دورِ رسالت میں میری حاضری

امۃ الحسیب حنا، ناندیڑ

اللہ اکبر، اللہ اکبر!

سبحان اللہ! اتنی خوش لحن اذان میں نے زندگی میں پہلی بار سنی، کیا اذانیں ایسی بھی دی جاتی ہیں، اس اذان کا تو ہر بول میرے دل میں اترنے لگا ہے۔ میں بے اختیار اذان کی سمت بڑھنے لگی ہوں۔ دل چاہ رہا ہے کہ حی علی الصلوٰۃ کی آواز پر ہی سجدہ میں گرجاؤں ۔ اس خوش لحن موذن کے ادا کیے گئے ایک ایک لفظ کے ساتھ میرا دل بے اختیار خدا کی بزرگی اور برتری بیان کرنے لگا ہے۔ اذان میں ایسا سرور شاید میں نے پہلی بار محسوس کیا۔ کیونکہ ہمارے درمیان جو اذانیں دی جاتی ہیں وہ تو نہایت ناگوار آواز اور بھونڈے لہجے میں ادا کیے جانے والے چند رسمی الفاظ بن کر رہ گئے ہیں۔

لیکن یہ اذان — ان اذانوں سے یکسر مختلف۔ ایسا لگ رہا ہے کہ موذن خدا کے بندوں کو خدا کی جانب بلانے کے لیے بے چین ہے۔ آواز میں ایسی دلسوزی، ایسی تڑپ و خلوص کہ لوگ والہانہ انداز میں مسجد کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ میں نے ان نمازیوں کا بھی جائزہ لیا۔ نہایت سادہ لیکن انتہائی پاکیزہ کپڑوں میں ملبوس پر نور اور پراعتماد چہروں والے مومن بندے جو اپنے کاروبار اور اپنی مصروفیات چھوڑ کر مسجد کی جانب لپک پڑنے کی جستجو کررہے ہیں۔ اسی دوران کسی نے کہا چلو بلال نے اذان مکمل کرلی۔ آؤ فوراً نماز کی تیاری کریں ورنہ ہم اولین صفوں سے محروم رہ جائیں گے۔

یا اللہ! یہ میں کیا سن رہی ہوں؟ کیا یہ سچ ہے؟ کیا اس شخص کا یہ جملہ حقیقت سے پُر تھا۔ کیا وہ خوش لحن موذن حضرت بلالؓ تھے؟ کیا میں نے موذن نبی کی اذان سنی؟ کیا میں دورِ نبوی کا نظارہ کررہی ہوں؟

وہ کوئی صحابیٔ رسول ہی ہوں گے اور یقینا وہ موذن حضرت بلالؓ ہی ہوں گے۔ اور یہاں کا منظر بھی تو دورِ رسالت کی تصویر پیش کررہا ہے۔ اولین صفوں میں نماز پڑھنے کا یہ شوق و جذبہ یقینا صحابہ کرام کے اوصاف کی عکاسی کرتا ہے۔ اچھا! اسی لیے میں اس قدر خوش ہوں کہ میں اپنے محبوب نبیؐ کے زمانے کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کررہی ہوں۔ اسی لیے یہ گلیاں مجھے جانی پہچانی، مانوس اور پرُ کشش لگ رہی ہیں۔ یا اللہ!

میرا دل خوشی و شکر کے جذبات سے بے ساختہ دھڑکنے لگا ہے۔ میرے رگ و پے سے مسرت پھوٹنے لگی ہے۔ یا اللہ! تیرا کرم میں دورِ رسالت کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں جس کو سن کر اور پڑھ کر میں ناقابلِ دید تصور میں کھوجاتی تھی۔

یہ شاید مسجدِ نبوی ہے۔ ہاں! کیونکہ اس کا طرزِ تعمیر وہی تو ہے جو میں کتابوں میں پڑھ چکی تھی۔ کھجور کے تنوں اور پتوں سے بنائی گئی اس مسجد میں ذرا جھانک کر دیکھوں کہ کیا نماز چل رہی ہے۔ یا اللہ! یہ قرأت تو اس اذان سے بھی اچھی ہے۔ اے میرے خدا! میں کیسے اس آواز اور اس کے بول کی مٹھاس کو واضح کروں، میں کیسے اپنے احساسات کی ترجمانی کروں۔ یا خدا میری خوش بختی کہ میں اس نمازیٔ اعظم اور امام الانبیاء کی آواز سن رہی ہوں، جس کے ذریعہ ہمیں قرآن جیسا سرچشمۂ ہدایت میسر آیا۔ یہ خوبصورت اندازِ تلاوت یہ شیرینی، مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے قرآن کو میں نے زندگی میں پہلی بار سنا ہے۔ میں بھی تو قرآن پڑھتی ہوں لیکن ایسی مٹھاس کبھی محسوس نہیں ہوئی۔ ہاں کیسے محسوس ہوتی مجھ میں وہ سوز و گداز ، وہ ہدایت کی طلب، وہ تزکیہ کا احساس کہاں جو اس آواز میں ہے۔ میری تلاوت تو ایک روایت، ایک نمائشی طرزِ مسلمانی ہے۔ بس شرمندگی کا ایک احساس میرے دل پر چھا گیا۔ اور یہ مصلین، کیا خشوع و خضوع، کیا احساسِ عبودیت مانو خدا سے گفتگو ہورہی ہے۔ یا اللہ کیا نماز کا ایسا دیدہ زیب منظر پہلے کبھی دیکھا؟ شاید نہیں!

لوگ مسجد سے نکل رہے ہیں۔ شاید نماز ختم ہوگئی۔ نمازیوں کے چہروں سے کیسا سرور اور کیسی طمانیت جھلک رہی ہے۔ شاید خدا سے ملاقات کرنے اور ایک فریضہ کی خوش اسلوبی سے تکمیل کرنے کا اطمینان ہے۔ لیکن نماز تو میں بھی پڑھتی ہوں ایسا سرور اور ایسا اطمینان تو شاید میں نے اپنے دل میں کبھی بھی محسوس نہیں کیا جو ان مبارک چہروں سے جھلک رہا ہے۔

اس احساس کے ساتھ میں اورندامت میں مبتلا ہوگئی، احساسِ شرمندگی کا ایک اور پردہ میرے دل پر چھا گیا۔

ارے یہ تو کوئی چبوترا لگ رہا ہے اور وہ لوگ وہاں کیوں جمع ہورہے ہیں۔ اچھا یہ صفہ ہے! اسلام کی پہلی یونیورسٹی۔ اور یہ طلباء صفہ ہیں یہ میرے لیے کیا تعجب یہ تو بہت چھوٹا تعلیمی ادارہ ہے۔ میں نے تمام سہولیات سے آراستہ بڑے بڑے کالجز اور یونیورسٹیاں دیکھی ہیں یہ تو اس کے سامنے بہت چھوٹا سا ادارہ ہے۔ خیر دیکھتے ہیں قریب جاکر۔ ارے، یہ صاحب کیا کررہے ہیں۔ پیٹ پر پتھر باندھ رہے ہیں۔ ارے! شاید بہت بھوکے ہیں، میں نے سنا تھا جب صحابۂ اکرام بہت بھوکے ہوتے تو پیٹ پر پتھر باندھ کر پیٹ کو کچھ وزنی کردیا کرتے اور بھوک کو بہلانے کی کوشش کرتے۔ ارے یہ تو پھر سے صفہ پر بیٹھ گئے اور یہاں تو تقریباً سبھی کی حالت ویسی ہی نظر آرہی ہے۔ شاید سبھی بھوکے ہیں، لیکن آفریں ہے ان کے شوق ِ حصولِ علم پر، تزکیہ و تربیت کے اس احساس پر کہ شدید بھوک اور غربت کے عالم میں بھی انھوں نے علم حاصل کرنا نہیں چھوڑا۔ ابھی جو پیٹ پر پتھر باندھ رہے تھے وہ بھی پوری یکسوئی سے اپنے مربی اعظمﷺ کی باتیں سن رہے ہیں۔ شاید ان بیش بہا علم کے موتیوں نے ان کی بھوک کو بھلا دیا ہے اور کیا یکسوئی ہے۔

استاد و شاگر میں ایسی محبت؟ کیا ایسے بھی تعلیمی ادارے ہوتے ہیں، ہمارے کالج میں تو کلاس روم طلبہ سے بھرے ہوتے ہیں،جہاں بڑی تعداد بھرے پیٹ صرف گپ شپ اور موج مستی کے لیے آتی ہے۔ ہمارے یہاں تو حصولِ علم صرف ایک گھسا پٹا رواج، معاش کا ذریعہ یا ایک دوسرے پر فخر جتانے کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اور استاد و شاگرد کا رشتہ تو کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتا۔ یا تو استاد کا اجنبی سا لاتعلق رویہ یا پھر تجارتی تعلق اور کہیں طلباء کی بے راہ روی استاد کے کردار کا مظہر ہے۔ اس خیال کے ساتھ ہی کئی ایک واقعات مجھے یاد آنے لگے اور جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی۔ کاش وہ ٹیچرس اس عالی مرتبہ استاد کی ایک جھلک ہی دیکھ لیتے یا اس کے اس عظیم کردار پر ایک گہری نظر ہی ڈال لیتے جو کہ خدائی اوصاف کا پرتو ہے اور اپنے اعلیٰ کردار سے اپنے شاگردوں کی شخصیتیں سنوارپاتے۔

میرے دل میںایک ناممکن امید پیدا ہوئی کہ میں اپنے کالج سے نکل کر اس نبوی یونیورسٹی میں داخلہ لوں۔ لیکن یہ ممکن نہیں۔ میں اس جانفزا تابناک دور کا مشاہدہ تو کرسکتی ہوں لیکن شاید اس کا حصہ نہیں بن سکتی، اس خیال کے ساتھ ہی میرا دل مایوس ہوگیا۔

غریبو ںکے ملجا، نبض شناس نبیؐ نے شاید اپنے ساتھیوں کی تکلیف محسوس کرلی ہے تبھی تو کہیں کہلوا بھیجا کہ ان کے علم سے سیراب ہونے کا انتظام تو ہوچکا پیٹ کی بھوک مٹانے کا بھی انتظام کیا جائے۔ چلئے کسی صحابیٔ رسول کے گھر دعوت کا انتظام کیا گیا، اس دعوت کا بھی نظارہ کرلوں۔

یہ دعوت حسبِ توسع ہماری دعوتوں سے یکسر مختلف ہے۔ نمود و نمائش کے بجائے محبت و تکمیل ضرورت کے جذبہ سے منعقد کی گئی ہے۔ ہماری دعوتوں کی طرح تصنع وبناوٹ کا شائبہ تک نہیں۔ کھلانے والا اپنے دوستوں کو پرخلوص اصرار کے ساتھ کھلا کر خوشی سے سرشار ہے۔ کھانے والے بے تکلفی سے کھا رہے ہیں اور ساتھ ہی خدا اور خدا کے اس بندے کا شکر ادا کررہے ہیں۔ کھانا سادہ ساتھا لیکن ایسا لگ رہا ہے جیسے دنیا کی لذیذ ترین غذا فراہم کی گئی ہو۔ شاید اس میں آپسی خلوص کی خوشبو اور بے لوث محبت کی لذت محسوس کررہے ہیں۔ یا اللہ! کیا خالص محبت ہے جیسے ان لوگوں کے دل سے دل جڑے ہوں۔ دوستی تو میں نے بھی کی ہے، سہیلیاں میری بھی ہیں لیکن کیا ہمارے دل بھی ایسے ہی جڑے ہیں۔ شاید نہیں! کہیں تو جھول ہے۔

ندامت کا ایک اور احساس میرے دل میں پیدا ہوگیا۔ شرمندگی کے اس احساس کو لیے میں آگے بڑھنے لگی۔ ارے یہ کون؟ یہ کس کو آواز دے رہا ہے؟ اچھا یہ ابوالدحداح ہیں۔ اپنی بیوی کو آواز دے رہے ہیں کہ ایک یتیم کے لیے اپنا یہ باغ جس میں ان کا گھر بھی ہے خالی کردیں۔ اور یہ نیک صفت عورت سارا سامان سمیٹ کر نکل رہی ہے۔ نہ کچھ واویلا مچایا، نہ مستقبل کے اندیشے دکھلائے، نہ ہی کوئی سوال بلکہ اس عظیم تر ایثار میں شوہر کی پوری معاونت کی۔

کیا ایسی بھی قربانیاں دی جاتی ہیں کیا ایسا بھی ایثار ہوسکتا ہے کہ یتیم بچہ کے لیے اپنے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگایا جائے؟ کیا اپنے زندگی بھر کے سرمایہ کو چھوڑنا اتنا آسان ہے؟ شاید ہاں— کیوںکہ اس مبارک خاندان کے چہرے سے جو یقین جھلک رہا تھا وہ ہر اس کام کو ممکن بنادیتا ہے جو انھیں خدا سے اور جنت سے قریب کردے۔ ان کے سامنے یہ فانی مستقبل نہیں بلکہ لافانی مستقبل کی کامیابی کی ضمانت تھی۔ یتیموں کے ملجا، نبی اکرم ﷺ نے اس باغ کے بدلے جنت کے باغ کی ضمانت دی ہے۔ جنت کا باغ خدا اور اس کے رسول کی خوشنودی۔ اس کے مقابلے انھیں اپنا باغ حقیر سا لگا۔

لیکن مجھ سے جب یہ مطالبہ ہوا کہ خدا کی راہ میں خرچ کروں تو میرے دل میں انفاق کا وہ جذبہ نہیں پیدا ہوا جو ابوالدحداح اور ان کے خاندان کے افراد کے دل میں پیدا ہوا تھا۔ مجھ میں جنت کی وہ طلب نہیں جو اس مبارک خاندان میں نظر آئی۔

کیوں—؟ شاید اس لیے کہ جنت کے ملنے پر میرا یقین ڈھل مل ہے۔ آخرت پر ایمان تو ہے لیکن دنیاوی خواہشات نے اس کو دھندلا کردیاہے۔ خدا اور اس کے رسول سے محبت کا دعویٰ تو کرتی ہوں لیکن اس دعویٰ میں بہت سچی نہیںہوں۔ یا اللہ! میں کیسی مومن ہوں؟ آخر میں بھی تواس نبیﷺ کی پیرو ہوں جس کے پیرویہ خوش نصیب ہیں۔ ندامت — شرمندگی — مایوسی۔

یا اللہ میں احساس شرمندگی میں گڑی جارہی ہوں۔ میرا رواں رواں میرے کمزور ایمان اور ڈھل مل یقین کا احساس دلارہا ہے۔ میں پسینے میں نہائی جارہی ہوں۔

اف خدا! میں خواب دیکھ رہی تھی ا ور یہ احساس ندامت وشرمندگی کا پسینہ تھا۔

یا رب العالمین! اس ندامت اور مایوسی کے ساتھ ہی تو نے مجھے اپنے پاس نہیں بلالیا۔ اس نیند کو میری آخری نیند نہیں بنا، بلکہ مجھے مزید مہلت عمل بخشی۔

انشاء اللہ میں اس خوشگوار و سبق آموز خواب کی روشنی میں اپنی اس ندامت کو پُرعزم نیک ارادہ میں بدلوں گی۔

انشاء اللہ — ثم انشاء اللہ

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146