دنیا کی فلاح آبادی کے اضافے میں ہے!

ڈاکٹر اسامہ شفیق

ماہرِ معاشیات مالتھس نے اٹھارہویں صدی کے آغاز سے قبل 1798ء میں آبادی اور وسائل میں موازنے کا نظریہ پیش کیا۔ مالتھس کے پیش کردہ نظریے کے مطابق دنیا میں آبادی میں اضافہ ضرب کی صورت میں ہوتا ہے جب کہ وسائل میں اضافہ 1+1کی صورت میں ہوتا ہے۔ اس نظریے کے بعد دنیا میں عمل کی جہت تبدیل ہوگئی۔

حالانکہ اسلام کی طرح ہی مسیحیت میں بھی آبادی میں اضافے اور بچوں کی پیدائش پر کوئی قدغن عائد نہیں کی گئی لیکن جدید علوم نے مالتھس کے انقلاب آفریں نظریے کے تحت یہ بتایا کہ آبادی میں اضافے پر کنٹرول نا گزیر ہے، ورنہ بڑھتی ہوئی آبادی تمام قدرتی وسائل کو کھا جائے گی اور انسان بھوکا مر جائے گا۔ اس سوچ کے زیر اثر ایک نئی دنیا وجود میں آئی۔ انسانی تاریخ کی حیرت انگیز ترقی ہوئی۔ انسان نے یہ سمجھا کہ جو کچھ علم بتاتا ہے وہ ہی درست ہے۔ خدا، رسالت، وحی، الہٰام، آسمانی کتب سب اذکار رفتہ قرار پاگئے۔ مالتھس بھی اسی سوچ کا ایک فرد تھا لیکن اس کی اہمیت اس وجہ سے زیادہ ہوئی کہ اس نے انسان کی بقا کا راز بتایا جو کہ آبادی پر کنٹرول تھا۔ لہٰذا دنیا بھر میں اسقاطِ حمل اور مانع حمل کی تحریکیں برپا ہوئیں۔ یورپ سے لے کر ایشیا تک تمام ممالک کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ اب آبادی کو روکنا ہے۔ انسان کی بقا اس میں نہیں کہ انسان زیادہ ہوں بلکہ بقا و فلاح اس میں ہے کہ آبادی کم ہو تاکہ ہر انسان کو معیاری تعلیم، صحت، روزگار اور دیگر سہولیات بہم پہنچائی جاسکیں۔ مغرب اور اس کے زیر اثر علاقوں میں اس کا اثر زیادہ ہوا اور ان ممالک نے پہلے ہی مرحلہ میں آبادی میں اضافے کی حوصلہ شکنی کی اور دوسرے مرحلے میں بہت سے ممالک نے بچوں کی تعداد سرکاری سطح پر باقاعدہ مقرر کردی۔ انسان نے انسانوں کی پیدائش کو ہر ممکن طریقے سے روکا اور اس کی ہلاکت خیزی سے آگاہ کیا۔ یہ معاملہ محض سرمایہ دارانہ ریاستوں تک محدود نہیں رہا بلکہ کمیونسٹ و سوشلسٹ نظریات پر قائم ممالک نے بھی اس کی پیروی کی۔ 1949 میں عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد چین کی حکومت نے آبادی پر کنٹرول کی پالیسی اپنائی اور 1980 میں باضابطہ طور پر ’’ایک خاندان‘ ایک بچہ کی پالیسی‘‘ کو نافذ کردیا گیا۔ لیکن محض تین دہائیوں کے بعد ہی اس پالیسی کے تباہ کن نتائج آنے شروع ہوگئے جس میں سرفہرست نوجوانوں کی تعداد میں کمی اور بوڑھوں کی تعداد میں اضافہ تھا۔ اس کا لامحالہ اثر افرادی قوت پر پڑنا شروع ہوا۔

دوسری اہم ترین تبدیلی جنس کا عدم توازن تھا۔ ایک بچے کی پابندی کی وجہ سے بہت سے خاندانوں نے جب یہ دیکھا کہ پیدا ہونے والا بچہ لڑکی ہے تو اس حمل کو ضائع کروا دیا جس کے نتیجے میں لڑکے کی خواہش میں مرد و عورت کا توازن اس قدر بگڑ گیا کہ یہ تناسب تین لڑکے اور ایک لڑکی تک چلا گیا۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے چین کی حکومت نے 2016 میں ایک بچے کی پابندی کو ختم کردیا لیکن جو عدم توازن ان پالیسیوں کے نتیجے میں پیدا ہوچکا تھا اس کا سدباب نہ ہوسکا یہاں تک کہ اگست 2021 میں باقاعدہ طور پر قانون میں ترمیم کرکے ’’تین بچے فی خاندان‘‘ کی اجازت دے دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی ان بچوں اور خاندان کی فلاح و بہبود اب ریاست کے ذمے ہے‘ اس میں تعلیم اور ملازمت کا بندوبست بھی شامل ہے۔

آبادی پر کنٹرول کا منفی اثر سب سے زیادہ آبادی رکھنے والے چین پر ہی نہیں پڑا بلکہ ایک اور کمیونسٹ ملک روس بھی اس وقت آبادی میں کمی کے شدید ترین مسائل کا شکار ہے۔ دنیا کے چند بڑے جغرافیہ رکھنے والے ممالک میں سر فہرست روس جوکہ دنیا کے رقبے کے گیارہ فیصد سے زائد پر مشتمل ہے‘ اس کی کُل آبادی محض 14 کروڑ اور 60 لاکھ ہے جبکہ آبادی میں اضافے کا تناسب تقریباً صفر فیصد ہے، جس کی وجہ سے اب وہاں ضعیف العمر افراد کی اکثریت ہے اور دنیا کے گیارہ فیصد رقبے پر مشتمل ملک دنیا کی آبادی کے محض87.1 فیصد کا حامل ہے۔ یہ وہ صورت حال ہے جو روس کے لیے بھی پریشانی کا باعث ہے۔ اس وقت روس ان ممالک میں شامل ہے جو شدید ترین آبادی کی قلت کا شکار ہیں اور یہ قلت ان ممالک کو بتدریج کمزور کر رہی ہے۔ آبادی کی اس قلت کو دور کرنے کے لیے روس کی حکومت نے آبادی میں اضافے کے لیے مراعات کا اعلان کیا ہے۔ اس نئی پالیسی کے مطابق اگر کوئی خاتون دس بچوں کو جنم دیتی ہے اور دسواں بچہ ایک سال کی عمر تک پہنچ جاتا ہے تو اُس خاتون کو اعلیٰ ترین سویلین اعزاز ’’ہیروئن ماں‘‘ سے نوازا جائے گا اور اس کے ساتھ ہی خاتون کو ایک ملین یعنی دس لاکھ رشین روبل کی انعامی رقم بھی دی جائے گی۔ بات یہیں تک نہیں ہے بلکہ اس کے علاوہ ان بچوں کی اعلیٰ ترین تعلیم، تربیت، روزگار، خوراک، صحت و علاج معالجہ بھی حکومت کے ہی ذمے ہوںگے۔ یہ تمام قدم اس لیے اٹھائے جارہے ہیں کہ روس سمیت پوری دنیا میں مختلف تحقیقات کے بعد یہ نتائج ظاہر ہوئے کہ اعلیٰ ترین معیار زندگی، اعلیٰ ترین معیار تعلیم کی وجہ سے یا اس کو پانے کے لیے جوڑے یا تو بچے پیدا نہیں کرتے یا پھر کیرئر کی جستجو میں وہ اپنا بچے پیدا کرنے کا وقت ضائع کرچکے ہوتے ہیں اس کے علاوہ زیادہ بچوں کی پیدائش میں یہ امر بھی مانع ہوتا ہے کہ ان بچوں کو وہ اعلیٰ ترین معیار زندگی اور اعلیٰ ترین تعلیم مہیا نہیں کرسکتے۔ اس وجہ سے اب باقاعدہ طور پر روس میں پرائیویٹ تعلیم، ٹیوشنز پر کریک ڈاؤن کرکے اس کو مکمل طور پر ختم کیا جارہا ہے اور لوگوں کو بہت بلند تر معیار زندگی تک پہنچنے کی جستجو کو اب حکومتی سطح پر کنٹرول کرنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔

مغرب کا وہ مکمل بیانیہ جو مالتھس کے نظریے کے ساتھ معرض وجود میں آیا تھا‘ زمین بوس ہوچکا ہے۔ پورا یورپ اور امریکا بھی آبادی کے بحران کی زد میں ہے۔ بلند ترین معیار زندگی رکھنے والے اسکینڈ نیوائی ممالک ڈنمارک، ناروے اور سوئیڈن میں آبادی میں اضافے کی شرح محض ایک فیصد ہے جب کہ ماہرین کے مطابق کسی بھی نسل و قوم کو زندہ رکھنے کے لیے آبادی میں اضافے کی شرح کم از کم2.1 بچے فی خاندان ہونی چاہیے ورنہ وہ نسل معدوم ہوجائے گی۔ اسی طرح بلند ترین معیار زندگی رکھنے والا جاپان اب بوڑھا ہوچلا ہے۔ وہاں نوجوانوں کی قلت ہے اور آبادی میں اضافہ 0.39- فیصد ہے۔ برطانیہ میں اس وقت آبادی میں اضافے کی شرح 5.0 فیصد ہے جوکہ گزشتہ پندرہ سال میں اضافے کی کم ترین سطح ہے۔

1990 کی دہائی سے برطانیہ میں آبادی میں اضافے کا دارومدار مہاجرین کی آمد پر ہے جہاں دنیا بھر سے لوگ آکر مختلف امور سر انجام دیتے ہیں۔ مالتھس کا نظریہ خود اس کے ملک برطانیہ میں بھی مکمل طور پر ناکام ہوچکا ہے۔ دنیا میں‘ جہاں ایک جانب انسانی آبادی میں اضافہ ہوا تو وہیں انسانی وسائل میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔ترقی یافتہ ممالک اور سپرپاورز بھی آبادی کی کمی کا شکار ہیں۔ آبادی میں اضافے کے لیے وہ ہر سال ہزاروں افراد کو اپنے ملک تعلیم‘ روزگار اور تجارت کے لیے بلاتے ہیں اور انہیں اعلیٰ ترین سہولیات فراہم کر کے وہیں کا مکین بننے پر مجبور کرتے ہیں۔

دنیا کے ترقی یافتہ ترین ممالک میں بھی اب مہاجرین کی اکثریت یا معقول تعداد اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان ممالک کو اپنی ترقی برقرار رکھنے کے لیے جس افرادی قوت کی ضرورت ہے وہ ان کے پاس نہیں ہے۔ مغرب ترقی یافتہ ہونے اور اعلیٰ معیار زندگی رکھنے کے باوجود ایک نئے مسئلے کا شکار ہے وہ ہے آبادی میں مستقل کمی اور یہ مسئلہ محض سماجی نہیں بلکہ ان ممالک کو اپنی معیشت کو مستحکم رکھنے کے لیے بھی انسانوں کی ضرورت ہے جو کاروبارِ زندگی کو چلاسکیں۔

مذہب سے بغاوت کا سفر جو مغرب کی پوری تہذیب کی اصل ہے اب جا بجا اپنے مظاہر دکھا رہا ہے اور انسان کو یہ سبق بار بار یاد دلاتا ہے کہ قرآن عظیم الشان میں مذکور رب رحمن کا وعدہ سچا ہے۔ترجمہ: ’’اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ درحقیقت اُن کا قتل ایک بڑی خطا ہے۔‘‘ (الاسراء آیت نمبر 31)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146