قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ اَخْرَجَ لِعِبَادِہٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ ھِیَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَوْمَ الْقِیَامَۃِ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیَاتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ (الاعراف:۳۲)
ترجمہ:۔’’اللہ نے کھانے پینے اور زینت کی جو چیزیں اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہیں، ان سے پوچھو کہ ان کو کس نے حرام کیا، کہہ دو کہ یہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ایمان والوں کے لیے ہیں۔ اور قیامت کے دن تو مکمل طور پر انہی کے لیے ہوں گی اس طرح ہم اپنی باتیں کھول کھول کر بیان کرتے ہیں، ان لوگوں کے لیے جو اصحابِ علم ہیں۔‘‘
قرآن و احادیث میں جس معاشی جدوجہد کی تاکید کی گئی ہے، وہ آخرت کی زندگی کے استحضار اور اس کی تیاری کے احساس کے غلبے، اللہ کے ذکر کے لیے دل کی آمادگی اور دنیا کو مقصود کا درجہ نہ دینے، دوسروں کی محتاجی سے بچنے اور اپنی اولاد کو دوسروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑنے کے احساس کے ساتھ دی ہے۔اس کے برعکس موجودہ دور کی ہماری معاشی سرگرمیاں ایسی ہیں جو آخرت کو فراموش کرکے دنیا ہی کو مقصود بنانے اور ذکر و عبادت و اطاعت سے دست بردار ہوکر، خوشحال زندگی کو ہی کامیابی کا معیار سمجھنے پر مشتمل ہیں۔
دورِ جدید کی سرمایہ دارانہ جکڑ بندیوں سے دنیا کا کوئی ملک اور کوئی قوم آزاد نہیں۔ سرمایہ داری کی ان جکڑبندیوں نے ہمارے مادی اور معاشی احساسات کو نہایت طاقتور اور تیز سے تیز تر کردیا ہے اور ہمارے وقت کا بیشتر حصہ معاشی جدوجہد کی نذر ہوگیا ہے۔ قرآن و حدیث اس طرح کی معاشی جدوجہد کی نہ صرف یہ کہ نفی کرتے ہیں، بلکہ وہ اس کی شدید مذمت کرتے ہیں اور دنیا میں اس انہماک کو آخرت کی زندگی کی تباہی کے مترادف قرار دیتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارا دین ہمیں لاتنس نصیبک من الدنیا کہہ کر ہمیں اس سے لطف اندوز ہونے کی بھی تلقین کرتا ہے۔ یہ متوازن نقطہ نظر ہے جو دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی کا ضامن ہے۔