باتوں میں مشغول ہم آگے بڑھتے رہے۔ بہت دیر چلنے کے باوجود ہمیں کوئی بستی دکھائی نہ دی۔ قدموں کے نشان مسلسل آگے ملتے گئے۔ اچانک بچن داس نے میرا بازو پکڑ لیا اور ہنس کر کہنے لگا: ’’بشیر! تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہوگیا؟ دیکھو ہمارا کیمپ کتنی گہرائی میں رہ گیا ہے اور ہم بلندی پر آپہنچے ہیں۔‘‘ واقعی ہمارے خیمے نیچے وادی میں نظر آرہے تھے۔ سورج غروب ہونے کو تھا۔ بچن داس نے واپس چلنے کا مشورہ دیا۔ ابھی ہم چند قدم ہی واپس چلے تھے کہ میرا ساتھی خوف سے چیخا۔ اس نے میرا بازو تھام کر کہا: ’’مروادیا، بھلے آدمی! تم نے۔‘‘
میں نے اپنے سامنے ایک عجیب منظر دیکھا ، چند ہی منٹ پہلے ہم جس راستے سے گزرے تھے، بے شمار بندر اسے روکے ہوئے تھے۔ ہمارے تین طرف درختوں پر، زمین پر، بندر ہی بندر تھے۔ چھوٹے چھوٹے بھی تھے اور اتنے بڑے بڑے بھی کہ ایک ہی بندر ہم دونوں کو اٹھا کر لے جاسکتا تھا۔ وہ عجیب خوفناک انداز میں خوخیا رہے تھے۔ سب کی نگاہیں ہم پر آجمی تھیں اور وہ آہستہ آہستہ گھیرا تنگ کرتے جارہے تھے۔ ان کی طرح طرح کی آوازیں ویرانے میں ایک خوفناک سماں پیدا کررہی تھیں۔ مجھے گھبراہٹ تو ضرور محسوس ہوئی۔ مگر بچن داس کے برعکس میں اپنے حواس قائم رکھنے میں کامیاب رہا۔ ویران جنگل میں خونخوار بندروں سے بچ نکلنا کسی طرح ممکن نظر نہ آتا تھا۔ اچانک میرے دماغ میں ایک گزرا ہوا واقعہ گھوم گیا۔ میں آخری بار والدین سے مل کر اپنی فوجی ڈیوٹی پر واپس آرہا تھا۔ والد بزرگوار مجھے رخصت کرنے ریلوے اسٹیشن تک آئے۔ بزرگانہ انداز میں بہت سی نصیحتیں کرتے رہے جن میں نماز کی باقاعدگی کو خصوصیت حاصل تھی۔ انھوں نے فرمایا کہ جب کبھی خطرہ محسوس کرو، نماز میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو، یاد رکھو سجدے میں مانگی ہوئی دعا مستجاب ہوتی ہے۔ پھر خدا حافظ کہہ کر واپس چلے گئے۔ میں سونی پت سے جموں تک ان کے یہ الفاظ مسلسل دہراتا رہا کہ ’’یاد رکھو! سجدے میں مانگی ہوئی دعا مستجاب ہوتی ہے۔‘‘
وقت کم تھا۔ بندر ڈراؤنی آوازیں نکالتے ہوئے گھیرا تنگ کرتے آرہے تھے۔ قریب تھا کہ میرا ہندو ساتھی دہشت سے زمین پر گرپڑے۔ میں نے اسے مخاطب کرکے کہا: ’بچن داس! گھبراؤ مت، تم اس درخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاؤ اور نگاہیں نیچی رکھو۔عصر کا وقت تنگ ہے۔ میں باوضو ہوں، گھاس پر نماز پڑھ لوں گا۔‘‘
میں خطرے سے بے پروا ہوکر نماز میں مشغول ہوگیا۔ اللہ کی حمد و ثنا اور اس کی ذاتِ بابرکات کے تصور میں کھو کر مجھے وہ سکون ملا کہ پھر شاید ہی کبھی نصیب ہوا ہو۔ سلام کے بعد بے اختیار سر سجدے میں گر گیا۔ وَاللّٰہُ خَیْرٌ حَافِظاً وَ ہُوَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ۔ کا ورد میری زبان پر جاری تھا جس سے دل و دماغ کو ناقابلِ بیان حلاوت میسر ہوئی۔ یہ کیفیت دیر تک جاری رہی۔ اتنے میں مجھے بچن داس کی آواز نے چونکا دیا۔ وہ کہہ رہا تھا ’’بشیر! اٹھو، راستہ صاف ہے، جلدی کرو۔‘‘
میں نے سجدے سے سر اٹھایا، تو اللہ کی قدرت کا عجب کرشمہ دیکھا۔ بندر غائب ہوچکے تھے۔ ان کی آوازیں سنائی تو دے رہی تھیں مگر بہت دور سے۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کیمپ میں پہنچے تو مکمل اندھیرا چھا چکا تھا۔
صبح سویرے میں تلاوتِ قرآن کے لیے بیٹھا تو میری نگاہوں کے سامنے یہ آیت آئی:
’’اور جب انسان کو مصیبت پڑتی ہے تو لیٹے، بیٹھے یا کھڑے ہمیں پکارتا ہے۔ پھر جب ہم اس کی مصیبت کو دور کردیتے ہیں تو یوں پھر جاتا ہے گویا کہ مصیبت میں اس نے ہمیں کبھی پکارا ہی نہ تھا۔ اسی طرح حدود سے تجاوز کرنے والوں کے لیے ہم نے ان کے اعمال کو زینت دے رکھی ہے۔‘‘
آگے لکھا ہوا تھا:
’’اور اللہ کے علاوہ ان کی بندگی کرتے ہیںجونہ ان کو نفع پہنچاسکتے ہیں نہ نقصان اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے حضور ہمارے سفارشی ہیں۔ ‘‘ (یونس)
میں نے اس واقعے سے بلاواسطہ خالص اللہ کو پکارنا سیکھ لیا۔
(حجاب مئی، ۱۹۸۱ء سے ماخوذ)
——