دعوت دین اور خواتین

مائل خیرآبادیؒ

ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے میں جو شخص بھی مسلمان ہوتا تھا۔ وہ چاہے مرد ہو یا عورت۔ مسلمان ہونے کے بعد اسلام پھیلانے کی کوشش میں لگ جاتا تھا۔ جس طرح مسلمان ہونے والے مردوں نے اپنی بیویوں، بہنوں، ماؤں اور دوسرے لوگوں کو مسلمان کرنے کی کوشش کی، اسی طرح مسلمان ہونے والی عورتوں نے بھی اپنے شوہروں، بھائیوں اور دوسرے لوگوں کو اسلام کی طرف بلایا۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ آدمی لا الہ الا اللہ کا مطلب سمجھ لے۔ اور حضور نبی کریم ﷺ کا مقام پہچان لے۔ انہی دو باتوں پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر کچھ نمونے ملاحظہ ہوں:

حضرت سمیہؓ مکہ کے مشہور گھرانے بنی مخزوم کی لونڈی تھیں۔ وہ مسلمان ہوئیں تو انھوں نے اپنے شوہر یاسر اور بیٹے عمار کو حضورؐ کی خدمت میں پہنچایا اور وہ دونوں بھی مسلمان ہوگئے۔

حضرت عمرؓ کی بہن فاطمہؓ مسلمان ہوئیں تو حضرت عمرؓ بہت برہم ہوئے۔ ان کے گھر پہنچ کر ان کو اور ان کے شوہر زید کو اتنا مارا کہ لہو لہان کردیا۔ لیکن ہوا یہ کہ اسی وقت بہن کی باتوں سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئے۔ اور پھر حضورؐ کی خدمت میں حاضری دی۔

نبی ﷺ سفر میں تھے۔ راستے میں ایک عورت ملی۔ اس کے پاس پانی تھا۔ صحابہؓ ساتھ تھے۔ صحابہؓ نے اس سے پانی لیا۔ حضورؐ نے پانی کی قیمت دی۔ اور اسلام پیش کیا۔ وہ عورت مسلمان ہوگئی۔ پھر اپنے قبیلے میں پہنچی اور اس نے سارے قبیلے کو مسلمان کیا۔ (بخاری شریف)

حاتم طائی کی بیٹی ایک لڑائی میں گرفتار ہوکر حضورؐ کی خدمت میں لائی گئیں۔ آپؐ نے ان کو آزاد کردیا۔ لیکن انھوں نے طے قبیلے کے دوسرے قیدیوں کے بارے میں سفارش کی تب آپ نے ان سب کو بھی آزاد کردیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ مسلمان ہوگئیں۔ اپنے بھائی عدی بن حاتم سے ملیں۔ حضورؐ کے برحق نبی ہونے پر بھائی کے سامنے ایک تقریر کی۔ عدی مسلمان ہوگئے اور حضورؐ کی خدمت میں حاضری دینے لگے۔

حضرت ام شریک مسلمان ہوئیں تو مکہ کے گھر میں پہنچ کر عورتوں کو اسلام کی دعوت دینے لگیں۔ مکے کے لوگ ان سے بہت برہم ہوگئے اور ان کو مکے سے نکال دیا۔

فتح مکہ کے وقت حضرت عکرمہؓ بھاگ کر یمن چلے گئے تھے۔ ان کی بیوی ام حکیمؓ بنت الحارث مسلمان ہوگئیں۔ پھر وہ یمن پہنچیں۔ شوہر کے سامنے ایسی حکمت سے اسلام پیش کیا کہ وہ مسلمان ہوگئے۔ حضرت ام حکیمؓ ان کو حضور کے پاس لائیں۔

حضرت ام سلیمؓ مشہور صحابیہ ہیں۔ وہ مسلمان ہوئیں تو مدینے کے محلوں میں جاجاکر اسلام کی تبلیغ کرتی تھیں۔ وہ بیوہ ہوئیں۔ تو ان کے قبیلے کے ایک صاحب طلحہ نے شادی کا پیغام دیا۔ اس وقت ابوطلحہ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ ام سلیمؓ نے ان پراس طرح تبلیغ کی:

’’اے ابوطلحہ! میں تو محمد ﷺ پر ایمان لائی ہوں اور گواہی دیتی ہوں کہ وہ اللہ کے رسول ہیں۔ تعجب ہے کہ تم اتنے سمجھ دار آدمی ہو لیکن اب تک مسلمان نہیں ہوئے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم لکڑی اور پتھر کو پوجتے ہو۔ ان کے بت بناتے ہو۔ یہ بے جان تمہیں کیا نقصان پہنچاسکتے ہیں؟ تم کو سوچنا چاہیے کہ میں مسلمان ہوںایک مشرک سے کس طرح شادی کرسکتی ہوں۔‘‘ یہ تقریر سن کرابوطلحہؓ دن بھر غور کرتے رہے۔ صبح کو ام سلیمؓ کے پاس گئے اور مسلمان ہوگئے۔

حضرت ناجیہؓ – انصار کے ایک مشہور خاندان بنو اسلم کی خاتون تھیں۔ والد ماجد سہیل بن عمرؓ عرب کے مشہور تاجر اور قبیلہ اسلم کے سردار تھے۔ حضرت ناجیہؓ اس وقت مسلمان ہوئیں جب حضورؐ ہجرت کرکے مدینے پہنچے۔ ان کے خاندان والے مدینے سے کچھ فاصلے پر رہتے تھے، مگر یہ خود مدینہ طیبہ میں رہا کرتی تھیں۔

حضرت ناجیہؓ نہایت سنجیدہ اور حسین و جمیل تھیں۔ قبیلہ بنو اسلم میں ان سے بڑھ کر دوسری عورت نہ تھی۔ شعروسخن سے بھی بے حد دلچسپی رکھتی تھیں۔ ان کے اشعار پُر اثر ہوتے تھے۔

حضرت ناجیہؓ کو اشاعتِ اسلام سے بہت دل چسپی تھی۔ ان کا یہ معمول تھا کہ مہینہ میں دو مرتبہ مختلف قبائل کی خواتین کے پاس جایا کرتی تھیں۔ اور ان کے سامنے اسلام کے فضائل و محاسن بیان کرتی تھیں۔ ان کی تقریر میں بڑا اثر ہوتا تھا۔ جب وہ عورتوں کے مجمع میں وعظ فرماتی تھیں تو ایک عجیب اثر طاری ہوتا تھا۔ جب تک وعظ ختم نہ ہوتا تھا۔ عورتیں دھیان سے سنتی رہتی تھیں۔ وہ بڑی اچھی عادت کی تھیں، جب انھیں یہ معلوم ہوتا کہ فلاں قبیلہ کی عورت بیمار ہے۔ اور اس کا کوئی ہمدرد نہیں ہے تو وہ بے چین ہوکر اس کے یہاں پہنچ جاتیں اور جب تک اسے آرام نہ ہوجاتا بلاناغہ اس کے لیے کھانا وغیرہ بھیجتیں اور اس کی تیمار داری کا فرض انجام دیتی تھیں۔ ان کی ہمدردی مسلم عورتوں ہی تک محدود نہ تھی، وہ ہر قوم کی غریب عورتوں کی خدمت اپنا فرض سمجھتی تھیں۔ ان کی اس ہمدردی کی وجہ سے تمام قبائل کی عورتیں ان کی عزت کرتی تھیں۔ حضرت ناجیہؓ کی کوششوں سے ایک سو بارہ عورتیں مسلمان ہوئیں۔ وہ اگرچہ ایک دولت مند باپ کی صاحبزادی تھیں مگر ان کے مزاج میں غرور کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ حافظہ اس قدر تیز تھا کہ جو بات توجہ سے سن لیتی تھیں یاد ہوجاتی تھی۔ تبلیغ میں یہ باتیں بڑا کام دیتی تھیں۔

جنگِ یرموک کی فتح کے بعد حضرت ناجیہؓ اپنے شوہر کے ساتھ مدائن پہنچیں۔ وہاں آپ نے ایرانی خواتین کے ایک عظیم الشان اجتماع میں یہ تقریر فرمائی:

’’ہر طرح کی تعریف اللہ پاک کے لیے ہے۔ جو ایک ہے۔ اور اس جیسا دوسرا نہیں۔ اللہ ہی زمین اور آسمانوں کا مالک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ جب کوئی گناہ گار آدمی اس کے آگے توبہ کے لیے سرجھکاتا ہے۔ تو وہ مہربان اس کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔ اور اپنی رحمت کے دروازے کھول دیتا ہے۔

محترم بہنو! آج میں آپ کو اپنے رسول مکرم ﷺ کے کچھ حالات سنانا چاہتی ہوں۔ امید ہے کہ آپ اطمینان سے میری باتیں سنیں گی۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ حضرت رسول اکرم ﷺ کے تشریف لانے سے پہلے عراق، شام اور ایران و عرب میں جہالت کی گھٹائیں چھارہی تھیں اور ہر طرف ظلم و ستم کی حکمرانی تھی؟ انسانیت کے حقوق پامال ہوگئے تھے۔ عورتوں کا درجہ جانوروں سے بھی بدتر تھا۔ وہ کبھی شیطان سمجھی جاتی تھیں تو کبھی ’’پتھر‘‘۔ اخلاقی قوانین درہم برہم ہوگئے تھے۔ اور برے کاموں سے کوئی شرمندہ نہ ہوتا تھا۔ ان حالات میں حضور، آقائے نام دار اور رسولِ معظم ﷺ نے اپنی پاک اور مقدس تعلیمات سے ظلم و ستم، جھوٹ اور فریب کا خاتمہ کیا۔ اور جاہل وحشیوں کوانسان بنایا۔ عربوں کی مظلومیت حد سے بڑھی ہوئی تھی۔ حضورِ مصلح اعظم رحمت عالم ﷺ نے انہیں خاک سے اٹھا کر آسمان پر پہنچایا۔

محترم بہنو! میں درخواست کرتی ہوں کہ غلط راستہ چھوڑ کر صحیح راستہ اختیار کرو۔ تاریکی سے نکل کر روشنی میں آجاؤ۔ اللہ بھی تمہاری مدد کرے گا۔

یہ تقریر سن کر بہت سی خواتین مسلمان ہوگئیں۔

اسلام پھیلانے والی پاک خواتین کے یہ نمونے ہمارے سامنے ہیں۔ ان نمونوں کو سامنے رکھ کر اگر آج ہماری بہنیں اور مائیں اسلام پھیلانے میں لگ جائیں تو اللہ تعالیٰ انہیں ضرور کامیابی عطا فرمائے گا۔ شرط یہ ہے کہ جس سانچے میں یہ نمونے ڈھلے ہوئے ہیں، اس میں پہلے خود ڈھل جائیں اپنا ایمان ان نمونوں جیسا بنائیں۔ اپنا اسلام ایساہی بنائیں۔ اپنے اخلاق کو انہی جیسا سنواریں اور وہی تڑپ اپنے اندر پیدا کریں جو ان پاکیزہ خواتین میں تھی۔ اپنے گھروں کے اندر اپنے بچوں اور بھائیوں اور بڑوں کو اٹھتے بیٹھتے اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں، اپنے پڑوسیوں سے تعلقات بڑھائیں۔ وہ بیمار ہوں تو ان کی عیادت کریں۔ ان کے لیے تحفے بھیجیں۔ چاہے وہ تحفہ بقول حضور ﷺ بکری کا ایک کھر ہی کیوں نہ ہو۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146