دماغی خلل اور طبِ نبوی

طٰہٰ نسیم

مشہور کہاوت ہے’’وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو وہم کا مرض ہوجائے تو وہ انسان ٹھیک نہیں ہوتا۔ ایک وہم تو کسی کے مزاج میں شامل ہوتا ہے لیکن ایک اور وہم ہے جو نفسیاتی مرض ہے اور اس وہم کا شکار شخص انجانے خوف یا ایسی عادت میں مبتلا ہوجاتا ہے، جسے ہم ابنارمل رویے کے زمرے میں رکھتے ہیں۔ اس قسم کے دماغی خلل کو OCD (Obsessive Compulsive Disorder) کہتے ہیں۔ آج کل OCDمیں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس کا شکار مریض خود تو پریشان ہوتا ہی ہے اپنے گھر والوں کو بھی پریشان کرتا ہے۔
ماہرین نفسیات کے مطابق OCDکے شکار مریض کو اس قسم کے خیالات، آوازیں اور شکلیں نظر آتی ہیں کہ وہ انھیں حقیقی سمجھ لیتا ہے اور ہر وقت بے چینی اور وہم میں مبتلا رہتا ہے۔ کئی مرتبہ تو یہ سب اتنا زیادہ ہوجاتا ہے کہ حالات مریض کے قابو میں نہیں رہتے۔ وہ جتنا ان سے بچنے کی کوشش کرتا ہے یہ خیالات اور حرکتیں اس پر حاوی ہوتے چلے جاتے ہیں اور یہ تمام چیزیں مل کر انسان کو اس قدر پریشان کردیتی ہیں کہ کئی مرتبہ وہ پاگلوں جیسی حرکتیں کرنے لگتا ہے۔ مثال کے طور پر کسی شخص کو جراثیم یا گندگی لگنے کا وہم ہوجائے تو وہ شخص بار بار اپنے ہاتھ صاف کرتا ہے۔ اس کے جسم کا کوئی بھی حصہ کسی سے چھو جائے تو اسے دھوئے گا۔ اگر کسی کو اپنی جان کا خطرہ پیدا ہوجائے تو وہ رات کو گھر میں تالا لگا کر سوئے گا۔ بار بار اٹھ کر تالے کو چیک کرے گا کہ صحیح طرح سے لگا ہوا ہے یا نہیں۔ وہ ہر شخص کو شک کی نظر سے دیکھے گا۔ اوسی ڈی میں مبتلا شخص کو آپ کتنا ہی سمجھا لیں لیکن وہ اس وہم سے نکل نہیں پاتا۔ میں ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جو پیشے سے صحافی ہے اور ایک اچھے خاصے ادارے میں کام کررہا ہے۔ اسے جراثیم لگ جانے کا خوف ہے وہ کسی ایسے گلاس میں پانی نہیں پیتا ہے جسے کسی نے چھوا ہو۔ اگر کوئی شخص غلطی سے اس کی چپل پہن لے یا تولیہ استعمال کرلے تو وہ انھیں اچھی طرح صابن سے دھلواتا ہے۔ پینے کا پانی سب سے بچا کر رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص باہر سے آکر اس سے ہاتھ ملائے تو وہ ملاقات کے بعد ڈیٹول ملے ہوئے پانی سے ہاتھ دھوتا ہے۔ یہاں تک کہ ٹائیلٹ میں جانے سے پہلے وہ فنائل پانی میں ڈال کر کئی بالٹیاں بہادیتا ہے اور فارغ ہونے کے بعد دونوں پاؤں پنڈلیوں تک اور ہاتھ کہنیوں تک صابن سے رگڑ رگڑ کر دھوتا ہے۔ اس قسم کے دماغی خلل کا علاج دواؤں، نفسیاتی مشوروں اور خودارادی کو مضبوط کرکے کیا جاتا ہے۔ لیکن اوسی ڈی کا بھی دین اسلام میں علاج ہے۔ اسے عربی میں وسوسہ کہتے ہیں۔
قرآن نے شیطان کے ذریعے پیدا کردہ اس خلل کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے: ’’پھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ ان کے بدن کا پردہ دونوں کے سامنے ظاہر کردے، جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھا۔‘‘ (الاعراف: ۲۰)
اس آیت میں شیطان کے ذریعے حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ کو بہکانے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ شیطان کس طرح انسان کے دماغ میں ایسی بات داخل کردیتا ہے، جو اس کے لیے مضر ہو۔
انسان کے دماغ میں شیطان کے ذریعے وسوسے، وہم یا نقصان دہ باتیں ڈالنا قرآن وحدیث دونوں سے ظاہر ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے: ’’فرمایا رسول اللہ ﷺ نے شیطان کسی انسان کے پاس آتا ہے اور اس سے کہتا ہے (یہاں مراد دماغ میں خلل پیدا کرنے سے ہے) فلاں چیز کا خالق کون ہے؟ فلاں چیز کو کس نے پیدا کیا اور آخر میں کہتا ہے تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا؟ اگر کسی کے ذہن میں اس طرح کے خیالات آئیں تو اسے اللہ کی پناہ لینی چاہیے اور ان خیالات کو جھٹک دینا چاہیے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اس قسم کے وسوسے انسان کو پریشان کرتے ہیں وہ بے چین ہوجاتا ہے اور کئی طرح کے خلل کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہی نہیں شیطان دماغ میں کوئی نہ کوئی فطور داخل کرکے انسان کی زندگی محال کردیتا ہے۔ انسان اس کے جال میں پھنس کر کوئی نہ کوئی ایسی بات یا حرکت شروع کردیتا ہے جسے ہم دماغی خلل یا فطور کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ شیطان انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اس لیے وہ اسے مایوسی، بے یقینی، نامرادی، حوصلہ شکنی یا الجھن میں مبتلا کردیتا ہے کہ اچھا بھلا انسان دیوانوں جیسی حرکتیں کرنے لگتا ہے۔
عام طور پر بیماریوں کا لگنا، ناپاک ہونے کا احساس، غیرمرئی آوازوں کا سننا، عقیدہ کمزور ہونا شیطان کے پیدا کردہ امراض ہیں۔ ان کے کچھ اور اسباب بھی ہیں جو جینیاتی (Genetics)،جسمانی امراض یا ماحول کے سبب بھی پیدا ہوتے ہیں۔ کبھی تو کچھ لوگ اتنے برے حالات سے گزرتے ہیں کہ ان کا دماغ بری طرح متاثر ہوتا ہے اور خلل پیدا ہوجاتا ہے۔ کئی مرتبہ کمزور قوت ارادی، خود اعتمادی میں کمی، ازدواجی تعلقات میں کشیدگی اور جنسی نا آسودگی کے سبب بھی یہ مرض پیدا ہوتا ہے۔
مرض کا صحیح سبب جان کر اس کے ماہر سے علاج کرانا چاہیے۔ ورنہ انسان کو شیطان کی شرارتوں سے اپنے رب کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔ اس بارے میں متعدد احادیث ہیں۔
حضرت عثمان بن ابوالعاصؓ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس گئے اور کہا کہ شیطان میرے اور میری عبادت کے بیچ رخنہ ڈالتا ہے۔ جب میں تلاوت کرتا ہوں تو مجھے بھلا دیتا ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ شیطان کا عمل ہے اور اس شیطان کا نام خزاب ہے۔ جب شیطان تمھیں پریشان کرے تو اپنے بائیں کندھے پر اعوذ باللہ پڑھ کر تین مرتبہ تھتکار لیا کرو۔ حضرت عثمان بن ابوالعاصؓ نے اس پر عمل کیا اور انھیں شیطان کے وسوسے سے چھٹکارا مل گیا۔
اس قسم کے وسوسے میں شیطان مردود جب اللہ کے نیک بندوں کو مبتلا کرسکتا ہے تو ہماری کیا حیثیت ہے۔ انسان اولاد آدم میں کسی کو بھی وہم اور شک میں مبتلا کرسکتا ہے۔ اس شیطانی حرکت کے مختلف انسانوں پر الگ الگ اثرات پڑتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو فکرمندی یا معمولی بے چینی ہوجاتی ہے، کچھ دماغی امراض کا شکار ہوجاتے ہیں اور کچھ لوگوں کے شک و شبہ کی بنا پر آپسی تعلقات خراب ہوجاتے ہیں۔
اوسی ڈی لاعلاج نہیں ہے، زمانہ قدیم سے دوا، سکون دینے والی ورزش اور Cognitive Behaviourتھیراپی کے ذریعے اس کا علاج کیا جاتا رہا ہے۔ آج کل سائیکیٹری میں اس کا علاج Anti Depressants سے کیا جاتا ہے۔ لیکن ان دواؤں سے پورا علاج نہیں ہوپاتا۔ کچھ لوگوں کے مرض کی شدت تو کم ہوجاتی ہے لیکن مکمل آرام نہیں ہوپاتا۔ چنانچہ علاج کے لیے دواؤں کے ساتھ دیگر تھیراپیوں کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔
اسلام نے انسان کو جسمانی پاکی کے ساتھ ساتھ خیالات کی پاکی کا بھی درس دیا ہے۔ وہ صحت مند معاشرے کے لیے افکار وخیالات کی طہارت اور مثبت سوچ کی تعلیم دیتا ہے۔ اس لیے آپ کا فرمان ہے۔ ’’پاکی نصف ایمان ہے۔‘‘ ایمان کی سلامتی کے لیے جسم کے ساتھ ساتھ صالح فکر اور اچھے خیالات بھی ضروری ہیں۔ حالانکہ حادثات اور جینیاتی نقائص انسان کے بس کی بات نہیں ہیں، لیکن صالح خیالات اور مثبت طرزِ فکر انسان کے بس میں ہے۔ اگر انسان مضبوط ایمان کا حامل ہے تو عبادات و دعا سے اس قسم کے خلل اور ذہنی انتشار سے بچ سکتا ہے۔ اسلام میں دوا کے ساتھ ساتھ دعا کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ زیادہ بری حالت میں وہ دوا ضرور کرے اور اس کے ساتھ ساتھ دعا بھی کرے۔ عبادت اور اللہ سے مدد مانگنے والوں کو سکون وراحت کا احساس ہوتا ہے۔ پاک صاف اور نیک آدمی شیطان کے شر اور وسوسوں سے محفوظ رہتا ہے۔ اللہ کا ذکر بھی شیطان سے محفوظ رہنے کا بڑا کارگر طریقہ ہے۔ اس لیے قرآن میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اس کا کوئی زور نہیں چلتا، ان لوگوں پر جو ایمان رکھتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس کا زور تو انہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس کو اپنا دوست بناتے ہیں اور اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہیں۔‘‘ (النحل:۹۹-۱۰۰)
مشہور حدیث ہے۔ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے اللہ تبارک و تعالیٰ میری امت کے دلوں میں اٹھنے والے وسوسوں کو معاف کردیتے ہیں اگر وہ ان پر عمل نہیں کرتے یا ان پر گفتگو نہیں کرتے۔ (بخاری و مسلم)
ثابت ہوا کہ انسان کے افکار و خیالات میں انتشار خلل یا بدحواسی پیدا کرنے میں شیطان مردود کا ہاتھ ہے۔ اگر انسان پاک و صاف رہے۔ اللہ کا ذکر کرے اور اس سے حفاظت کے لیے تعوذ یا معوذتین وغیرہ پڑھتا رہے۔ نیک لوگوں کی مجلس اور صحبت میں بیٹھے، بدکاروں اور مفسدوں سے دور رہے اور پورے عقیدے سے اللہ کی پناہ مانگے اور گناہوں سے بچے تو دماغی امراض سے بچ سکتا ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146