ععصر حاضر میں جہاں نفسا نفسی کی وجہ سے ہر جگہ ’میں، میں‘ کی آواز گونج رہی ہے۔ بہترین عورت وہ ہے جو دوسرے مسلمان بہن بھائیوں کے مفادات اور ضروریات پوری کرنے کی بھرپور کوشش کرتی ہے۔ لوگوں کی حاجات و ضروریات پوری کرنے سے لامحالہ عطا و بخشش کی راہ کھلتی ہے اور اہل اسلام کے مابین تعاون اور باہمی ذمہ داریوں کا احساس و ارادہ مستحکم ہوتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
’’جس نے کسی مومن کی دنیاوی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور کی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کی تکالیف میں سے اس کی تکلیف اور مصیبت دور کردے گا… اور اللہ اس وقت تک بندے کی مدد کرتا رہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔‘‘
امام حسن بصری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
’’مجھے حاجت مند مسلمان کی کوئی ضرورت پوری کرنا ایک ہزار رکعت نماز پڑھنے سے زیادہ محبوب ہے اور کسی بھائی کی حاجت روائی مجھے دو ماہ کے اعتکاف سے زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘
جناب مرداس بن حدیرؓ فرماتے ہیں:
’’اے کاش میری دو جانیں ہوتیں، ایک جان اللہ کی راہ میں جہاد کرتی اور دوسری مسلمانوں کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتی۔‘‘
حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں:
’’کسی مسلمان گھرانے کی ایک ماہ، ایک ہفتہ یا جتنی دیر اللہ چاہے، کفالت کرنا اور ان کی ضروریات پوری کرنا، مجھے پے درپے حج کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔ اپنے دینی بھائی کو ایک درہم بھری پلیٹ کا تحفہ پیش کرنا مجھے اللہ کی راہ میں دینار خرچ کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘
ہمارے سلف صالحین نے ضرورت مندوں کی امداد کی اہمیت و فضیلت کو خوب سمجھا اور اس کا بے حد اہتمام کیا ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل شاندار مثالوں کا مطالعہ کرکے انہیں حرز جاں بنالو۔
جناب محمد بن اسحاق رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں کچھ لوگ رہتے تھے لیکن انہیں یہ پتہ نہیں تھا کہ انہیں ضروریات زندگی کہاں سے مل رہی ہیں اور کون فراہم کر رہا ہے؟ جب حضرت زین العابدین بن حسینؒ فوت ہوگئے تو انہیں وہ سامان زندگی ملنا بند ہوگیا، تب انہیں معلوم ہوا کہ حضرت زین العابدین ہی انہیں رات کے وقت ان کی ضروریات پہنچایا کرتے تھے۔ جب انہوں نے ان کی وفات کے بعد انہیں غسل دیا تو ان کی کمر اور کندھوں پر، بیواؤں اور یتیموں کے گھر ساز و سامان کے تھیلے اٹھا کر لے جانے کے نشانات پڑے ہوئے تھے۔
غور کیجئے، یہ نبوت کے گھرانے کا چشم و چراغ کن لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کی مشقت کرتا تھا؟ مساکین، بیواؤں اور فقراء کے لیے وہ کتنی زحمت اٹھاتا تھا۔ ان کی ساری طلب اور تڑپ یہ تھی کہ بیواؤں، یتیموں اور مسکینوں کے دل خوشی سے بھرجائیں اور وہ یہ کٹھن کام صرف اللہ کی رضا کے حصول کے لیے کرتے تھے، کیوں کہ غریبوں اور محتاجوں کو ان کی وفات تک یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کی ضروریات کون پوری کررہا ہے۔
سلف صالحین میں سے بعض افراد اپنے بھائی کی وفات کے بعد چالیس سال تک اپنے بھائی کی اولاد کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ روزانہ ان کے پاس جاتے اور انہیں اپنے مال سے عطیہ دیتے۔ اس طرح مرحوم باپ کے بچے صرف باپ کا وجود ہی گم پاتے تھے ورنہ ان کی تمام ضروریاتِ زندگی تو اپنے باپ کی زندگی میں ملنے والی سہولتوں سے بھی زیادہ آسانی اور فراوانی کے ساتھ پوری ہو رہی تھیں۔ بعض بزرگ تو اپنے بھائی کے گھر جاکر یہ بھی پوچھتے تھے: کیا تمہارے پاس ضرورت کے لیے تیل اور نمک موجود ہے؟ کیا کوئی کام تو نہیں جو ہم کردیں؟
ایک مسلم خاتون کو چاہیے کہ مفلوک الحال مسلمان بہنوں کی ضروریات کا خاص خیال رکھے۔ تمہاری بہن کی ضرورت، خواہ تمہاری اپنی ضرورت سے زیادہ اہم ہو یا کم، تم ہر ضرورت مند بہن کی ضرورت کے وقت اس کے کام آؤ، اس فرض سے کبھی غافل نہ رہو۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح تم اپنی ذات اور اپنی ضروریات سے غافل نہیں رہتیں بلکہ تمہیں چاہیے کہ تم اسے سوال کرنے اور اپنی ضرورت ظاہر کرنے کی نوبت ہی نہ آنے دو، یعنی اس کے سوال سے پہلے ہی اس کی ضرورت پوری کردو اور پھر اپنے اس عمل کو بھول جاؤ۔ اس کی ضرورت پوری کر کے تمہیں اس پر اپنا کوئی حق نہیں جتانا چاہیے۔ کسی کی ضرورت پوری کر کے اس سے بدلے کی امید یا تعریف کی خواہش کبھی نہ کرنا۔
جناب ابن شبرمہ رحمۃ اللہ علیہ بڑے نیک بزرگ تھے، انہوں نے اپنے ایک بھائی کی بہت بڑی ضرورت پوری کردی، وہ ان کے لیے تحفہ لے کر آیا تو ابن شبرمہ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ ان کے بھائی نے کہا:
’’یہ آپ کے لیے تحفہ ہے کیوں کہ آپ نے میرے ساتھ بڑی نیکی کی ہے۔‘‘
جناب ابن شبرمہ بولے:
’’اللہ تمہیں عافیت و سلامتی سے نوازے، اپنا تحفہ واپس لے لو کیوں کہ جب تم اپنے بھائی سے کسی ضرورت کی تکمیل کا سوال کرو اور وہ تمہاری ضرورت پوری کرنے کی بھرپور کوشش نہ کرے تو تم نماز کے لیے وضو کرو اور اس پر چار تکبیریں پڑھ کر اسے مردوں میں شمار کرلو۔‘‘
جب تم اپنی بہنوں کی ضروریات پوری کر کے نیکی کا کام کرتی ہو تو نیک کام کی بدولت اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو بری موت سے بچا لیتا ہے اور جنت میں اس کا درجہ بلند کر دیتا ہے۔
حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’نیک کام بری موت سے بچاتے ہیں۔‘‘
’’نیک کام‘‘ اعلیٰ خوبی اور بالیدہ شعور کا نام ہے جو آدمی کو لوگوں کی آنکھ کا تارا بنا دیتا ہے اور ان کے نزدیک وہ نہایت عالی رتبہ ہو جاتا ہے۔ اور اس کے گرد ہیبت و محبت اور الفت کا حصار قائم ہو جاتا ہے اور وہ سب کے نزدیک ایک فیض رساں اور محبوب شخصیت بن جاتا ہے۔ lll