عموماً کسی کی نظر بچا کر یا زبردستی دوسرے کی چیز حاصل کرنا چوری ہے۔ یہ سماج کی نظر میں غیر اخلاقی حرکت اور قانون کی رو سے جرم اور ایک خطرناک کھیل بھی ہے۔ مجرم کو اس وقت سزا دی جاتی ہے جب کہ جرم ثابت ہو اس کے علاوہ کئی چیزوں میں اہم چیز نیت ہے۔ بعض ایسے لوگ ہیں جنہیں معاشی تکلیف نہیں۔ سوسائٹی میں اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے لیکن اگر وہ بھی کوئی ایسی حرکت کریں جسے ہم چوری قرار دیں تو نامناسب بات ہے۔ مثلاً شہنشاہ انگلستان جارج ششم (آنجہانی) نے کئی دفعہ لوگوں کی نظر بچا کر کچھ چیزیں جیب میں رکھ لیں۔ عام لوگوں کو سخت حیرت ہوئی مگر بکنگھم پیلس کے افسران نے بتایا کہ یہ شہنشاہ کی عجیب و غریب عادتوں میں سے ایک ہے اور وہ غیر شعوری طور پر کرتے ہیں اور خود بھی اس کی کوئی معقول وجہ بتا نہ سکے۔ دنیا کا کوئی ذی فہم شخص موصوف کے اس فعل کو چوری نہیں سمجھ سکتا حالاں کہ سطحی طور پر چوری کی تعریف میں آسکتا ہے۔
چوری ایک ایسا عوامی پیشہ ہے جس میں داخلہ کے لیے رنگ، قوم، مذہب اور جنس کی کوئی پابندی نہیں۔ مرد اگر سمجھیں کہ وہ طاقت ور ہیں اس لیے وہ کامیاب چور ثابت ہوسکتے ہیں تو یہ محض ان کی خوش فہمی ہے۔ مشہور ڈاکووں میں بعض خواتین کے عظیم الشان کارنامے بھی ملیں گے۔ مدھیہ پردیش میں پتلی کے ڈاکے کے قصے اب بھی مشہور ہیں۔ پھولن دیوی سے پورا ملک واقف ہے۔ بشیر ڈاکو کی بیوی کی ذہانت ضرب المثل ہے اس لیے ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ صنف نازک نے بھی اس اسپوٹنک کے دور میں چوری کے فن میں اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ چند ماہ قبل خبر شائع ہوئی کہ دہلی میں جیب کتروں میں خواتین کا گروہ بھی ہے۔ حیدر آباد کی نیوز ایجنسی (دکن نیوز) کی خبر میں بتلایا گیا ہے کہ وہاں خواتین کو مرغیاں چرانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اخبار کا تراشہ جب میں نے اپنے دوست کو دکھلایا تو انہیں یقین نہیں آیا اس لیے کہ ان کا کہنا ہے کہ ’’عورت مرغی نہیں چرا سکتی بلکہ مرغا چرایا ہوگا۔ فرائیڈ کا نظریہ جنس غلط ثابت نہیں ہوسکتا۔ ہمیشہ فطری رجحان مخالف جنس کی طرف ہوتا ہے۔‘‘
امتحان میں نقل کرنا بھی چوری ہے یہ ہر فرد کی اپنی ہمت اور ذہانت ہی پر منحصر نہیں بلکہ قسمت کا بھی ساتھ دینا ضروری ہے۔ بعض اوقات سارا مواد ساتھ ہوتا ہے مگر امتحان ہال میں ماحول سازگار نہ ہو تو نیک منصوبہ ادھورا رہ جاتا ہے۔ بی ایس سی میں زولوجی کے پرچہ کے لیے ضروری مواد ساتھ لے گیا تھا، اتفاق سے تین سوالات ایسے تھے جن کے جوابات آسانی سے لکھے جاسکتے تھے ابھی ارادہ کر رہا تھا کہ ان کاغذات کو کاپی کے نیچے رکھ کر سوالات حل کروں، اتنے میں میری سامنے کی سیٹ پر جو ہمارے دوست بیٹھے تھے وہ کاپی کرتے ہوئے پکڑے گئے اور انہیں امتحان ہال سے باہر کر دیا گیا۔ ’’اگلا گرا پچھلا ہوشیار۔‘‘ مقولہ مشہور ہے۔ چنانچہ خیریت اسی میں تھی کہ اس دستاویز سے استفادہ نہ کیا جائے۔ مجھے جہاں بی ایس سی، میں زولوجی کے پرچہ میں کاپی کرنے میں سخت ناکامی ہوئی وہاں جماعت نہم میں دینیات کے پرچہ میں کوئی دقت نہ ہوئی۔ سوال تھا کہ اللہ کے متعلق عقیدے لکھو میں نے مجبور ہرکر نقل اتاری اس لیے کہ خدا کے متعلق اگر عقائد لکھنے میں غلطی ہو تو نہ صرف امتحان میں ناکامی بلکہ ایمان خطرے میں پڑ جاتا۔ خدا کے فضل سے سارا سوال بڑے اطمینان سے میںنے حل کیا اور اس پرچے میں مجھے اچھے نمبر ملے۔ امتحانات میں چوری بہت عام ہے صدر امریکہ مسٹر کنیڈی کے بھائی مسٹر ایڈورڈ کینڈی نے ’’اخبار بوسٹن گلوب‘‘ سے انٹرویو کے دوران انکشاف کیا کہ (یہ خبر مارچ۱۹۶۲) کو تمام اخبارات میں رائٹر کے حوالے سے شائع ہوئی ہے) ۱۹۵۱ میں ہارورڈ یونیورسٹی کے امتحان میں ان کی بجائے ان کے دوست نے امتحان دیا تھا۔ یہ چوری پکڑی گئی اور مسٹر کینڈی کے خلاف یونیورسٹی نے قدم اٹھایا۔‘‘ جب بڑے لوگ نقل اتاریں تو چھوٹوں کی کیا اہمیت۔
نقل اتارنا یا امتحان میں چوری کرنا آسان ہے مگر اس میں جدت پیدا کرنا یقینا ذہانت کا ثبوت ہے۔ انٹر میڈیٹ کے امتحان میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ ہوا۔ ہمارے ایک دوست نے پاجامے پر کیمیا کی مساداتیں لکھ دی تھیں۔ امتحان ہال میں شیروانی کے باعث پاجامہ ڈھک گیا تھا۔ آہستہ سے شیروانی ہٹائی اور ان مساداتوں کو پرچہ میں نقل کرنا شروع کیا۔ اتفاق سے نگران کار نے محسوس کیا کہ موصوف بار بار کیوں شیروانی ہٹا رہے ہیں۔ بعد میں پتہ چل گیا۔ دس سے ساڑھے گیارہ بجے تک بھی جب امیدوار پاجامہ کی مساداتوں سے استفادہ سے باز نہیں آیا تو نگراں کار صاحب نے، جو بہت رحم دل تھے، ضبط سے کام لیا اور اس خیال سے کہ ممکن ہے امیدوار خود اپنی غلطی کو محسوس کر کے یہ حرکت ختم کرلے لیکن جب ’’انہماک‘‘ جاری رہا تو نگران کار نے چپراسی کو بلایا جیب سے ایک نوٹ نکالا اور بازار سے ریڈی میڈ پاجامہ لانے کے لیے کہا۔ جب پاجامہ آگیا تو ساڑھے بارہ بج چکے تھے یعنی امتحان کا وقت ختم ہونے کے لیے صرف آدھا گھنٹہ باقی تھا۔ امید وار موصوف خوش خوش تھے اور مسلسل نقل کیے جا رہے تھے مگر نگراں کار اس وقت ان کی سیٹ کے قریب آئے اور بڑی سنجیدگی سے فرمایا ’’جناب! آپ اپنا پاجامہ ہمیں دے دیجیے جس پر بڑی محنت سے آپ نے ساری کیمیا لکھ ڈالی ہے اس لیے کہ آپ کے جوابی بیاض کے ساتھ جامعہ کو یہ پاجامہ بھجوانا ہے تاکہ ممتحن دیکھ سکے کہ آپ نے کس قدر محنت کی ہے۔ یہ نیا پاجامہ حاضر ہے اسے آپ پہن لیں۔ امتحان ہال سے ملحقہ کمرے میں امیدوار موصوف کو بھیجا گیا جہاں انھوں نے اپنا پاجامہ اتارا اور سرکاری نیا پاجامہ پہن لیا۔
یہ تو رہا امتحان ہال کا منظر۔ موصوف جب گھر پہنچے تو افراد خاندان کو سخت حیرت ہوئی کہ ان کے جسم پر نیا پاجامہ کہاں سے آگیا؟ جب نتیجہ شائع ہوا تو نئے پاجامہ کی پراسرار کہانی سب کو معلوم ہوئی اس لیے کہ اخبار میں بجائے نمبر کے موصوف کا نام خصوصی طور پر شائع ہوا تھا، جس میں وضاحت کی گئی تھی کہ جامعہ نے انہیں تین سال کے لیے گھر پر آرام کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ادبی چوریاں بھی انتہائی دلچسپ ہوتی ہیں۔ لاہور کے ہفت روزہ میں ایک غزل شائع ہوئی تھی جس پر دوسرے شاعر نے دعوی کیا کہ وہ غزل اس کی ہے اس شاعر کی نہیں، جس کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ اس لیے کہ کئی سال قبل میرے نام سے فلاں رسالہ میں چھپ چکی ہے۔ واحد غزل کے دو دعویدار شاعروں کے خطوط اس پرچہ میں شائع ہوئے جس میں دونوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی یہ غزل اس کی ہے۔ قارئین حیران تھے کہ اس متنازعہ فیہ غزل کا اصل خالق کون ہے!
لیکن چند دنوں بعد ایک اور صاحب کا خط اس تنازعہ پر شائع ہوا۔ اس میں انھوں نے لکھا کہ یہ غزل ان دونوں شاعروں میں سے کسی کی بھی نہیں ہے بلکہ اس غزل کا اصل خالق یہ سارا تماشہ خاموشی سے دیکھ رہا ہے اور وقت آنے پر منظر عام پر آجائے گا۔ اس خط کی اشاعت کے بعد غزل کے دونوں دعویدار شعرا خاموش ہوگئے۔
جگر مراد آبادی کی صدارت میں مشاعرہ ہو رہا تھا ایک شاعر نے غزل شروع کی تو جگر چونک پڑے۔ سامعین نے خوب داد دی۔ ایک شعر چار دفعہ پڑھوایا گیا۔ جگر نے بھی داد دی اور دوسرے شعر کو چھ دفعہ پڑھوایا۔ شاعر خوش تھے اور جب تیسرا شعر پڑھنا شروع کیا تو اس عرصہ میں جگر کو ساری غزل یاد آگئی تب صدر مشاعرہ نے شاعر موصوف سے درخواست کی کہ اب وہ بیٹھ جائیں۔‘‘ ان کی غزل کے بقیہ اشعار جگر خود سنادیں گے۔‘‘
ایک ایسا دلچسپ واقعہ ایک اور مشاعرہ میں ہوا۔ مشاعرے میں باپ اور بیٹے دونوں شریک تھے اور دونوں شاعر۔ والد محترم غزل سنا کر چلے گئے۔ آخر میں ان کے فرزند ارجمند کی باری آئی تو انھوں نے بھی وہی غزل سنا دی۔ سامعین چکر میں پڑ گئے کہ ابا جان کی غزل صاحبزادے نے چرالی یا صاحبزادے کی غزل والد محترم نے ازراہ محبت سنا دی۔ یہ معمہ ابھی تک حل نہ ہوسکا۔
غزلوں کی چوری آسان ہے مگر بعض چھوٹی چیزوں کے چرانے میں خاص احتیاط کی ضرورت ہے۔ مثلاً میز پوش چرانا ہوتو احتیاط ضروری ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ فرار ہوتے وقت آلارم بجنے لگے اور چوری کا بھانڈا پھوٹ جائے۔
امتحان میں چوری یا غزلوں کی چوری سمجھ میں آسکتی ہے مگر بعض چیزیں ایسی ہیں جنہیں چرانا تو کجا چوری کی نیت کرنی بھی مشکل ہے مگر چوروں کی ذہانت کی تعریف کرنی چاہیے کہ انھوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ لندن کے میوزیم سے دو تصویریں چوری ہوگئیں جن کا ابھی تک پتہ نہ چل سکا۔ اس قدر بھاری تصویریں کس طرح نظر بچا کر میوزیم سے لے جانے میں یہ لوگ کامیاب ہوئے یہ مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ بہرحال اس سے معلوم ہوا کہ ان چوروں کو مصوری سے کس قدر فطری لگاؤ تھا۔ ایسے لوگوں کے خوف کا نتیجہ تھا کہ مونا لیزا کو جب امریکہ میں نمائش کے لیے لے جانا پڑا تو خصوصی انتظامات کیے گئے۔
دوسری حیرت انگیز چوری کی مثال کسی مغربی ملک کے عجائب گھر سے اونٹ کی چوری ہے۔ ان سب سے زیادہ دلچسپ بنگلہ دیش سے ریلوے انجن کی چوری کی خبر تھی جو ساری دنیا کے اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوئی۔ زرافہ اور اونٹ کی چوری باوجود مشکل ہونے کے ناممکن نہ تھی۔ لیکن ریلوے انجن کیسے چوری کیا گیا یقینا قارئین کے لیے معمہ تھا۔ ایک اور خبر ۱۶؍ جولائی ۱۹۶۱ کے روز نامہ سٹیٹس مین میں شائع ہوئی جن میں بتلایا گیا تھا کہ پرتھ(آسٹریلیا) کے ہوائی اڈے سے کسی شخص نے ہوائی جہاز چوری کیا۔ یہ چوری خود ایک بہت بڑا دلیرانہ اقدام ہے مگر اس چوری کا پتہ لگانے کے لیے کئی ہوائی جہاز مامور کیے گئے اور کافی صرفہ ہوا۔
چور نمک حرام ہوتا ہے یا نمک حلال اس کا فیصلہ کرنے میں دقت ہوتو ذیل کا واقعہ کافی ہے۔
ناسک میں ایک مجسٹریٹ کے گھر پر چور نقب لگا کر داخل ہوا۔ صبح کو جب نقب دیکھی گئی اور سامان کا جائزہ لیا گیا تو باورچی خانہ سے کھانا غائب ہونے کے سوا ہر چیز موجود تھی۔ پولیس نے چور کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا تو مجسٹریٹ نے چور سے سوال کیا کہ ’’نقب لگانے کے بعد بھی اس نے چوری کیوں نہیں کی؟ چور نے کہا کہ اس نے باورچی خانہ میں داخل ہونے کے بعد کھانا کھالیا تھا اور چوں کہ کھانے میں نمک تھا اس لیے اس گھر کا نمک کھانے کے بعد اسی گھر میں چوری کرنا نمک حرامی ہوتی ہے، جس سے بچنے کے لیے میں نے چوری نہیں کی۔‘‘ یہ واقعہ نمک حرام لوگوں کے لیے درس عبرت ہے۔
غیر سماجی حرکات کا مرتکب ہونے کے باوجود بھی چور کا ضمیر مردہ نہیں ہوتا۔ ایک جج کے گھر میں چوری ہوئی۔ چند سال بعد یہی چور کسی اور الزام میں اس جج کے سامنے پیش ہوا۔ جج نے چور کو بری کرنے کا حکم دیا اس لیے کہ اس کے خلاف جو الزامات لگائے تھے وہ ثابت نہ ہوسکے۔ چور جج کے اس احسان سے اس قدر متاثر ہوا کہ کئی سال قبل اس نے جو چیزیں چرائی تھیں وہ جوں کی توں واپس کر دیں اور خود جج کے گھر جاکر سارا سامان لوٹا دیا۔
چوروں کی ذہانت کا تو اعتراف ہے لیکن ان میں لطیف مزاج بھی ہوتا ہے جو معمولی تعلیم یافتہ افراد میں بھی مشکل سے ملے گا۔ اس کے ثبوت کے لیے لندن کا یہ واقعہ کافی ہے۔
لندن کے جس گھر میں چوری ہوئی اس گھر کے مالک کو ڈائری لکھنے کی عادت تھی ڈائری لکھ کر اس نے اتفاق سے میز پر کھلا چھوڑ دیا تھا۔ چور جب گھر میں داخل ہوا تو ضروری سامان اس نے اٹھا لیا اور پھر اس کی نظر ڈائری پر پڑی۔ چناں چہ چور نے ڈائری کا صفحہ الٹ کر یہ الفاظ لکھ دیے ’’گھر لوٹا گیا۔‘‘
(سیارہ ڈائجسٹ لاہور سے ماخوذ)