ہر رسول اور پیغمبر کی دعوت میں تین پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔توحید، رسالت اور آخرت لہٰذا ہر نبی نے اسی مشن سے اپنی دعوت کی ابتداء کی۔ اس لیے کہ رب العزت انھیں ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہی بناکر بھیجتا ہے۔ قرآن میں جابجا فرمایا: وما ارسلناک الا بشیراً ونذیراً۔ تاکہ لوگ خوش خبری کے شوق میں اور ڈراوے سے خوفزدہ ہوکر ہدایتِ الٰہی پر عمل پیرا ہوجائیں۔
انسان سائنس و ٹکنالوجی کے باعث چاند تاروں پر کمندیں ڈال چکا ہے۔ سمندر کی گہرائی ناپنے لگا ہے اور حد تو یہ ہے کہ وہ اب انسانی دماغ کو مسخر کرنے میں لگا ہوا ہے۔ لیکن سائنس کی اتنی زبردست ترقی کے باوجود وہ اگلی زندگی کے بارے میں بے خبر ہے۔ مرنے کے بعد اسے کہاں جانا ہے۔ اس کے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے۔ کن باتوں کے سبب اس کی جواب دہی ہونی ہے۔ اگر اس کے رب نے صحیح راہ نہ دکھائی ہوتی تو وہ اپنی عقل کی بنیاد پر طرح طرح کے نظریات قائم کرتا۔ ان گتھیوں کو اپنے دماغ سے سلجھانے کے باوجود الجھتا ہی چلا جاتا۔
مگر اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعے اپنے بندوں کو صحیح راہ دکھائی۔ زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی فرمائی۔ انبیاء کی دعوت کا سب سے اہم جز آخرت ہے کہ انسانی عمل کا ہر ریکارڈ محفوظ کیا جارہا ہے اور پھر انسان کے ہر قول و فعل کا رزلٹ ملنا یقینی ہے۔
مگر خدائے واحد پر ایمان لانے والوں کی یہ کیسی بے حسی ہے کہ دیدہ و دانستہ خدائی احکام کی کھلم کھلا نافرمانی کی جارہی ہے۔ کسی کاروباری کو اگر ذرا بھی سن گن لگ جائے کہ انکم ٹیکس انسپکٹر آنے والا ہے تو وہ جلدی جلدی اصل کاغذات کو چھپانے لگتا ہے۔ تاکہ انکم ٹیکس سے بچ سکے۔ مگر آخرت میں تو معاملہ ہی جداگانہ ہوگا وہ علیم وخبیر ربِ کائنات نیتوں کے کھوٹ تک کو نکال لائے گا۔ پولیس کا ڈنڈا سڑکوں اور چوراہوں پر تو کام کرتا ہے۔ مگر تنہائی میں صرف خوفِ خدا کا پہرہ ہوتا ہے۔ لہٰذا سعید روحوں نے پیغمبر کی اس دعوت پر لبیک کہا۔ لیکن اکثریت نے اس دعوت کا انکار کیا اور اپنی خواہشات پر چلتے ہوئے انبیاء کا مذاق اڑادیا اور انتہائی ڈھٹائی سے کہتے رہے۔
’’لے آ خدا کا عذاب اگر تو سچا ہے۔‘‘ رسول اس انداز سے کام لینے کے ساتھ وارننگ بھی دیتے رہے کہ یہ مہلتِ عمل تو تمہیں اس لیے دی جاتی ہے کہ شاید تمہیں ہوش آجائے۔ پھر وہ عذاب آئے گا جو ٹالے نہ ٹلے گا۔ پھر باری تعالیٰ صفحہ ہستی سے تمہارا نام و نشان مٹا دے گا۔ اور تمہاری داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔‘‘ ایسے لوگوں کے متعلق قرآن فرماتا ہے۔ لقد حق القول علی اکثرہم فہم لا یؤمنون۔ ان میں اکثر پر بات پوری ہوچکی ہے مگر یہ ایمان نہیںلائیں گے۔ یہ نعمتِ خداوندی ہے جب خدا اپنے رسولوں سے حجت پوری کروالیتا ہے اور پھر بھی لوگ ڈھٹائی سے رسولوں کا مذاق اڑاتے، صالح لوگوں کا عرصۂ حیات تنگ کردیتے ہیں اور اچھائی برائی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ تو خدا کا عذاب اچانک ان لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ پھر ایسی قوم صفحۂ ہستی سے مٹا دی جاتی ہے۔ ایسے وقت پیغمبر کی بیوی، بیٹا اور باپ ہونا بھی کام نہیں آتا۔ پھر ظالم لوگ نشانِ عبرت بن کر رہ جاتے ہیں۔اس وقت وہ نیک لوگ بھی عذاب کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ جو خاموش تماشائی بنے گنہ گاروں کے درمیان رہتے بستے ہیں۔ مگر انھیں برائیوں سے نہیں روکتے۔
حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بستی کے بارے میں عذاب کا حکم دیا۔ حضرت جبرئیل نے فرمایا: رب العزت وہاں تو تیرا ایک ایسا متقی پرہیزگار بندہ بھی رہتا ہے جس نے پلک جھپکتے تیری نافرمانی نہیں کی۔ کیا اس سمیت سب پر عذاب نازل کردیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا: اس سمیت بستی پر عذاب کا کوڑا برسادو۔ کیونکہ وہ گناہ گار سوسائٹی میں خاموش تماشائی بنارہا۔میری نافرمانی دیکھنے کے باوجود اس کے ماتھے پر کوئی ناگواری کی شکن نہیں آئی۔
قومِ نوح، قومِ عاد، قومِ یونس، قومِ شعیب، قومِ ثمود ، قومِ لوط ، موہن جوداڑو اور ہڑپہ کے کھنڈرات، اجنتا و ایلورا کے وسیع و عریض غار اور پتھروں کو تراش کر نقاشی کیے ہوئے محلات، بحرالکاہل کے قرب و جوار میں پائی جانے والی نشانیاں، ماضی کی داستانِ عبرت ہی تو ہیں، جن کی خموشی میں سیکڑوں افسانے پوشیدہ ہیں۔ جو سنتِ الٰہی کے مطابق اپنے ظلم و جبر کے سبب صفحۂ ہستی سے مٹا دی گئی اور آج زبانِ حال سے کہہ رہی ہیں۔
دیکھو مجھے جو دیدئہ عبرت نگاہ ہو
حیف صد حیف امتِ مسلمہ پچھلے ادوار سے، قوموں کے عروج و زوال سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتی۔ ایک داستانِ پارینہ سمجھ کر اُسے نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ بلکہ اسے سیاحی کا اڈہ اور تفریح کا سامان سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ یہ منحوس وادیاں علی الاعلان پکار رہی ہیں’’یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ اپنی سنت میں تبدیلی نہیں کرتا۔ بابِ رسالت بند ہونے کے بعد عذابِ الٰہی نہیں آیا کرتے۔ مگر تنبیہات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ تاکہ دیدئہ عبرت رکھنے والوں کے لیے ہدایت کا راستہ کھلا رہے۔
چنانچہ گجرات کا فساد ہو، پاکستان کا زلزلہ، قحط سالی ہو یا سیلاب کی تباہی، سونامی کی خونخوار لہریں ہوں یا پلیگ کی وبا، یہ سب تنبیہات کے آثار ہی تو ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: اللہ کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، یا تو تم نیکی کا حکم دو گے اور برائیوں سے روکو گے۔ یا اللہ تم پر اپنی طرف سے ایک عذاب بھیجے گا۔ پھر تم اس کو پکاروگے مگر تمہاری پکار سنی نہ جاسکے گی۔ آپؐ نے مزید فرمایا: جب لوگ کسی ظالم کو ظلم کرتے دیکھیں لیکن اس کا ہاتھ نہ پکڑیں۔ تو قریب ہے اللہ ان پر ایسا عذاب بھیج دے۔ جس کی لپٹ میں سب آجائیں۔‘‘
قرآن مجید میں خبردار کیا گیا ہے:
واتقوا فتنۃ لا تصیبن الذین ظلموا منکم خاصۃ۔
’’اور ڈرو اس فتنے سے جس کی شامت ان لوگوں تک محدود نہ ہوگی جنھوں نے یہ گناہ کیا ہو۔‘‘
——