دوعورتیں

لبنیٰ رسول

میری آنکھوں کے سامنے دیر تک چہرے مہرے کے خاکے بنتے اور مٹتے رہے۔ دھول سے اٹے بال، رت جگوں کی ماری آنکھیں جن سے آنسوؤں کے چشمے ابلے پڑتے تھے، لرزتا ہوا وجود، جگہ جگہ سے تار تار کپڑے۔ یا اللہ پہلے تو یہ کبھی دیکھنے میں نہ آئی تھی۔ کون ہے یہ اور اس طرح گاؤں کی گلیوں میں کیوں ماری ماری پھر رہی ہے۔ میں نے اسے دیکھا تو اس کے بارے میں سوچنے لگی۔ اس اثنا میں وہ میرے قریب پہنچی اور اس کی درد بھری آواز نے میری سوچوں کے تانے بانے بکھیر دیے۔ وہ کہہ رہی تھی:
’’فضلے! خدا کا واسطہ! مجھے میرا قصور تو بتادے۔ آخر تو مجھے چھوڑ کر کہاں چلا گیا؟‘‘ اور پھر دوہتڑ مار کر اپنا سینہ کوٹنے لگی۔ ساتھ ہی ساتھ وہ کسی فضلے کو پکارے جارہی تھی۔ مجھ سے اس کی یہ حالت نہ دیکھی جاسکی، دوڑ کر گھر میں گھس گئی اور دروازہ بند کرلیا۔ لیکن اس کی آواز اور غموں کی دھول سے اٹا ہوا چہرہ ابھی تک میرے ذہن پر چھایا ہوا تھا۔
اماں نے جو مجھے بدحواس دیکھا، تو دوڑی آئیں، میرا معمول تھا کہ جب چھٹیاں ہوتیں تو سال میں ایک بار اپنے ننھیال ضرور جاتی۔ بہت پیارا چھوٹا سا پرسکون گاؤں ہے۔ گاؤں جاکر ایک عجیب سا سکون ملتا، عجیب سی راحت کا احساس ہوتا، لیکن اب کی بار میرا سکون اور چین گھر کی دہلیز سے باہر ہی رہ گیا اور میں عجیب الجھنوں میں پڑگئی۔
اماں کو دیکھتے ہی میں نے اس عورت کے بارے میں پوچھا۔ انھوں نے کہا: ’’بیٹی! تم اس الجھن میں کیوں پڑگئیں، منہ ہاتھ دھوکر کھانا کھالو، آرام سے اس نصیبوں ماری کی بپتا بھی سن لینا۔‘‘ مجھ میں انتظار کی تاب نہ تھی ’’ نہیں، بعد میں کھاؤں گی، پہلے بتائیے یہ عورت کون ہے اور اس حال کو کیسے پہنچی؟‘‘ میں نے اصرار کیا۔ میری ضد کے آگے انھیں سپر انداز ہونا پڑا اور انھوں نے جو کچھ بتایا وہ اتنا غم انگیز تھا کہ نہ صرف میرے پورے وجود پر کپکپی طاری ہوگئی بلکہ آنسوؤں کا ایک ریلا تھا جو کسی طرح رکنے میں نہ آتا تھا۔ اماں نے کہنا شروع کیا:
’’کچھ فاصلے پر چودھری رحمت الٰہی کا گھر ہے، بڑا خوش حال گھرانا ہے۔ اچھی زمینیں ہیں، ڈھور ڈنگر بھی بہت سے ہیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ نے اچھی اولاد سے نوازا ہے۔ نیک سیرت اور خوش صورت دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بیٹوں کے نام حمید اور جمیل ہیں اور بیٹیوں کے نام زینب اور خورشید۔ دو گھر چھوڑ کر ان کے بڑے بھائی چودھری فتح بخش رہتے ہیں۔‘‘
اماں کچھ دیر کو رکیں تو میری محویت ٹوٹ گئی۔ انھوں نے ٹوٹا ہوا تار جوڑا:’’ فتح بخش کے دو بچے تھے محمد فضل اور نسیم۔‘‘
فضل کا جو نام آیا، تو میں اماں کے اور قریب ہوگئی۔ میری آنکھیں ان کے چہرے پر ابھرے ہوئے تاثرات پڑھنے کی کوشش کررہی تھیں اور ذہن کسی نتیجے پر پہنچنے کا متمنی تھا۔ اماں بات آگے بڑھانا چاہتی تھیں کہ باہر کا دروازہ دھڑ سے کھل گیا اور میں نے گھبرا کر اپنا سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا۔ وہ بیچ دروازے میں سوالیہ نشان بنی کھڑی تھی۔ وہی درد بھری آنسوؤں سے لبریز آواز ’’تم نے میرے فضلے کو تو نہیں دیکھا؟ دیکھا ہو تو پوچھنا میرا جرم کیا ہے؟‘‘
ذرا دیر بعد وہ دروازے سے ہٹ گئی، لیکن باہر جاکر بھی وہ مسلسل وہی الفاظ دوہرا رہی تھی: ’لوگو! تم نے میرے فضلے کو تو نہیں دیکھا؟ دیکھا ہوتو اس سے پوچھنا میرا قصور کیا تھا؟‘‘
میری نگاہیں ابھی تک دروازے پر لگی تھیں کہ اماں کی آواز نے توجہ بکھیر دی’’تو بیٹا یہ زینب ہے جسے پیارسے فضلا جیناں کہا کرتا تھا۔‘‘
’’اماں یہ ’’تھا‘‘ کیوں، ’’ہے‘‘ کیوں نہیں؟‘‘ میں نے فوراً تصحیح کرنی چاہی، لیکن اماں نے میری طرف دھیان دیے بغیر بات جاری رکھی۔ ’’بیٹی چودھری فتح بخش نے زینب کا رشتہ فضل کے لیے مانگا۔ چودھری رحمت الٰہی کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا، بیٹی اپنے گھر سے اٹھ کر اپنے ہی گھر تو جارہی تھی، فوراً ہاں کردی، لیکن ہاں کے ساتھ ہی فتح بخش نے نسیم کے لیے حمید کا رشتہ مانگ لیا۔ زینب کی ماں اس رشتے کے حق میں نہ تھی۔ اس لیے چودھری رحمت الٰہی نے ٹال مٹول کرنی چاہی، لیکن ادھر سے ایک ہی رٹ تھی کہ نسیم کے لیے حمید کا رشتہ دو ورنہ فضل اور زینب کا بھی توڑدو۔
بات پکی ہوجانے پر ٹوٹ جائے تو گاؤں میں یہ بات بہت معیوب سمجھی جاتی ہے۔ لہٰذا زینب کے ماں باپ نے اپنی بیٹی کے سکھ کی خاطر رشتہ منظور کرلیا اور پھر تو چٹ منگنی پٹ بیاہ والا معاملہ ہوا۔ آج سے کوئی چار سال پہلے بڑی دھوم دھام سے دونوں گھروں سے ڈولیاں اٹھیں اوردونوں گھروں میں دو ڈولیاں اتریں۔‘‘
یہاں پہنچ کر ماں کے ضبط کے بند ٹوٹ سے گئے۔ محسوس ہوا ان میں بات جاری رکھنے کا حوصلہ نہیں رہا۔ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں۔ میں سراسیمہ ہوکر ہونقوں کی طرح دیکھنے لگی۔ ’’اماں ڈولیاں اٹھتی ہیں، یہ تو ہر گھر سے اٹھتی ہیں اور خدا کرے ہر بیٹی کی ڈولی اپنے ماں باپ کے گھر سے اٹھے۔ آپ کیوں رو رہی ہیں؟‘‘
’’بیٹا! تو ٹھیک کہتی ہے کہ قدرت کا قانون یہی ہے، بیٹیاں اپنے شوہروں کے ساتھ باپ سے علیحدہ گھر بساتی ہیں۔ رحمت الٰہی نے زینب کو دعاؤں کے تحفے دے کر رخصت کیا: بیٹا یہ گھر تیرا تھا، لیکن اب وہ گھرتیرا ہے۔ تیری ڈولی یہا ںسے اٹھی ہے، تو عزت میری اس میں ہے کہ تیرا جنازہ وہاں سے نکلے۔ دیکھنا اس گھر کو اپنے باپ کے گھر سے زیادہ پیارا رکھنا۔‘‘
اماں نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا:
’’ زینب بہت سمجھ دار بیٹی تھی۔ اس نے اپنے خاوند کی راہوں میں آنکھیں بچھائیں، وہاں ساس، سسر کی خدمت میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اپنے میکے کو یاد نہ کیا اور یونہی ہنسی خوشی ایک سال گزر گیا۔ پھر اللہ نے زینب کو ایک منا سا کھلونا دے دیا، فضل اور زینب خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ چودھری رحمت نے بھی نواسے کے لیے مقدور بھر چیزیں بھجوائیں۔‘‘ یہاں تک کہہ کر ماں خاموش ہوگئیں۔ میں نے بات جاری رکھنے کی درخواست کی تو دل کو سنبھالتے ہوئے بولیں:
’’ہائے بیٹی! مجھے وہ دن بھلائے نہیں بھولتا۔ زینب نے اپنے بیٹے کی ختنہ کرانے کے لیے تاریخ مقرر کی اور بہت انہماک سے تیاریوں میں مصروف ہوگئی۔ لیکن عین وقت پر نسیم نے واویلا مچادیا۔ دیگیں دھری رہ گئیں۔ سرخ دوپٹا جس پر زینب گوٹا ٹانک رہی تھی، وہیں پڑا رہ گیا۔ مجھے تو حمید نے آکر بتایا تھا کہ نسیم لڑ کر گھر چلی گئی ہے۔ مجھے رسم میں شرکت کے لیے جانا ہی تھا۔ یہ سن کر اسی وقت چل پڑی۔ میری پریشانی کی وجہ نسیم کی تیزی طراری سے واقفیت تھی۔ ماں باپ کے لاڈ پیار نے اسے بہت ہی خود سر اور ضدی بنادیا تھا۔ میں وہاں پہنچی تو دیکھا نسیم نے بڑی بری طرح زینب کو پکڑ رکھا تھا اور اسے دروازے کی طرف گھسیٹ رہی تھی اور زینب کہہ رہی تھی’’میں فضلے کے گھر کو نہیں چھوڑوں گی، چاہے تو میرے ٹکڑے کردے۔‘‘ کسی نے فضل کو بتایا تو وہ بھاگا بھاگا گھر پہنچا اور بمشکل نسیم کے چنگل سے زینب کو چھڑایا۔
نسیم کی حالت ابھی تک وہی تھی۔ وہ مسلسل بولے جارہی تھی۔ کبھی اپنی ساس کو برا کہتی اور کبھی سسر کو۔ آخر فضل دونوں کو اندر لے گیا۔ سب گھر والے نسیم کو سمجھا رہے تھے، لیکن اس کا غصہ کسی طرح کم نہ ہوتا تھا۔ ایک ہی رٹ تھی ’’میں اب اس گھر نہ جاؤں گی۔ اور زینب کو بھی اس گھر میں نہ رہنے دوں گی۔‘‘
’’ہائے بیٹا! اس کے یہ کہنے پر میں نے فضل کی طرف دیکھا، وہ تو تڑپ کر رہ گیا۔ اس میں اور زینب میں مثالی پیا رتھا، اور منے کی آمد نے تو یہ بندھن اور بھی مضبوط کردیا تھا۔‘‘
’’تو اماں فضل نے نسیم کو ڈانٹا نہیں کہ یہ کیا کررہی ہے؟‘‘
’’ہائے بیٹا عورت ضد پر آجائے تو بڑی ظالم ہوجاتی ہے، اس کے آنسو مردوں کے دلوں پر تیزاب کے قطروں کی مانند گرتے ہیں۔ زینب سے فضل کو لاکھ محبت سہی لیکن نسیم بھی تو اس کا خون تھی، اس کی ماں جائی تھی۔‘‘
’’اماں پھر بھی جو حق پر ہو، اس کا ساتھ تو ہر حالت میں دینا چاہیے۔ لڑائی نسیم نے کی تھی، سزا زینب کو کیوں ملتی!‘‘
اماں نے دونو ںہاتھ ملتے ہوئے کہا: ’’بیٹا قانون کے ہم اتنے پابند ہوجائیں تو جتنی ہماری سوچیں ہوتی ہیں تو پھر قانون بنانے کی ضرورت ہی باقی نہ رہے۔ فضل نے نسیم کو سمجھایا لیکن اس کی ایک ہی رٹ تھی ’’نہ جاؤں گی نہ زینب کو رہنے دوں گی۔‘‘
حمید کو نسیم کے واویلے کا پتا تھا۔ جھگڑے کے تیسرے دن وہ اسے لینے گیا، لیکن آج اس نے ساس کو اپنے شوہر کے سامنے برا بھلا کہا۔ اس پر حمید نے اسے ڈانٹا تو گویا جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اب نسیم کا مطالبہ تھا کہ حمید اسے طلاق دے۔ لیکن حمید کو اپنی بہن کے باعث طلاق دینے میں تامل تھا۔ چھ ماہ اسی دنگے فساد میں گزرگئے اور بالآخر وہی ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ باپ نے بیٹی کے آنسوؤں سے تنگ آکر اسے طلاق دلوادی، اور طلاق کا ملنا تھا کہ نسیم نے زینب کو بالوں سے پکڑ کر دیوار سے دے مارا۔ بے چاری غریب لہو لہان ہوگئی۔ اور اس کے بعدجو ستم زینب پر ہوئے ان کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اس کے بچے کا دودھ بند کردینا، اس کی چیزیں توڑ دینا، وقت پر کھانا نہ دینا، لیکن زینب نے صرف فضل کی خاطر یہ سب کچھ سہا اور شکوہ تک نہ کیا۔ نسیم ا س کے صبر سے کچھ اور چڑ گئی۔ اس نے صاف لفظوں میں بھائی سے مطالبہ کردیا کہ زینب کو طلاق دے دو۔ فضل بہن کے آنسوؤں سے بہت متاثر ہوتا تھا لیکن اس نے زینب کو طلاق نہ دی، علیحدہ گھر لے لیا۔‘‘
میں نے شکر کا سانس لیا او رکہا: ’’چلو اماں بہت اچھا ہوا۔‘‘
’’اچھا کیسے ہوا بیٹی! اگر یہ جھگڑا یہیں ختم ہوجاتا تو واقعی اچھا ہوتا، لیکن اب نسیم، بھائی کو زینب سے ملنے نہ دیتی تھی۔ جب وہاں جانے کا ارادہ کرتا، رو رو کر برا حال کرلیتی۔ پورے گاؤں میں مشہور ہوگیا کہ فضل نے زینب کو علیحدہ کردیا ہے۔ فضل اس صورت حال سے سخت پریشان تھا۔ نہ وہ بیوی اور بچے کو چھوڑ سکتا تھا ، نہ بہن کو ناراض کرسکتا تھا۔ آخر اس مشکل کا حل اس نے یہ نکالا کہ روزانہ رات کو چھپ کر بیوی سے ملنے جایا کرتا اور صبح سحری کے وقت اپنے گھر چلا آتا۔‘‘
اب تو میری آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ میں نے کہا: اماں! زینب تو خوش ہوئی ہوگئی کہ چلو خاوند سے علیحدہ تو نہ ہوئی؟‘‘
اماں بولیں: ’’نہیں، بیٹا! زینب نے اس طرح چھپ چھپ کر آنے سے منع کردیا۔‘‘
’’ہائیں، اماں وہ کیوں؟‘‘
’’کیونکہ وہ چھپ کر آتا تھا اور گاؤں والوں کو خبر نہ تھی کہ وہ رات کو بیوی بچوں سے ملنے جاتا ہے، اس لیے زینب نے اسے منع کردیا کہ کل کلاں کو اگر وہ اس کے بچے کی ماں بنی تو اس پر ایسی ایسی تہمتیں لگیں گی کہ جینا محال ہوجائے گا۔ اس نے اسے کہا کہ اگر تم مجھے اپنے پاس رکھنا چاہتے ہو تو صحیح طریقے سے اپنے گھر میں رکھو، یوں چوروں کی طرح مت آیا کرو۔ بیٹا فضل عقلمندتھا، بات کی گہرائی پاگیا اور آنا جانا بند کردیا۔‘‘
’’ہائے اماں! یہ تو حیوانوں والا سلوک ہے کہ ان کے ماں باپ کو بچوں کی اور بچوں کو ماں باپ کی فکر نہیںہوتی۔ جہاں ہانک لے گئے چلے گئے۔‘‘
اماں بولیں: ’’انسان جب عقل کا ساتھ چھوڑ دے تو حیوان ہی بن جاتا ہے، سو فضل نے آنا جانا بند کردیا۔ اب نسیم کا مطالبہ تھا کہ فضل ملتا تو ہے نہیں پھر طلاق دینے میں کیا حرج ہے، ہائے! بیٹا مجھے ابھی تک یاد پڑتا ہے کہ فضل ان دنوں کیسے پاگلوں کی طرح پھرا کرتا تھا۔ میرے پاس آتا تو بے بس ہوکر رونے لگتا۔ اسے اپنا بچہ بہت یاد آتا تھا۔ مجھ سے کہہ کر اسے بلوایا کرتا اور یہ منظر اتنا رقت انگیز ہوتا کہ میں بھی گھنٹوں روتی رہتی۔وہ بچے کے پاؤں تک چومتا۔ جتنی دیر رہتا اپنی گود سے جدا نہ ہونے دیتا۔‘‘
’’اماں زینب کا حال تو آپ نے بتایا ہی نہیں؟‘‘ مجھے جیسے کچھ یا دآگیا۔
اماں کہنے لگیں:’’بیٹا! اس غریب کا حال کیا بتاؤں! دن رات آنسو بہاتی، باتیں کرتے کرتے بہک جاتی۔ فضل کی جدائی نے اسے نڈھال کردیا تھا۔ وہ کسی صورت بھی اپنے ماں باپ کے گھر جانا نہ چاہتی تھی۔‘‘ یہاں پہنچ کر اماں خاموش ہوگئیں۔ میں نے حیران ہوکر سر اٹھایا تو دیکھا وہ ہچکیاں لے کر رو رہی تھیں۔ مجھے بھی آنسوؤں پر اختیار نہ رہا۔ خیال آیا کہ عورتیں بھی کیا چیز ہیں، ایک دوسرے کو کنویں میں پھینکتی بھی ہیں اور پھر اس کی مینڈھ پر بیٹھ کر رونے بھی لگتی ہیں۔ کچھ دیر بعد اماں نے خود کو سنبھالا اور رک رک کر بولیں، ’’بیٹا! پھر یوں ہوا کہ فضل نے اسے طلاق دے دے! بس اسی دن سے اس کا یہ حال ہے۔ ہوش وحواس جاتے رہے۔‘‘ میرے ہاتھ سے اماں کا ہاتھ چھوٹ گیا۔ صحن میں رات کے سائے گہرے ہوتے گئے۔ مشرق سے چاند دھیرے دھیرے ابھر رہا تھا اور کافی فاصلے سے زینب کی مدھم سی آواز آرہی تھی۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں