دعوت و تبلیغ کا فریضہ جس قدر اہم ہے، اس کے تقاضے بھی اسی قدر نزاکت کے حامل ہیں، اور یہ فریضہ جتنا محبوب ہے اتنا ہی حکمت اور احتیاط کا بھی متقاضی ہے۔ اس وادی خارزار میں داعی کو ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہے۔ یعنی ا سکے قول و فعل دونوں میں کوئی تضاد نہ ہو۔ دین کا کام ہمیں کچھ اس انداز سے کرنا چاہیے کہ ملک کے ہر طبقے میں دعوتِ حق پہنچ جائے۔ ہمارے اجتماعات میں ہر قسم کی خواتین شریک ہوں، چاہے وہ امیر ہوں، چاہے غریب، تعلیم یافتہ ہوں یا ان پڑھ۔ اس لیے کہ ہم سب میں ایک چیز مشترک ہے، اور وہ ہے اسلام کی محبت۔ اسی جذبۂ محبت کے تحت ہم اپنے اپنے طبقے میں کام کرسکتے ہیں۔ ہماری بات چیت کا موضوع اللہ، رسول اور آخرت (جنت ودوزخ) ہی ہونا چاہیے، خواہ وہ عربی زبان میں ہو یا اردو، ہندی، انگریزی وغیرہ میں۔ ذکرِ آخرت جس قدر زیادہ ہوگا ہمارا کام اتنا ہی مؤثر ہوگا۔ ان شاء اللہ۔
ہم جہاں کہیں بھی قیام پذیررہیں، کم از کم چند گھر دائیں بائیں، آگے پیچھے ایسے بھی ہوں جہاں کی خواتین سے ہمیں نہ صرف شخصاً واقف ہونا چاہیے، بلکہ ان کے دکھ سکھ میں بھی ہم کو شریک رہنا چاہیے۔ ہر خاتون اپنے گھر کو ایک مستقل مرکز ہدایت بنانے کی جدوجہد کرے اور ہفتہ وار اجتماع بھی اپنے گھر میں منعقد کرے۔ یہ ضروری نہیں کہ باہر سے کوئی آئے، بلکہ خود ہی کچھ پڑھ کر سنادے، یا صرف سوال و جواب کی نشست ہی قائم کرلی جائے۔ جس طرح رمضان کا مہینہ مقدس ہے، اسی طرح جمعہ کا دن بھی مقدس سمجھا جاتا ہے۔ اس دن ہر مسلمان کچھ نہ کچھ نیکی کرنے پر مائل ہوتا ہے۔ ہمیں کسی کے جزوی مسائل، لباس اور طرزِ زندگی پر تنقید نہیں کرنی ہے، بلکہ ضروری ہے کہ سب سے پہلے ہم اسے اپنا ہم خیال بنالیں اور جب وہ ہم سے مانوس ہوجائے تو لامحالہ اسے ہمارے طور طریق سے محبت ہوگی۔ ہمارا مقصد اس کے امراض باطن کا علاج کرنا ہے، نہ کہ اسے شرمندہ کرنا۔ اسی طرح ہمیں خود اپنے دل کا بھی خیال رکھنا ہے کہ کہیں اس میں اپنی دین داری کا کوئی غرور تو نہیں چھپا ہوا ہے۔ خدانخواستہ اس کا شائبہ بھی موجود ہو تو ہمارے وعظ و نصیحت کا اثر بالکل نہیں ہوگا۔
ہفتہ وار اجتماع کا مطلب بھی عام طور پر یہ لیا جاتا ہے کہ سو پچاس یا کم از کم دس، بیس خواتین ضرور جمع ہوجائیں، لیکن ہمارے نزدیک دو خواتین بھی مل کر تبادلہ خیال کریں اور اجتماعی طور پر قرآن و حدیث یا سیرت و اخلاق کی کسی کتاب کا مطالعہ کرلیں تو یہ بھی اجتماع ہے۔ اور اس لحاظ سے بڑا ہی مؤثر اجتماع کہ فریقین کو بولنے کی آزادی ملے گی، جس کے ذریعہ وہ بے تکلف اپنی الجھنیں پیش کرکے دور کراسکتی ہیں۔
یہی بات ہمیں بچوں کے دل میں بھی بٹھانا چاہیے تاکہ وہ بھی اپنے اپنے دوستوں اور سہیلیوں کے سامنے دعوتِ حق پیش کریں۔ اس لیے کہ اگر وہ اپنے نئے دوستوں اور سہیلیوں کے خیالات کی اصلاح کرنے لگیں تو یہ ان کا بڑا کارنامہ ہوگا۔ اسی طرح اگر آپ اپنے محلہ کی خواتین کو اپنا ہم خیال بنالیں تو یہ بڑی کامیابی ہے۔ ’’ایک اکیلا اور دو گیارہ‘‘ مشہور کہاوت ہے۔ آپ دو بہنیں کام کریں گی تو وہ ان شاء اللہ گیارہ اشخاص کے کام کے برابر ہوجائے گا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص ہمیں پریشان کرنے کے لیے شکوہ شکایت کرنے لگتا ہے۔ اس کی وجہ سمجھنا چاہیے اور اس وجہ کو حتی الامکان دور کرنے کی کوشش بھی کرنا چاہیے۔ گلہ گزاری اور شکوہ شکایت کے انداز بھی مختلف ہوتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ ہماری روزی بقدرِ ضرورت نہیں ہے، کوئی چیختا ہے کہ صحت خراب ہے، کوئی روتاہے کہ گھر میں ان بن ہے، کوئی لوگوں کے اخلاق کی خرابی پر کڑھتا ہے۔ ان سب پریشانیوں کا واحد سبب یہ ہے کہ لوگوں کا اپنے کارسازِ حقیقی سے تعلق ٹوٹ گیا ہے، جسے ہمیں از سر نو جوڑنا ہے، اور ان کو سمجھانا ہے کہ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ فکر آخرت کے پیدا ہوتے ہی ساری شکایات کا فور ہوجاتی ہیں۔ اگر روزی کم ہے تو انسان اسی کو بہت سمجھ لیتا ہے، کیوں کہ تھوڑے کا حساب تھوڑا اور بہت کا بہت ہوگا۔ اگر صحت کمزور ہے تو اپنے سے کمزور کو دیکھ کر تقویت حاصل کرلیتا ہے۔ لڑائی جھگڑا ہے تو اسے حسن سلوک اور حسنِ اخلاق کے ذریعہ کم کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہمیں غریبوں سے عملی ہمدردی کرنی چاہیے، ان کے لیے روزی، روٹی، کپڑے اور بیماری کے لیے دوا بھی فراہم کرنا ہے۔ لیکن ان کی اصل خدمت یہ ہے کہ ان کی جہالت دور کی جائے اور ان کی زندگی کو دین و ایمان کی روشنی سے منور کیا جائے۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ دعوت حق عام فہم اور سیدھی سادی بات چیت کے انداز اور مختصر الفاظ میں پیش کی جائے۔ دعوت کی نشرو اشاعت صرف چند لوگوں کی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دعوتِ حق کی طرف لوگوں کو مائل کرتا رہے۔ زندگی کے مسائل اور پریشانیاں تو سبھی کے ساتھ لگی ہوئی ہیں۔ اگر انسان دین کی خدمت کرنا چاہے تو حیلوںبہانوں کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ خواتین یہ بھی کہہ سکتی ہیں کہ زبان پر ہمیں عبور نہیں ہے، گھبراہٹ ہوتی ہے، لیکن ایسی باتوں کا خیال بالکل نہیں کرناچاہیے، کیونکہ دریا میں اترے بغیر تیرنا نہیں آتا۔ خواتین کے اندر جو جھجک ہے وہ ضرور دور ہوجائے گی۔ اگر کوئی خاتون اجتماع میں حصہ لیتی ہے اور کچھ نہ کچھ پڑھ کر سناتی رہے تو ایک دن وہ خطاب کرنے پر بھی قادر ہوجائے گی۔
دعوت و تبلیغ کی مطلوبہ صلاحیت اپنے اندر پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم علومِ دین پر عبور حاصل کریں اور عمل بھی کرتے رہیں، نیز زندگی کے ہر معاملے میں احکامِ الٰہی کو پیشِ نظر رکھیں۔ یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ دعوت کا نازک کام کرنے والوں پر جب تک اسلام کا حسن پوری طرح آشکارا نہ ہو اس کی خاطر کام کرنے کا جذبہ نہیں پیدا ہوسکتا ہے۔ لہٰذا قرآن و حدیث کا علم دعوت کے کام میں پٹرول کی حیثیت رکھتا ہے، اور اس پٹرول کے بغیر دل کی گاڑی نہیں چلائی جاسکتی۔ گہرے مطالعے کے ساتھ ’’ربِ زدنی علماً‘‘ کا وظیفہ وردِ زبان بنالینا چاہیے اور قرآن و سنت کی تعلیمات کو جزئیات سمیت اپنی ذاتی و شخصی زندگی میں سمولینا چاہیے۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کی یاد تازہ کرنا اور اس کی منشاء پر چلنے کی کوشش کرنا جذبۂ شوق اور جوشِ عمل پیدا کرنے کے لیے عظیم الشان محرک ہے۔
انسان میں ایک کمزوری جو بکثرت پائی جاتی ہے وہ ضعف ارادہ ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص تحریک کی دعوت سن کر صدق دل سے اس پر لبیک کہتا ہے اور آغاز کار میں جوش دکھاتا ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی دلچسپی کم ہوجاتی ہے۔ اور یہی کمزوری مختلف شکلوں میں اپنے کرشمے دکھانا شروع کردیتی ہے۔ ضعفِ ارادہ کا اثر کام چوری کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ پھر آدمی اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے اور اپنے آپ کو حق بجانب ثابت کرنے کے لیے اپنے نامۂ اعمال کا سارا حساب دوسروں کے نامۂ اعمال میں ڈال دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا خطرہ ہے جس سے ہر اس آدمی کو خبردار رہنا چاہیے، جو اصلاح و تعمیر کی کوشش کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔ جو لوگ اپنے کارکنوں کوضعف ارادہ کے نقصانات سے بچانا چاہتے ہیں انھیں چاہیے کہ اس کے ابتدائی آثار نمودار ہوتے ہی فوراً اصلاح کی فکر کریں۔
آج معاشرے میں کافی خرابیاں موجود ہیں۔ جو ایک حاضر و ناظر ہستی کو بھول جانے کا لازمی نتیجہ ہے۔ جب تک لوگوں میں سچا خوف خدا اور روزِ آخرت کے حساب کا یقین پیدا نہ ہوگا، زندگی کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوسکے گی۔ ہمارے پیشِ نظر اصل مہم یہی ہے کہ ہم عام لوگوں میں ایمان باللہ اور ایمان بالآخرت پیدا کرنے کی جدوجہد کریں اور جن کے پاس دھن دولت موجود ہے وہ اپنی دولت سے کام لے کر لوگوں میں دولتِ ایمان تقسیم کریں، کیونکہ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ زندگی کو خوشگوار اور پر کیف بنانے والی چیز صرف تعلق باللہ اور ہر حال میں اس کی رضا کے حصول کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ آئیے لوگوں کو اس کی پرزور دعوت دیں کہ وہ جس کے بندے ہیں پورے شعور کے ساتھ صرف اسی کے بندے بن کر رہیں۔ اللہ تعالیٰ راستے کے ہر موڑ پر روشنی فراہم کرتا جائے گا۔ جو لوگ اجر آخرت کے طلبگار ہیں ان کے لیے اللہ نے چند دروازے اور گھاٹیاں مقرر کردی ہیں۔ یہ دروازے اور گھاٹیاں اپنے اپنے گھر والوں، خاندانوں اور محلوں میں موجود ہیں، ان کو تلاش کیجیے۔ اور ان کے ذریعہ جنت کی ابدی راحتوں سے ہمکنار ہوجائیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے ان دروازوں کو پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
——