دودھیا یعنی دودھ بیچنے والا، جی ہاں! بھارت کی راجدھانی دہلی سے متصل گریٹر نوئیڈا کے گاؤں امالی یکا کا رہنے والا لوکیش ناگر دودھ بیچتے بیچتے جج بن بیٹھا۔ اپنے ہوں کہ غیر بہت سے لوگوں نے اس کے حوصلے توڑنے کی کوشش کی۔ مگر اس کی ہمت، بلند حوصلہ اور کوشش…کوشش… کوشش… دھن اور لگن نے اس کو اترپردیش کا جج بنادیا۔ اس کا باپ بھی دودھ بیچتا تھا۔ اس کا بھائی بھی۔ وہ خود بھی باپ کے کاروبار میں ہاتھ بٹاتا تھا۔
لوکیش ناگر کے پڑوسی، ملنے والے اور رشتے دار بار بار کہتے تھے : ارے پڑھنا وڑھنا چھوڑو۔ پوری یکسوئی کے ساتھ پورا ٹائم ڈیری کے کاروبار میں لگاؤ۔ خود ان کے باپو دھرم پال سنگھ ناگر بھی تو یہی چاہتے تھے کہ لوکیش ان کے خاندانی کاروبار پر پورا دھیان دیں۔ دھرم پال ناگر کا کھوڈا گاؤں میں ایک ڈیری فارم ہے۔ ان کے خاندان میں اس وقت کل آٹھ افراد ہیں۔ دھرم پال نے آٹھویں کلاس تک تعلیم حاصل کی تھی۔ لوکیش کی ماں تو کبھی اسکول گئی ہی نہیں۔ ان کے ایک بھائی نے پڑھنا چھوڑ کر خاندان کے کاروبار میں ہاتھ بٹانا شروع کردیا، خود لوکیش کے تین بچے ہیں، بڑا بیٹا پانچ سال کا ہے اور دو جڑواں بچے دو دو سال کے۔
لوکیش ناگر نے اسکولی تعلیم دہلی کے پریت وہار میں یونیورسل پبلک اسکول سے حاصل کی جو کوئی زیادہ مشہور اسکول نہیں ہے، لیکن لوکیش ناگر نے اس اسکول کے ذمہ داروں اور اپنے استادوں کا نام بھی روشن کردیا اب و ہ سینہ پھلا پھلا کر کہتے ہیں: ہمارے اسکول کا پڑھا ہوا ہمارا چیلا جج کی کرسی پر بیٹھ کر لوگوں کی زندگیوں اور قسمتوں کے فیصلے کررہا ہے۔ لوکیش ناگر بھی کہتے ہیں کہ میری تعلیم کی جڑیں تو اسی اسکول سے وابستہ ہیں۔ میں نے آگے کی جو کچھ تعلیم حاصل کی اور اس مقام تک پہنچا اس کی بنیادیں تو اسی اسکول میں رکھی گئیں۔ ویسے وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر خود آپ کے اندر لگن نہیں ہے تو کوئی آپ کی مدد نہیں کرسکتا، کسی بھی اسکول میں داخل ہوجائیں اگر کچھ بننا اور کچھ کرنا نہیں چاہتے تو کوئی آپ کے کام نہیں آسکتا۔
انھوں نے غازی آباد کے شمبھو دیال کالج سے کامرس میں ڈگری حاصل کی اور ایم ایم ایچ کالج سے ایل ایل بی کیا۔ پھر ۲۰۰۵ء میں میرٹھ کالج سے ایل ایل ایم کمپلیٹ کیا۔ اس کے بعد دہلی کے پٹیالہ ہاؤس کورٹ میں وکیل کی حیثیت سے پریکٹس شروع کی، اس کے ساتھ بھی وہ دودھ سپلائی کا کام کرتے رہے یہاں تک کہ ۳۱؍جنوری کو اترپردیش حکومت سے لیٹر موصول ہوگیا کہ آپ کو جج منتخب کرلیا گیا ہے۔
لوکیش ناگر کا دن ۳؍بجے نکل آتا تھا۔ ۷؍بجے تک دودھ کے کین اپنی سائیکل پر لاد کر حلوائیوں اور مٹھائی کی دکانوں پر دودھ سپلائی کرتے پھرتے تھے۔ اس طرح اپنے باپ کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ اسی طرح شام کو تین اور سات بجے کے درمیان بھی وہ بھینسوں کا دودھ نکال کر اس کو سپلائی کرتے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ جب میں نے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا، میرے ماں باپ نے اعتراض کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ کورس کرنے سے کیا حاصل ہوگا؟ آخر تم یہ کورس کرنے کے بعد کیاکروگے؟ میں نے انہیں سمجھایا۔ اس کورس کو کرنے کے بعد میں جج بن سکتا ہوں، میرے کہنے سننے اور سمجھانے بجھانے سے انھوںنے مجھے پڑھنے کی اجازت دے دی۔
لیکن ابھی تو ابتدا ہی تھی۔ ۲۰۰۳ء میں وہ اترپردیش جوڈیشیل سروسیز ایکزامنیشن میں شریک ہوئے مگر یہ کیا وہ تو ابتدائی سطح پر ہی فیل ہوگئے۔ مگر انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ اگلے سال وہ دہلی کے امتحان میں شریک ہوئے مگر اب بھی فیل ہوگئے۔ پھر بھی انھوں نے ہمت نہیں ہاری۔ تھک ہار کر نہیں بیٹھے وہ صبح سویرے اٹھ کر دودھ سپلائی کرنے نکل جاتے۔ ۸؍بجے تک فارغ ہوتے تو پٹیالہ ہاؤس کورٹ پہنچتے۔ دو بجے تک وہاں کام کرنے کے بعد گھر لوٹتے اور پھر دودھ سپلائی کرنے نکل کھڑے ہوتے۔ ۷؍بجے تک یہ کاروبار کرتے اس سے فارغ ہوتے تو پڑھنے بیٹھ جاتے اور کئی گھنٹے پڑھنے میں صرف کرتے۔ تقریباً چار سال تک ان کا یہ معمول رہا۔ اس دوران انھوں نے دہلی اور راجستھان میں کئی بار جوڈیشیل سروسز امتحان دیے۔
۲۰۰۶ء میں وہ ایک بار پھر زبردست تیاریوں اور پورے عزم و حوصلے کے ساتھ یوپی کے امتحان میں شریک ہوئے۔ اس بار نتیجہ برآمد ہونے میں دو سال لگ گئے۔ بالآخر ۲۰؍دسمبر ۲۰۰۸ء کو ان کے ایک ساتھی نے کہا کہ کامیاب امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا گیا ہے۔ وہ پاس کے ایک سائبر کیفے پہنچے اور آن لائن کو چیک کیا۔ ان کا بچپن کا خواب پورا ہوگیا تھا۔ وہ کہتے ہیں۔ ’’میں نے بھر پور محنت کی، آخر میری محنت اور دھن و لگن میرے کام آئی۔ راستے میں آنے والی تمام رکاوٹیں دور ہوگئیں۔ میری محنت رنگ لائی۔‘‘
جیسے ہی لسٹ میں انہیں اپنا نام نظر آیا خوشی سے آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔ وہ گھر پہنچے تو آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے۔ ان کے پتا جی نے پوچھا ارے کیوں رو رہا ہے؟ انھوں نے بتایا ان کا خواب پورا ہوگیا۔ وہ جج منتخب کرلیے گئے۔ وہ کہتے ہیں مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میں اپنے آپ پر قابو نہیں کرپا رہا تھا۔ میں رات بھر سو بھی نہیں سکا۔ میں نے اپنی زندگی کا ایک ہدف مقرر کیا تھا اور بالآخر میں نے وہ ہدف حاصل کرلیا۔ میں ہر ایک سے کہتا تھا میں اپنے میدان کی چوٹی پر پہنچنا چاہتا ہوں۔ میں نے ناکامیوں سے کبھی ہمت نہیں ہاری۔ آخر کار میں کامیاب ہوگیا۔
یقین ہے لوکیش ناگر کی زندگی بہت سے نوجوانوں کے لیے نمونہ بنے گی۔ انھیں اس سے نیا حوصلہ ملے گا۔ لوکیش ناگر کی طرح ان کے دلوں میںبھی بلند چوٹیوں پر پہنچنے کی امنگ پیدا ہوگی اور وہ بھی راستہ کی دشواریوں ، رکاوٹوں کو پھلانگتے، ہٹاتے، دور کرتے، الجھنوں سے دامن بچاتے ترقی کی راہ میں سرپٹ دوڑتے چلے جائیں گے، رکنے کا نام نہیں لیں گے۔ تھکنے کا نام نہیں لیں گے۔ آگے بڑھیں گے اور بڑھتے چلے جائیں گے۔ دوسروں کے لیے روشنی کا مینارہ بن جائیں گے۔ قابلِ تقلید نمونہ بن جائیں گے۔
——