دواؤں کا استعمال انسانی ترقی کے ساتھ ساتھ بڑھ رہا ہے اور انسانی رویوں پر کنٹرول حاصل کررہا ہے۔ پیدائش سے موت تک ہماری زندگیاں کیمیائی مصنوعات کے تابع ہوتی جارہی ہیں۔ اگر ہماری آنتیں اپنے پروگرام کے مطابق کام نہیں کرتیں تو ہم فوراً ملین ادویات لیتے ہیں۔ صبح بیدار ہوتے وقت اگر ناک بند ہو یا نزلے کی کیفیت محسوس ہو تو ہم اس کے لیے اینٹی بائیوٹک ادویات لیتے ہیں، اور اگر ہمیں دوپہر کے وقت چلتے پھرتے کمرمیں اچانک ٹیس محسوس ہو تو ہم اس درد سے نجات کی خاطر رائی ملے گرم پانی سے نہانے کے بجائے عضلاتی سکون آور دوائیں استعمال کرتے ہیں۔ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک کے لوگ بھی دواؤں کا کثیر مقدار میں استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی چھوٹی چھوٹی بیماریوں کے علاج کے لیے لوگ فوراً دوا کا استعمال کرتے ہیں جو کہ انتہائی غلط ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق برطانیہ میں ہر روز بالغوں کی تقریباً نصف تعداد اور تقریباً ہر تیسرا بچہ دوائیں استعمال کرتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اب جوں جوں تعلیم بڑھتی جارہی ہے، لوگ ٹونوں ٹوٹکوں سے ہٹ کر ایلوپیتھک دوائیں استعمال کرنے لگے ہیں اور دوائیں ہماری غذا کی طرح لازم ہوچکی ہیں۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں لوگ دردوں کو کم کرنے، خوشی کی تلاش، بھوک کو دبانے، تھکاوٹ مٹانے اور نیند کو بڑھانے کے لیے لاکھوں کروڑوں ڈالروں کی دوائیں استعمال کرتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ دوائیں واقعی تکلیف کو کم کرتی ہیں اور ہمارے کسی مسئلے پر الجھے رہنے والے اشتیاق کو کم کرتی ہیں اور ہمیں سکون و نیند مہیا کرتی ہیں۔ لیکن ان کا عادی ہوجانا بھی کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ مرد ایتھلیٹوں کے ڈیل ڈول کو بڑھانے کے لیے اسٹیروئڈ (Steriod) نامی ادویات استعمال کرائی جاتی ہیں اور پیراک خواتین کی ماہواری کے وقفے کو مصنوعی ہارمونز بڑھا دیتے ہیں۔سکون آور دوائیں سیماب صفت بچوں کو سکون فراہم کرتی ہیں اور اسٹیروجن دوائیں عورتوں کی جوانی کو دیر تک قائم رکھتی ہیں۔ (یعنی ان میں حیض کے قدرتی طور پر بند ہوجانے کی عمر کی حد میں اضافہ کرتی ہیں۔) باوجود یکہ دنیا پتھر کے دور سے بہت آگے نکل چکی ہے، مگر اب بھی ذہنی اعتبار سے ٹونوں ٹوٹکوں پر ویسے ہی یقین کیا جاتا ہے، جیسے آج سے ہزاروں سال قبل کیا جاتا تھا۔ اب دنیا گولیوں کے استعمال سے ویسے ہی مافوق الفطرت فائدے اٹھانے کی تگ ودود میں رہتی ہے، جیسے کہ پہلے زمانوں میں ٹونوں ٹوٹکوں پر یقین کیا جاتا تھا۔
بعض دوائیں زندگی بچانے کے لیے اہم ہوتی ہیں،لیکن آج بازار میں اکثر بکنے والی دوائیں غیر ضروری اور نامناسب ہیں۔ یونیورسٹی آف کینساس کے فارما سوئیکل کیمسٹری کے ماہر پروفیسر کاکہنا ہے کہ آج کل ۹۰ فیصد غیر ضروری ادویات بنائی جارہی ہیں۔ ایسی دوائیں فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچاتی ہیں۔ فرانس کے نوبل انعام یافتہ اینڈریولوف کا اندازہ ہے کہ فرانس میں ۳۰ فیصد بیماریاں دواؤں کے غلط یا بے استعمال کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔
اب طبی موضوعات پر لکھی جانے والی تمام نصابی کتابیں جدید دواؤں سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے متعلق ہوتی ہیں۔ گزشتہ سالوں میں استعمال ہونے والی بہلاوے کی دواؤں کی نسبت آج کی دوائیں بہت با اثر ہیں۔ یہ مریض کو جلد طاقت فراہم کرتی ہیں اور جیسے وہ مریض کو فوراً آرام پہنچاتی ہیں ویسے ہی اسے بیمار بھی کرسکتی ہیں۔ برطانیہ کے سیفٹی ڈرگ کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ دنیا میں کوئی ایسی دوا نہیں ہے جسے ضمنی اثرات سے مکمل طور پر پاک قرار دیا جاسکے۔ بہت سی دوائیں حیاتیاتی افعال کو بہتر بناتی ہیں یا اس کو دباتی ہیں۔ اس صلاحیت کے بغیر دوائیں بے فائدہ ہوتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ضمنی اثرات بھی مرتب کرتی ہیں۔
دواؤں کو عموماً لوگ معمولی سے معمولی علاج کی غرض سے استعمال کرتے ہیں۔ اکثر لوگ دواؤں کے بے جا استعمال سے اپنے نظامِ ہضم کو خراب کر بیٹھتے ہیں۔ غذا کے ہاضمے کے خوف کے پیشِ نظر اپنی غذائی عادات میں تبدیلی لاتے ہیں اور مکمل شفا بخش غذا کھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی غذا میں کمی کردیتے ہیں۔ زیادہ مقدار میں ترشہ توڑ (Antacids) اشیاء کھانے سے شاید غذا تو ہضم ہوجائے لیکن ہاضمے کی خرابی کی اصلی وجہ دور نہیں ہوسکتی ہے۔ علاوہ ازیں ترشہ توڑ مادوں کے زیادہ استعمال سے معدے میں ہائیڈروکلورک ایسڈ زیادہ ہوجاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پہلے ترشہ توڑ مادوں کے ردِ اعمال سے بچنے کے لیے مزید ترشہ توڑ مادوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سطح پر ان مادوں کے عادتاً استعمال سے خون کی کیمیائی ترکیب خراب ہوسکتی ہے۔ اسی طرح جن افراد کو قبض کی شکایت رہتی ہے، ان کو ایسی غذائیں استعمال کرنی چاہئیں جن سے فضلہ زیادہ بنے مثلاً ساگ اور ہری سبزیاں وغیرہ۔ اس کے علاوہ بند گوبھی، گاجر، بینگن اور حلوہ کدو کے استعمال سے بھی قبض دور ہوتا ہے۔ قبض توڑنے کا دوسرا طریقہ ملین ادویات کا استعمال ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلا طریقہ یعنی سبزیوں سے قبض کا علاج بہتر ہے اور یہی آنتوں کی باقاعدگی کو بہتر بنانے کا ذریعہ بھی ہے، جبکہ باقی تمام کوششیں مصنوعی ہیں، جن سے ہماری آنتیں دواؤں کی عادی ہوسکتی ہیں اور ایک طرف علاج کرنے والی دوا دوسری جانب نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔
جسم اپنی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے تمام افعال سرانجام دیتا ہے، اور ہمارا جسم اپنے بہتر نظام کار کے لیے تمام قسم کے ضروری کیمیائی مادے خود ہی پیدا کرے تو بہت بہتر ہے۔ لہٰذا ہاضمے یا قبض کی صورت میں استعمال کی جانے والی دوائیں آنتوں کی طبعی کارکردگی کو متاثر کرتی ہیں۔ بہت سی معمولی بیماریوں کے لیے بتائے جانے والے اہم علاج سائنسی ادویاتی اصولوں کے مطابق نہیں ہوتے، لیکن انھیں اندازاً استعمال کرایا جاتا ہے۔ ایسے علاج انتہائی مضر صحت ہوتے ہیں، کیونکہ ایسی دواؤں کا حملہ بیماری کے خلاف نہیں ہوتا بلکہ ان علامات کے خلاف ہوتا ہے، جو اس بیماری کی وجہ سے ظاہر ہوتی ہیں۔ یہ علامات اکثر جسم کی مدافعت کی میکانیت کے خلاف بیماری کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتی ہیں۔
دورانِ حمل دواؤں کا استعمال مضر ہوتا ہے۔ تحقیقات سے اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ حمل کے دوران دواؤں کا بے جا اور بغیر مشورے کے استعمال بہت برے خدشات کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ حمل کے ابتدائی ایام میں نیند لانے والی دوا لبریم (Librium) کے استعمال سے پیدا ہونے والے بچے میں پیدائشی طور پر بیمار ہونے کے امکانات چار گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور تحقیق میں ایسے ہی خدشے کا ذکر ہے۔ تحقیق کنندگان کے مطابق روز مرہ استعمال میں آنے والی دوا اسپرین سے بھی بچے میں کوئی پیدائشی بیماری پیدا ہوسکتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ حمل کے شروع کے ۲۸ دنوں کے اندر اندر ایسی کوئی بھی دوا کھانے سے بچے میں پیدائشی نقص مثلاً دل کا عارضہ اور جسمانی اعضاء کے بد وضع ہونے جیسی خرابیاں ہوسکتی ہیں۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تمام دوائیں خطرناک ہوتی ہیں۔ جب تک ان کے بارے میں مکمل تحقیق نہ کرلی جائے۔ دواؤں کے ساتھ زیادہ لگاؤ ان سے فائدے سے زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔ امریکہ میں روزانہ ۲۵ ٹن ایسپرین استعمال ہوتی ہے، جو ہر مرد، عورت اور بچے کے حصے میں سوا دو ٹکیوں کے برابر آتی ہے۔ بہت سے افراد درد سے نجات کے لیے ایسپرین استعمال کرتے ہیں، مثلاً اگر انھیں دانت میں درد ہوتا ہے تو بجائے وہ اس کے علاج کے لیے کسی دندان ساز سے رابطہ کریں، وہ ایسپرین کی گولی استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کرسی میں نشست کے انداز میں تبدیلی سے ہونے والے درد اور غیر ضروری ذہنی تناؤ میں کام کرنے سے جنم لینے والے ورم لیفی کے لیے بھی درد کو روکنے والی دوائیں استعمال کی جاتی ہیں۔ حالانکہ ان تمام بیان کردہ صورتوں میں ڈاکٹروں سے رجوع کرنا ضروری ہوتا ہے۔ درد کسی بیماری کی علامات کو ظاہر کرتا ہے۔ ان پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ سکون آور ادویات ان کا علاج نہیں ہوتیں۔ ان سے وقتی طور پر سکون تو مل جاتا ہے لیکن یہ بیماری کے اسباب کو رفع نہیں کرسکتی ہیں۔ بعض دفعہ مرضیاتی صورت حال اس قدر خراب ہوتی ہے کہ فوراً توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اور بعض دفعہ معمولی سی تکلیف کو تھوڑی سی توجہ سے دور کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ ٹی وی، ریڈیو اور اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات ان دواؤں کو ایسے پیش کرتے ہیں، جیسے یہ گولیاں ٹافیوں کی طرح بے ضرر ہیں اور ان کے کوئی ضمنی اثرات نہیں۔ مثال کے طور پر کوڈین یعنی جوہر پوست قبض کا باعث ہے۔ فیناسیٹین گردوں کے لیے نقصان دہ ہے، پیراسیٹامول کا زیادہ استعمال جگر کی خرابی کا باعث ہوسکتا ہے اور روز مرہ کے استعمال میں رہنے والی دوا ایسپرین کی معمولی خوراک سے معدے اور آنتوں سے خون جاری ہوسکتا ہے۔ جو لوگ تین سے چار گولیاں ایسپرین روزانہ لیتے ہیں ان کے معدے سے خون آنا شروع ہوجاتا ہے۔ برطانیہ کے ایک ڈاکٹر کے مطابق برطانیہ کے ایک ملین ایسپرین کے عادی افراد کے معدے سے اس قدر خون جاری ہوتا ہے کہ ہر تین دنوں کے بعد گھریلو سوئمنگ پول بھرسکتا ہے۔
تھکن، پریشانی، چڑچڑاپن، یا بہت زیادہ افسردگی کو دور کرنے والی ادویات کا بے جا استعمال نقصان دہ ہوتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان ادویات کی مقدار میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ نتیجتاً ہم ان دواؤں کے عادی ہوجاتے ہیں اور ان کے استعمال کے بغیر ہمارا موڈ ہی ٹھیک نہیں ہوتا۔ پریشانی، درد اور تناؤ ہمارے لیے تنبیہی علامات ہوتی ہیں اور انھیں دواؤں سے نہیں دبانا چاہیے۔ بلکہ ان صورتوں میں اپنے لیے موافق حالات کے حصول کے لیے روٹین میں تبدیلی یا درد کی صورت میں معالج سے رابطہ کرنا چاہیے۔ انسانی زندگی نشیب و فراز سے پر ہے۔ کبھی خوشی، کبھی غم اور کبھی تنہائی ہمیں گھیرے رکھتی ہے۔ ویسے بھی ان تبدیلیوں کے بغیر انسان محض ایک مشین کا پرزہ بن کر رہ جاتا ہے اور اگر ہم اپنے موڈ کو بھی دواؤں ہی سے کنٹرول رکھیں گے تو ہماری زندگیاں میکانیت کا شکار ہوجائیں گی، جو انسان اور مشین میں فرق ختم کرنے والی بات ہے۔
دوائیں فائدہ مند بھی ہیں اور نقصان دہ بھی مگر ان کا استعمال ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر بالکل نہیں کرنا چاہیے۔
——