مہذب دنیا کے کسی بھی معاشرے میں جہیز کی حوصلہ افزائی کا تصور ممکن نہیں۔ لیکن ہمارے ہاں جہیز نہ لانے کی صورت میں کبھی تو چولہے پھٹ جاتے ہیں اور کبھی جہیز نہ لانے کی پاداش میں بنتِ حوا کو جلا ہی دیا جاتا ہے۔ ایسے واقعات پڑھ کر لگتا ہے کہ ہمارا مہذب دنیا سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہا ہے۔
لڑکیوں کو جہاں بہت سے مسائل کا سامنا ہے وہاں ایک مصیبت جہیز بھی ہے۔ جسے اس کے لیے ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ یہ کڑوا سچ اپنی جگہ کہ ہمارا معاشرہ اخلاق و کردار کے لحاظ سے کس قدر پیچھے ہے، اس کا اندازہ جہیز کے سبب لڑکیوں کو دی جانے والی ذہنی اذیت کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے۔ جو اکثر جسمانی اذیت اور پھر قتل تک میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ اس پر تقریریں بھی ہوتی ہیں اور بحثیں بھی۔ کچھ لوگ اس کے خلاف مہم بھی چلاتے ہیں مگر زبانی اور فیشن کے طور پر۔ بدقسمتی سے جہیز جیسی لعنت کو صرف کہنے کی حد تک برا خیال کیا جاتا ہے، لیکن بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو عملی طور پر اپنی زندگی میں اسے ایک لعنت سمجھ کر ظالمانہ رسم قرار دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کا تاریک پہلو یہ بھی ہے کہ جہیز کی لعنت کے خاتمے کے لیے میڈیا نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا اور نہ ہی سیاسی حلقوں میں سے کوئی اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے تیار ہے۔ بلکہ سیاست دانوں کے لیے تو شادیاں خاص طور پر سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہیں۔
اسلام نے بیٹی کو بوجھ کے بجائے رحمت اور جنت کے حصول کا ذریعہ قرار دیا ، لیکن آج بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ایسے اصولوں کی بنیادوں پر کھڑا ہے، جن کا تعلق دور سے بھی اسلام سے نہیں ہے، لیکن جہیز کی اس ظالمانہ رسم کے لیے رسول اللہ ﷺ کی زندگی کا سہارا لیا جاتا ہے، جبکہ شادی بیاہ میں ان تمام ہدایات کو سرے سے نظر انداز کردیا جاتا ہے جو ہمارے حضورﷺ نے ہمیں دی ہیں۔ یہ موجودہ مسلم سماج کی کج روی ہے کہ وہ حضورﷺ کے اس قول کو بھلا چکا ہے کہ ’’بہترین نکاح وہ ہے جو سب سے آسان ہو۔‘‘ اس کے برخلاف اپنی خواہشات کے جواز کے لیے ’جہیز فاطمہ‘ کا سہارا لیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جہیز ہمارے سماج کا ناسور بن گیا ہے۔ ایسی مثالیں ڈھونڈنے بیٹھیں تو بے شمار ملیں گی۔ جن میں بہو کو محض اس لیے جلادیا گیا کہ اس کے والدین سسرال والوں کی طرف سے جہیز کے لیے کئے جانے والے تقاضوں کو پورا نہ کرسکے۔ ہمارے معاشرے میں جہیز کو اولین ترجیح دی جاتی ہے۔ جبکہ لڑکی کی تعلیم اور اخلاق و کردار اور دین داری جیسے قیمتی زیورات کو ثانوی درجہ دیا جاتا ہے بلکہ ناقابلِ توجہ سمجھا جاتا ہے۔ موجودہ معاشرے میں طلاق کی بڑھتی شرح کی مختلف وجوہ میں سے ایک بڑی وجہ جہیز بھی ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق ۴۰فیصد طلاقوں میں جہیز کا عمل دخل ہوتا ہے جبکہ سسرال کی طرف سے تشدد کا نشانہ بننے والی ۹۰فیصد سے زائد خواتین یہ ظلم اس لیے سہتی ہیں کہ ان کے والدین سسرالیوں کی خواہشات کو پورا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ ہم یہ تمام حقائق تسلیم کرتے ہوئے بھی کہ اسلام اور مہذب معاشرہ جہیز کی لعنت کو ہرگز پسند نہیں کرتا اس سے چھٹکارا پانے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسی خواتین کی تعداد میں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے جن کی عمر ۲۵؍برس کی حد سے تجاوز کرچکی ہے اور شادی میں رکاوٹ محض جہیز کی کمی ہے۔
مہنگائی کے اس زمانے میں کوئی بھی شخص اپنی بیٹی کی شادی کا تصور کرتے وقت کم از کم یہ تو ضرور سوچتا ہے کہ اس فرض کی ادائیگی کے لیے اس کے پاس لاکھوں روپے ہونے چاہئیں۔ آج کے دور میں جب دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ہے کتنے لوگ ہوں گے جن کے پاس لاکھوں روپے ہیں؟ سچی بات تو یہ ہے کہ ہم اس وقت تک بہتری کی طرف آ ہی نہیں سکتے جب تک ہم خود اپنا احتساب نہ کریں اور جب تک ہم تبدیلی کا عزم لے کر نہ اٹھیں ایسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ ہزاروں گھر اجڑیں گے اور ہزاروں معصوم لڑکیاں زندگی کی بازی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔ اگر جہیز جیسی لعنت سے چھٹکارا حاصل کیا جائے تو کتنے گھر خوشحال ہوسکتے ہیں، لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنی بنیادی سوچ میں تبدیلی پیدا کریں وہ یہ کہ لڑکی سے شادی کے سلسلے میں اس کے جہیز کے بجائے اس کی تعلیم و تربیت، اخلاق و کردار اور دین داری کو ترجیح دی جائے۔ اگر ہم واقعی اپنی ترجیحات بدل لیں تو نہ جانے کتنے خاندانوں کو آباد کیا جاسکتا ہے اور ہزاروں زندگیوں کو جہیز کی بھینٹ چڑھنے سے بچایا جاسکتا ہے۔