دورانِ حمل بلڈ پریشر

ڈاکٹر صفیہ قریشی

بلڈ پریشر کے زیادہ ہونے یا ہائپرٹینشن سے تو آج کل آپ سبھی واقف ہیں۔ اس کے اثرات دل اور گردوں کی کارکردگی پر بھی پڑتے ہیں اور ان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ اگر ہائپر ٹینشن اور حمل ساتھ ساتھ ہوں تو نتائج اور بھی خطرناک ہوسکتے ہیں۔ یہ دو طرح سے ہوسکتا ہے ایک تو یہ کہ ہائپر ٹینشن کی مریضہ حاملہ ہوجائے یا پھر ایسی عورت جس کابلڈپریشر پہلے ہمیشہ نارمل رہا ہے اس کو حمل کے دوران ہائپر ٹینشن ہوجائے۔ دوسری صورت میں بلڈ پریشر کے بڑھنے کو ہائپر ٹینشن بوجہ حمل یا پی آئی ایچ (Pregnancy Induced Hypertension) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

2%حاملہ عورتوں میں بلڈ پریشر پہلے ہی سے زیادہ ہوتا ہے یا یہ کہ وہ ہائپر ٹینشن کی مریضہ ہوتی ہیں۔ اگر حمل کے شروع میں بلڈ پریشر 130/90ہو تو محتاط رہنا چاہیے۔ کیونکہ ایسی مریضہ کا بلڈ پریشر مزید بڑھنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اگر مریضہ پہلے سے بلڈ پریشر کے لیے کوئی دوا لے رہی ہے تو یہ دیکھنا ضروری ہے کہ وہ دوا بچے کے لیے نقصان دہ نہ ہو۔ پہلے چیک اپ کے وقت ہی سے ایسے مریضوں کا پیشاب، خون، الٹراساؤنڈ اور اگر ضرورت ہو تو ای سی جی بھی کروالینا چاہیے تاکہ گردوں اور دل کی کارکردگی کا اندازہ ہوسکے۔ ایسے مریضوں کا شروع میں ۱۵ روزہ اور آخر کے تین ماہ میں ہر ہفتے چیک اپ ہونا بہت ضروری ہے تاکہ ماں اور بچے کی صحت کا صحیح طور پر اندازہ ہوسکے اور آنے والے ممکنہ خطرات کے لیے تیار رہا جائے۔

ایسی عورتیں جن کا بلڈ پریشر پہلے ہمیشہ نارمل رہا ہے، ان کا بھی حمل کے دوران بلڈپریشر بڑھ سکتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ۱۰ فیصد حاملہ عورتوں میں پی آئی ایچ ہوجاتا ہے۔ یہ ماں اور بچے دونوں ہی کے لیے خطرناک ہوتا ہے۔ حمل اور ڈلیوری کے دوران ہونے والی اموات میں سے ۳۰ فیصد پی آئی ایچ کی وجہ سے ہی ہوتی ہیں۔

یہ شکایت عموماً حمل کے بیس ہفتے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ بلڈپریشر کا بڑھنا، سر درد اور چکر آنا، پیروں پر ورم آنا ایک ہفتے میں ایک کلو گرام سے زیادہ وزن بڑھنا، پی آئی ایچ کی علامات ہیں۔ اس دوران مریضہ کے پیشاب میں چربی آنے لگتی ہے۔ بلڈ پریشر بڑھنے سے بچے کی نشوونما پر اثر پڑتا ہے اور اکثر ایسی مریضوں کے بچے کم وزن کے پیدا ہوتے ہیں۔ بچے کی نالی کو خون کی سپلائی کم ہونے کی وجہ سے نالی متاثرہونے لگتی ہے ایسے میں اکثر وقت سے پہلے نالی الگ ہونے سے خون جاری ہوجاتا ہے۔ یعنی بلیڈنگ بھی ہوسکتی ہے۔ پی آئی ایچ کی پانچ فیصد مریضوں میں بچہ ماں کے پیٹ میں ہی ختم ہوجاتا ہے۔ بہت بار بچہ وقت سے پہلے پیدا ہوجاتا ہے۔ اور قبل از وقت ہونے کی وجہ سے اس کا بچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ بلڈ پریشر بڑھنے کا اثر مریضہ کی آنکھوں پر بھی پڑتا ہے۔ آنکھوں کے آگے چمک یا دھند لاہٹ اور کبھی کبھی وقتی طور پر بینائی ختم بھی ہوسکتی ہے۔ اگر بلڈ پریشر وقت پر کنٹرول نہیں کیا جاتا تو مریضہ کو دورے بھی پڑسکتے ہیں۔ یہ مرض کی بہت ہی خطرناک اسٹیج ہوتی ہے۔ اس میں بلڈ پریشر کے اثرات جسم کے سارے دوسرے نظاموں تک پہنچ جاتے ہیں۔ گردے اور جگر کام کرنا بند کرنے لگتے ہیں۔ دل اور دماغ کے اوپر زیادہ دباؤ سے یہ دونوں اعضا بھی بیکار ہونے لگتے ہیں۔ خون میں پلیٹی لیٹس ذرات کم ہونے کی وجہ سے بلیڈنگ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اگر بروقت طبی امداد نہ ملے تو ایسے مریض کا بچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

خطرے کی علامات

(۱) سر میں درد ہونایا چکر آنا

(۲) پیروں پر ورم آنا

(۳) بلڈ پریشر زیادہ ہونا

(۴) وزن تیزی سے بڑھنا

(۵) دھندلا دکھائی دینا

(۶) پیشاب کی مقدار کم ہونا

(۷) بچے کی حرکت کم ہونا یا بند ہوجانا۔

احتیاطی تدابیر

(۱) بلڈ پریشر چیک کرواتے رہنا۔

(۲) وزن کے بڑھنے پر نظر رکھنا۔

(۳) چربی کی مقدار جاننے کے لیے پیشاب ٹیسٹ کروانا۔

(۴) بچے کی حرکت کم ہونے پر فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا۔

(۵) پیٹ میں درد یا بلیڈنگ ہونے پر فوراً چیک اپ کروانا۔

(۶) اگر بلڈ پریشر زیادہ ہو یا پیروں پر ورم ہو تو نمک کم کھانا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں