دعا اور ایمان

۔۔۔۔۔

کیا دعا اور خداپر ایمان ذہنی ٹینشن کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے، میرا ایک دوست تھا جو کہا کرتا تھا کہ صرف ذہنی طور پر کمزور لوگ ایسی خرافات (نعوذ باللہ) پر یقین رکھتے ہیں۔ انسان کوچاہیے کہ وہ اپنی منزل کا تعین کرے، اس کے لیے انتھک محنت کرے اور بس دعا کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی جو وقت دعا اور عبادتوں پر صرف کرتا ہے، وہ منزل کے حصول کے لیے جدوجہد پر لگانا چاہیے۔ میرے یہ دوست انجینئر تھے۔ یہ ایک غیرملکی فرم میں ملازم تھے، ان کی تنخواہ شاندار تھی، اس کے پاس کمپنی کی دی ہوئی کار تھی، بچے بہترین اسکولوں میں پڑھتے تھے اور ان کی بیوی ہمیشہ ہیروں اور زیورات کی بات کرتی تھی۔ میرا دوست بڑا محنتی اور ذہین تھا اور کمپنی کے لیے ایک قیمتی اثاثے کی حیثیت رکھتا تھا، تاہم بعض وجوہ کی بنا پر کمپنی ملک چھوڑ کر چلی گئی۔ فرم کا کاروبار بند ہوجانے کی وجہ سے میرا یہ دوست ایک سال تک بے روزگار رہا، اس نے اپنا کاروبار شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ دو اور حصے داروں کے ساتھ ذاتی کاروبار شروع کردیا۔ ان کی فیکٹری نے جونہی کام شروع کیا، اس علاقے میں فسادات پھوٹ پڑے اور فسادیوں نے میرے دوست کی فیکٹری کو آگ لگادی۔ فیکٹری جل کر راکھ ہوگئی اور میرے دوست کے پاس کچھ نہ رہا، الٹا قرضہ اس پر چڑھ گیا۔ اس صورتحال میں میرے دوست کا سارا اعتماد متزلزل ہوگیا۔ اسے اپنے اوپر، اپنی مہارت اور اپنی محنت پر بالکل اعتماد نہ رہا۔ اس نے خود کو اپنے گھر میں قید کرلیا اور کئی ہفتوں تک بالکل گھر سے نہ نکلا۔ وہ ایک خوش پوش اور زندہ دل شخص اب افسردہ اور زندگی کی خوشیوں سے عاری ہوچکا تھا اس کا سارا خاندان انتشار کا شکار تھا اور کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔
میرے دوست کا ایک چچا بھی اس کے ساتھ رہا کرتا تھا، یہ سارے گھر میں واحد انسان تھا، جس پر ان نقصانات کا بظاہر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ وہ گھر کی اوپری منزل پر رہتا تھا، اور اپنا زیادہ تر وقت نماز، تلاوت اور بچوں سے کھیلنے میں گزارتا تھا، اب میرے دوست کے پاس کوئی مصروفیت نہیں تھی اور وہ گھر سے باہر بھی نہیں نکلتا تھا، اس لیے وہ اکثر گھر کی اوپری منزل پر چلا جاتا اور وہاں بیٹھا رہتا۔ اس نے دیکھا کہ اس کا چچا اپنی عبادت میں اس قدر محو ہوجاتا ہے کہ کبھی وہ بھی اپنے کام میں اس قدر محو نہیں ہوا تھا۔ اس نے اپنے چچا سے پوچھا کہ وہ عبادت کیوں کرتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ اس عبادت سے ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے۔ میرے دوست نے بھی عبادت شروع کردی۔
اسے اپنے چچا کی باتیں بھی اچھی لگتیں۔ وہ کہا کرتا میری عمر اس وقت ستر سال ہے، میں زندگی کے بہت سے نشیب و فراز دیکھ چکا ہوں۔ تقسیمِ ہند کے ہنگاموں نے میرا گھر تباہ کردیا۔ میرا خیال تھا کہ میری دنیا اب ختم ہوگئی ہے مگر میں بیکار بیٹھ کر اپنے دکھوں کا ماتم نہیں کرسکتا تھا۔ میں نے دوبارہ کام شروع کردیا اب دوسروں پو بوجھ نہیں تھا اور مجھے مصروفیت بھی مل گئی تھی۔ اب مجھے اپنا دکھ بھی کم یاد آتا تھا،اس کا بوجھ کم ہوگیا تھا۔ میرے دوست کا چچا کہا کرتا تھا کہ انسان حالات کے آگے بے بس ہے، وہ اپنے بارے میں بڑی غلط فہمی کا شکار ہوتا ہے، مگر خدا کے آگے اس کی کوئی حقیقت نہیں جو کام وہ منافع کے لیے کرتا ہے، اس میں اسے نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے ذمہ کام کو خوب محنت سے کرے اور کامیابی اور ناکامی خدا پر چھوڑ دے۔
اسے مایوسی اس وقت ہوتی ہے جب وہ کام سے زیادہ نتائج پر توجہ دیتا ہے اور جب نتائج توقع کے مطابق برآمد نہیں ہوتے تو وہ مایوس اور دلبرداشتہ ہوجاتا ہے۔ تمام مذاہب بھی اسی بات کی تلقین کرتے ہیں، انسان محنت اور نتائج خدا پر چھوڑ دے۔ کیونکہ جہاں انسان کے ارادوں کی حد ختم ہوتی ہے، وہیں سے خدا کی حد شروع ہوتی ہے۔ میرے دوست کے دل پر اپنے چچا کی باتوں کا بہت زیادہ اثر ہوا۔ اس کے چچا کے پاس کچھ پیسے تھے، جو اس نے میرے دوست کو دے دیے جو اس نے دوبارہ کاروبار میں لگادیے۔ اس بار میرے دوست کا انداز دھیما تھا بتدریج اس کاکاروبار پھیلتا گیا اور اس کے دن پھرتے گئے اب وہ خدا کی رضا اور مرضی کو اولیت دیتا تھا، خدا کی مرضی اور اس کی مشیت پہلے پھر میری صلاحیتیں، اس کا قول تھا: خدا پر ایمان سے ہوسکتا ہے کہ آپ کو وہ سب کچھ نہ ملے آپ جس کی خواہش کریں، مگر کون کہہ سکتا ہے کہ آپ کو جس چیز کی طلب ہے وہ آپ کے حق میں بہتر ہے یا نہیں، ہم اکثر و بیشتر اس بات پر کڑھتے ہیں کہ ہم فلاں چیز حاصل نہیں کرسکے اور پھر کچھ دیر بعد خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمیں یہ چیز حاصل نہیں ہوئی۔
ایمان اور عبادت
بہت سے لوگ اللہ کو صرف اس وقت یاد کرتے ہیں، جب وہ کسی مشکل میں گھر جائیں بالکل ایسے ہی جیسے انھیں فائر بریگیڈ کی یاد اسی وقت آتی ہے، جب ان کا مکان شعلوں میں گھرا ہوا ہو۔ یہ درحقیقت دعا نہیں ہوتی۔ دعا کی عادت ہم میں یقین اور اعتماد پیدا کرتی ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے اور یہ کہ وہ ہمیں صحیح راستے پر چلا رہا ہے اور ہم اس کی امان میں ہیں۔ یہی وہ اعتماد اور ایمان ہے جو ہم میں غیرارادی ردِ عمل کی حیثیت اختیار کرجاتا ہے، جو مشکل وقت میں ہماری مدد کرتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایمان معجزے دکھاتا ہے۔ یہ ایمان ہی ہے جس کے بل پر بعض قبائل ننگے پاؤں جلتے کوئلوں پر چل سکتے ہیں یہ ایمان ہی ہے جس کی مدد سے کینسر کی رسولیاں بھی ختم ہوجاتی ہیں، یہ ایمان ہی ہے جو قبائلی اور دیہاتی مریضوں کو دم درود کی چند پھونکوں سے چنگا بھلا تندرست کردیتا ہے۔ خدا پر ایمان آج کے ترقی یافتہ دور میں پڑھے لکھے لوگوں میں گئے وقتوں کی بات بن کر رہ گئی ہے۔ آج کے انسان کا خدا پر سے ایمان اٹھتا جارہا ہے۔ مگر خدا پر ایمان انسانی فلاح و بہبود میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ صرف دعا، کلام پاک کی تلاوت، اپنے اندر ایسا اثر رکھتے ہیں، جو انسان کے دل اور دماغ کو سکون پہنچاتا ہے۔ دعا اور عبادت اس وقت زیادہ مؤثر ہوتی ہے جب یہ کسی لالچ کی وجہ سے اور خدا سے کچھ طلب کرنے کے لیے نہ کی جائے بلکہ اس کا مقصد خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہو۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں