرتے ہیں۔تین نمبر مال کو چرب زبانی کرکے اور بعض اوقات قسمیں کھاتے ہوئے ایک نمبر ثابت کرتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے اکثر ریٹائرڈ حضرات اپنی جمع شدہ پونجی کو طویل مدتوں کے لیے بینکوں میں جمع کرکے اس کے ماہانہ سودی منافع سے گزر بسر کرتے ہیں، جس پر انھیں کوئی احساسِ گناہ بھی نہیں ہوتا۔ ظاہر ہے کہ اپنی ضرورتوں اور تکلیفوں کے لیے دعائیں تو یہ حضرات بھی کرتے ہی رہتے ہیں۔
غرض دیکھا جائے تو ہم میں سے تقریباً ستر فیصد افراد کی آمدنیوں کا سو فیصد یا ان کا ایک بڑا حصہ ناجائز اور حرام ذرائع ہی پر مبنی ہوتا ہے۔ ہم نے اوپر جو کچھ لکھا ہے، وہ افسانوی باتیں نہیں ہیں، بلکہ یہ وہ تلخ حقائق ہیں جو ہمارے ارد گرد چاروں طرف پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں۔
چنانچہ یہی وہ خاص پہلو ہیں، جس کی جانب راقم توجہ دلانا چاہتا ہے۔ یہی حرام آمدنیاں ہیں جو ہماری سچی اور جائز دعاؤں کو بھی اللہ کے ہاں قبولیت حاصل کرنے سے روکتی ہیں۔ آخر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مسلمان کا ہر ہر لقمہ حرام سے بھی تر ہو اور پھر بھی اس کی دعائیں قبول ہوتی رہیں؟ یہ بات تو عین عقل کے بھی خلاف ہے۔ اسی پہلو کی طرف رسول اللہ ﷺ نے اپنی معروف حدیث میں توجہ دلائی ہے کہ ایک شخص آتا ہے اور ’’اے اللہ، اے اللہ‘‘ کہہ کر دعائیں شروع کردیتا ہے۔ حالانکہ اس کا کھانا حرام ہے، اس کا پینا حرام ہے اور حرام ہی سے اس کا لباس تیار ہوا ہے۔ تو آخر اس شخص کی دعائیں کیسے قبول ہوسکتی ہیں؟
اگر ہمیں اپنی دعائیں اللہ تعالیٰ سے قبول کروانی ہیں تو لازم ہے کہ اپنی تمام حرام آمدنیوں سے بھی ہم اجتناب کریں۔ جو کچھ اللہ تعالیٰ کو کرنا ہے، وہ تو وہ کرے گا، لیکن جو کچھ ہمیں کرنا ہے، اس سے بھی ہمیں بے پرواہ نہیں ہونا چاہیے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146