دنیابھر میں دمہ سے متاثرین کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے۔ اگر وقت پر احتیاط برت لی جائے اور اپنے طرزِ زندگی پر مکمل توجہ دی جائے تو ماحولیاتی آلودگی سے ہونے والی اس بیماری سے نجات ممکن ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کے نقصانات بے شمار ہیں لیکن اس کاایک بڑا نقصان یہ ہے کہ اس سے دمہ کی وبا پھیلتی ہے۔ عالمی تنظیم صحت WHOکے مطابق ۱۹۷۰ کے بعد سے دمہ کے معاملات میں اضافہ ہی ہوتاجارہاہے۔ ہمارے ملک ہندوستان میں ہی ہر سال دمہ کے مریضوں میں ۵ فی صد کااضافہ ہوجاتاہے۔
دمہ کیاہے؟
دمہ سانس سے متعلق بیماری ہے۔ اس میں سانس کی نالیوں میں سوجن اور ورم آجاتاہے جس کی وجہ سے وہ سکڑجاتی ہیں اور اس کے نتیجے میں سانس لینے میں پریشانی ہوتی ہے۔ اگر وقت پر اسے قابو میں نہ کیاجائے تو پھیپھڑوں میں ہوا بھرجاتی ہے اور وہ پھول جاتے ہیں۔ اس سے دمہ کے حملے کا خطرہ بڑھ جاتاہے۔ نم اور سرد ہوائیں دمہ کے لیے مہمیز کاکام کرتے ہیں۔ اس لیے برسات اور سردی کے موسم میں دمہ کے مریضوں کو خاص احتیاط برتنی ہوتی ہے۔
دمہ ہے لاعلاج
سینئر فزیشین ڈاکٹر ونیت سبھروال کاکہناہے کہ دمہ کا کوئی ایسا مستقل علاج نہیں ہے جس سے اسے جڑ سے ختم کیاجاسکے۔ ڈاکٹر کے مشورے سے متعینہ دوائیں استعمال کرنے اور اس کے لیے مہمیزکا کام کرنے والی چیزوں سے بچ کرہی اس مرض کو قابو میں رکھاجاسکتا ہے۔
دمہ کی علامات
دمہ کی علامتیں فرد کے لحاظ سے الگ الگ ہوسکتی ہیں۔ اس کی کئی علامتیں تو ایسی ہیں جو سانس سے متعلق دوسری بیماریوں کی بھی علامت سمجھی جاتی ہیں۔ ان علامتوں کی پہچان اس اعتبار سے ضروری ہے کہ وہ دمہ کی ہی علامتیں ہیں۔ معمول کے اعتبار سے مریضوں میں سینے میں جکڑن، سانس چھوڑتے وقت ایک خاص قسم کی آواز کا نکلنا، رات میں اور صبح کے وقت بلغم کی شکایت ہونا، سانس کی نالی میں ہواکاگزرکسی رکاوٹ کے بغیر نہ ہونا، وغیرہ ابتدائی علامتیں ہیں۔ صبح میں ورزش کرتے وقت یا ٹھنڈی ہوا کی زد میں آنے سے یہ علامتیں بڑھ جاتی ہیں۔
بچوں میں دمہ کا حملہ
ڈاکٹر سنجے ٹنڈن کے مطابق ’’بچوں میں بھی یہ مرض تیزی سے پھیل رہاہے، دو تین سال کے بچے بھی اس کی زد سے محفوظ نہیں ہیں۔ اس کااصل سبب بچوں کو ماں کا دودھ نہ پلاکر بوتل سے دودھ پلانا اور خراب آب و ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میٹروسٹیز میں یہ مرض بچوں میں تیزی سے پھیل رہاہے۔ اس کا ایک اہم سبب اینٹی بایوٹک ادویہ کا استعمال ہے جو تیزی سے بڑھ رہاہے۔ اس سے بچوں کی مرض سے لڑنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے نتیجۃً وہ دمہ اور دوسری بیماریوں کی زذ میں آجاتے ہیں۔
دمہ کے لیے ذمہ دار
ڈاکٹر سبھروال کے مطابق اس مرض کے لیے ماحولیاتی آلودگی اور موروثیت خاص طورپر ذمہ دار ہے۔ چنانچہ جن بچوں کے والدین اس مرض سے متاثر ہوں ان بچوں میں اس کاخطرہ زیادہ رہتاہے۔ برسات اور بالخصوص سردی کے موسم میں عام آدمی کی سانس کی نالی بھی معمولی سی سکڑجاتی ہے۔ اس لیے اس دوران دمہ کی زد میں آنے کااندیشہ بڑھ جاتاہے۔ ان موسموں میںدھواں، گردو غبار، پالتو جانوروں اور جس دوا سے الرجی ہو، ان سے دور رہناچاہیے۔‘‘
ذہنی تنائو بھی اس کا ایک سبب ہوسکتاہے۔ کیونکہ اعصاب تنائو سے جسم کی قوت مدافعت کمزور پڑنے لگتی ہے۔
کیسے قابو میںرکھیں
ڈاکٹر نے جو دوائیں بتائی ہیں، انھیں بلاناغہ اور وقت پر لیں۔
ضرورت کے مطابق انہیلر کا استعمال کریں۔
ان چیزوں سے بچیں جن سے دمہ کے حملہ آور ہونے کا اندیشہ ہو۔
کھانے پینے پر قابو رکھیں۔ کھانا آہستہ آہستہ اور چباکرکھائیں۔
کھانے کے آدھا گھنٹے بعد پانی پئیں۔
گرم مسالے، لال مرچ، اچار، چائے اور کافی کااستعمال نہ کریں یا کم سے کم کریں۔
حملہ ہونے پر کیا کریں
بلاتاخیر ڈاکٹر کی بتائی ہوئی دوا لیں۔
سیدھا بیٹھ جائیں، بالکل نہ لیٹیں۔
کپڑوں کو ڈھیلا کرلیں، آرام دہ کپڑے پہنیں۔
پرسکون رہنے کی کوشش کریں۔
اپنے ڈاکٹر سے رابطہ قائم کریں یا ہسپتال جائیں۔