دنیا کی محبت سے یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی بے گھرا ہوجائے اور جو کچھ ہے وہ برباد کردے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اُس کی محبت چھوڑدے اور اُس سے دل نہ لگائے۔ دنیا کی محبت سے یہ مراد ہے کہ اُس سے ایسی محبت کریں کہ آخرت چھوٹ جائے۔ اسی واسطے حدیث شریف میں آیاہے کہ دنیا کی محبت ہر گناہ کی جڑ ہے۔ یعنی ہر گناہ سے بڑھ کر گناہ ہے۔ تو یہ اسی محبت کو کہا گیا ہے جس کی بدولت آخرت چھوٹ جائے ورنہ اگر آخرت نہ چھوٹے تووہ دنیا کی محبت نہ سمجھی جائے گی اور اُس کی یہ مذمت نہ ہوگی۔ خواہ دنیا کی بظاہر کتنی ہی رغبت ہو اور ضرورت کے لائق اس کو حاصل بھی کیا جائے، اُس کا کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ مگر آخرت سے غفلت نہ ہو کیونکہ دنیا کی محبت وہی ہے جس سے آخرت چھوٹ جائے نہ کہ دنیا کمانا، پس دنیا کمانا جائز ہے اور دنیا کی محبت ناجائز۔ یہی وجہ ہے کہ دین میں دنیا کی محبت کو منع کیا ہے کمانے کو منع نہیں کیا ہے۔
دنیا کی محبت کے بھی کئی درجے ہیں۔ ایک درجہ تو محبت کا انتہائی ہے جس کو کفر کہتے ہیں۔ پس اس پر اللہ تعالیٰ کی خفگی بھی انتہائی ہوگی، اور سزا بھی ہمیشہ کی ہوگی۔ خدا کا شکر ہے کہ مسلمان اس سے تو پاک ہیں۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ اعتقاد تو ٹھیک ہے کہ آدمی آخرت کو مانتا ہے اور دنیا کو چند روزہ جانتا ہے، لیکن اس اعتقاد کا جو نتیجہ ہونا چاہیے تھا کہ عمل درست ہوتا، خوف خدا کا غلبہ ہوتا، دنیا سے دل اچاٹ ہوتا، یہ بات نہیں ہے۔ ایسی صورت میں خواہ ہمیشہ کے عذاب سے نجات مل بھی جائے لیکن بالکل صاف نہیں بچ سکتا اور یہ کبھی نہ سمجھنا چاہیے کہ عمل نہ کرنا صرف چھوٹا گنا ہ ہے۔ چھوٹا گناہ بھی ایسا ہی ہے جیسے چھپر کے لیے چھوٹی چنگاری تو جبکہ چھوٹی چنگاری ایسی خطرناک ہے تو عمل کو چھوڑ دینا جو گناہ بھی چھوٹا نہیں ہے کتنا خطرناک ہے۔
عمل میں کوتاہی کی ایک بڑی وجہ کاہلی اور آرام طلبی ہے۔ گویا کہ عقیدے سب کے درست ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کا علاج یہ ہے کہ موت کو یاد کرلیا کریں۔ موت وہ چیز ہے کہ اس کے یاد کرلینے سے خدا نے چاہا تو سب حالت درست ہوجائے گی، اور آسان ترکیب اس کے یاد کرنے کی یہ ہے کہ ایک وقت مقرر کرکے موت کا مراقبہ کیا کرے اور یہ سوچا کرے کہ ایک دن مروں گا، دوزخ اور جنت میرے سامنے کی جائے گی۔ اگر میں گنہگارمروں گا تو جنت کو مجھ سے چھپا لیا جائے گا، اور قیامت تک مجھ کو قبر کا عذاب ہوتا رہے گا