اِنَّ الْقُلُوْبَ تَصْدَئُ کَمَا یَصْدَئُ الْحَدِیْدُ اِذَا أَصَابَہٗ الْمَآئُ قِیْلَ وَمَا جَلَائُ ہَا۔ قَالَ کَثْرَۃُ ذِکْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَۃِ الْقُرْآنِ۔
’’بلاشبہ دلوں کو بھی اسی طرح زنگ لگتا ہے جس طرح لوہے کو پانی پہنچنے سے لگتا ہے۔ صحابہ میں سے کسی نے پوچھا یہ قلب کا زنگ کس چیز سے دور ہوتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’موت کی یاد اور تلاوتِ قرآن کی کثرت سے۔‘‘
جب لوہے کو زنگ لگتا ہے تو اس کی وہ صفات جو لوہا ہونے کی حیثیت سے ضروری ہیں کم ہونے لگتی ہیں۔ اور رفتہ رفتہ لوہا کسی کام کا نہیں رہتا۔ دل کا زنگ لگنے کی پہچان بھی یہی ہے کہ دل کی خوبیاں کم ہونے لگیں۔ ہمدردی، محبت، نرمی، انصاف، دوسروں کی تکلیف کا احساس، شکر گزاری، احسان شناسی، اور اسی قسم کی دوسری صفات صحت مند دل کی خوبیاں ہیں۔ جس دل میں یہ خوبیاں ہوں تو سمجھ لو کہ اس میں زنگ لگ رہا ہے۔
انسان کا سب سے بڑا محسن اللہ تعالیٰ ہے۔ لہٰذا ایک صحت مند دل کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر عمل اور ہر موقع پر اپنے محسن کی خوشنودی اور اسی کی رضا کا طالب ہوتا ہے۔ اس لیے جس ہمدردی، محبت اور انصاف کے پیچھے اللہ کی رضا نہ ہوگی اس کے پیچھے یا تو کوئی غرض چھپی ہوئی ہوگی یا شہرت اور ناموری کی آرزو۔ بے غرض ہمدردی، سچی محبت اور خالص انصاف اس دل کی صفات ہوسکتی ہیں جو اپنے مالک کے آگے جھکا ہوا ہو۔ مردہ دلوں کو روح بخشنے کے لیے، زنگ لگے ہوئے دل کو صاف کرنے کے لیے اور خوبیوں سے عاری دلوں کو آراستہ کرنے کے لیے رہبرِ اعظم ﷺ نے دو علاج تجویز فرمائے ہیں:
(۱) زیادہ سے زیادہ اپنی موت کو یاد کرنا۔ موت کی یاد انسان کے تعلق کو آخرت کی کامیابی سے جوڑتی اور اللہ سے رشتہ کو مضبوط کرتی ہے۔ موت کو یاد کرنا انسان کو ہر قسم کی برائی اور غلط کاری سے روک دیتا ہے۔
(۲) اسی طرح تلاوت قرآن دل کے زنگ کو اسی طرح ختم کردیتا ہے جس طرح تیزاب سے میل کچیل صاف ہوجاتا ہے۔ تلاوت قرآن کا عمل انسان کے اندر اللہ کی محبت، اس کی جنت کے حصول کے لیے تگ و دو اور اس کے عذاب سے بچنے کی فکر پیدا کرتا ہے۔ اس سے انسان کے ذہن و فکر کی صفائی اور اس کا تزکیہ ہوتا ہے جو دل کو ہر قسم کی برائیوں اور برے خیالات سے پاک کردیتا ہے۔