فائزہ کا رشتہ دیکھنے کے لیے آنے والا یہ کوئی بیسواں خاندان ہوگا جن کی خواتین اس وقت اس کے گھر میں براجمان تھیں اور ان کی تواضع کے لیے کچن سے لذیذ پکوان کی خوش بو بھوک میں اضافہ کر رہی تھی۔ رشتہ لانے والی خواتین فائزہ کی ماں پر یوں سوالات کی بوچھار کیے ہوئے تھیں جیسے رشتہ نہ ہو کوئی امتحانی پرچہ ہو، جس میں سرخ روئی کا انحصار اس کی بیٹی کے نصیب سے وابستہ تھا۔ خاندانی حسب ونسب، بہن بھائیوں کی تعداد، بچوں کی شادی، خاندان کا تعلیمی، سماجی پس منظر، زمین، جائداد اور بچوں کے اکاؤنٹ تک کی بابت خواتین نہ جانے اور کتنے سوالات کر چکی تھیں۔ فائزہ کی ماں کسی سہمے ہوئے بچے کی طرح ان سوالات کے جوابات دے ہی رہی تھی کہ فائزہ چائے کی ٹرے ہاتھ میں لیے کمرے میں داخل ہوئی اور خاتون کے سوالات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ چند لمحوں کے لیے موقوف ہوا۔ اب ان خواتین کی تمام تر توجہ کا مرکز فائزہ تھی۔ سر سے پاؤں تک چبھتی نظریں جہاں فائزہ کے لیے باعث کوفت تھیں تو وہیں اس کی ماں کی آنکھوں سے جھلکتی آس و امید بھی کہ شاید بات بن جائے لیکن ماں کی آنکھوں کی کسوٹی نے اس پسند و ناپسند کے معیار کو لمحہ بھر میں ہی پرکھ لیا۔ جب ان خواتین نے آنکھوں ہی آنکھوں میں فائزہ کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ فائزہ کی ماں نے نہ چاہتے ہوئے بھی جب منہ میٹھا کرنے کے لیے مٹھائی کی پلیٹ ان خواتین کے آگے کی تو سب نے ناگواری کے ساتھ پلیٹ کو دور رکھنے کا اشارہ کر دیا اور پھر چند لمحوں بعد ہی بغیر کوئی جواب دیے وہاں سے ایسے غائب ہوئیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ ان خواتین کے رویے نے ہی سب کچھ سمجھا دیا تھا پھر بھی آس و امید کا دامن نہیں چھوڑا اور چند ہفتوں بعد ان خاتون کو بلا بھیجا جس کی معرفت یہ رشتہ آیا تھا۔ فائزہ کی ماں جانتی تھی کہ اس کی بیٹی ’’چاند سی دلہن‘‘ کے معیار پر پوری نہیں اترتی مگر وہ یہ ضرور جانتی تھی کہ اس کی بیٹی حیا کے زیور سے مالا مال ہے اور نیک سیرت و باکردار لڑکی ہے۔
کسی بھی گھر کو جنت بنانے کے لیے کیا یہ صفات کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ وہ دل میں خود سے آج یہ سوال کرنے پر مجبو رہوگئی تھی کہ اگر ہر لڑکے کی ماں اپنے بیٹے کے لیے چاند سی دلہن تلاش کرے گی تو فائزہ جیسی معمولی صورت والی لاکھوں لڑکیاں کہاں جائیں گی، ان کا نصیب کیا ہوگا؟
یہ اور اس جیسے نہ جانے کتنے سوالات و خدشات ہیں جو آج ہمارے معاشرے میں معمولی شکل و صورت والی بچیوں کی ماؤں کو لاحق ہیں۔
جیسے جیسے ہمارا سماج تعلیم یافتہ، مہذب اور جدید ٹیکنا لوجی سے بہرہ ور ہو رہا ہے ویسے ویسے ہمارے زندگی گزارنے کے رنگ ڈھنگ بدل رہے ہیں۔ ایک دور تھا جب سماج لڑکیوں کی زیادہ تعلیم کے خلاف تھا۔ رشتے، شادیاں خاندان سے باہر کرنا برا سمجھا جاتا تھا، یہاں تک بھی ہوتا تھا کہ اگر کسی گھر کا سربراہ خاندان سے باہر بچوں کی شادی کرتا تو پورا خاندان اس سے قطع تعلق کرلیتا۔ لڑکی زیادہ سے زیادہ مڈل یا میٹرک پاس ہوتی اور لڑکا بھلے تعلیم حاصل کر رہا ہوتا مگر جوان ہوتے ہی خاندان میں اس کی شادی کردی جاتی۔ اس شادی کا ایک تصور یہ بھی تھا کہ ایک تو لڑکا بری سوسائٹی کا نشانہ نہیں بنے گا اور دوسرا جب بیوی، بچوں کی ذمہ داری شروع سے ہی سر پر آن پڑے گی تو اچھا روز گار اپنانے اور محنت کرنے پر بھی مجبور ہوگا۔ اس طریقہ کار میں خاندان کی بچیاں خاندان میں ہی رہ جاتیں اور شکل و صورت کو معیار بھی نہ بنایا جاتا۔ لڑکے کے نصیب میں جو لڑکی لکھ دی جاتی وہ اسی کو اپنا مقدر سمجھتا۔
آج اعلیٰ تعلیم اور اچھے روزگار کی شرط نے جہاں لڑکی کا معیار بدل دیا ہے وہاں لڑکے کی پسند و ناپسند بھی تبدیل ہوگئی ہے۔ لڑکا جب تعلیم یافتہ ہو کر کسی اچھے عہدے پر فائز ہوتا ہے تو اسے خاندان کی معمولی صورت والی لڑکی پسند نہیں آتی پھر بڑھتی مہنگائی اور آنے والی نسل کی بہتری کے لیے لڑکے کی نظر میں عام سی لڑکی کے بجائے اعلیٰ تعلیم یافتہ لڑکی گاڑی کے دو پہیوں کی معقول دلیل ثابت ہوتی ہے جو اس کے گھر آکر نہ صرف اس کے معاشی بوجھ کو کم کرنے میں مددگار ہوسکتی ہے بلکہ بچوں کی تعلیم و تربیت میں بھی معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ تو وہ وجہ ہے جو اعلیٰ تعلیم اور روزگار کی بدولت لڑکے کی جانب سے معمولی صورت والی لڑکی کو رد کرنے کا سبب بن رہی ہے لیکن ضروری تو نہیں کہ خاندان کی سب ہی لڑکیاں واجبی شکل و صورت اور کم تعلیم یافتہ ہوں۔ اگر خاندان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور خوب صورت لڑکیاں موجود ہیں تو پھر خاندان سے باہر چاند سی بہو کی تلاش کیوں جاری ہے؟ اس کی موجودہ تناظر میں سب سے بڑی وجہ مشترکہ خاندانی نظام کی شکست و ریخت ہے۔
یہ وہ اسباب ہیں جن کے سبب معمولی شکل و صورت والی بچیاں اچھے رشتوں سے محروم ہیں۔ اگر ہم تعلیم یافتہ ہیں تو ہماری سوچ بھی مہذب اور باشعور ہونی چاہیے۔ اعلیٰ تعلیم کی بدولت اگر اچھے رشتے ڈھونڈے جاتے ہیں تو اعلیٰ تعلیم یا شعور یہ بھی سکھا جاتے ہیں کہ گھروں کو آباد کرنے میں خوبصورتی کے بجائے خوب سیرتی کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے۔ اگر خوب صورت بہو اور چاند سی دلہن گھر میں اترتے ہی اہل خانہ میں زمین و آسمان کے فاصلے پیدا کرکے پورا گھر اندھیروں کی نذر کردے تو ایسی چاندنی بھلا کس کام کی؟ برخلاف اس کے معمولی شکل و صورت والی لڑکی اپنے اعلیٰ اخلاق، کردار اور سیرت سے گھر کے اندھیروں کو اجالوں میں بدل کر پورا گھر بقعہ نور کر دے اور رشتوں کی مالا عقل و شعور سے ایسی مضبوط لڑی میں پروئے کہ باہر سے آنے والی آندھی و طوفان بھی اس لڑی کو نہ تو ڑ سکے تو یہی کامیاب انتخاب کہلاتا ہے۔
بیٹوں کے لیے چاند سی دلہن تلاش کرنے والی ماؤں سے گزارش ہے کہ لڑکی کی خوب صورتی کی بجائے اس کی سلیقہ شعاری، فرماں برداری اور اچھی تربیت کو معیار بنا کر کسی بھی لڑکی کو بہو بنا کر گھر لائیں پھر دیکھیں کبھی کسی کے سامنے مایوسی یا شرمندگی نہیں اٹھانی پڑے گی۔ چاند سی دلہن کی چاندنی اگر کچھ عرصہ بعد اندھیری رات میں بدل جائے تو ایسے اجالے سے گھر منور نہ کریں بلکہ اندھیری رات کو اجالے میں بدلنے والی ہستی گھر میں لائیں اور زندگی بھر کا سکون حاصل کریں۔lll