دوپٹہ جل رہا ہے

نہال اختر

میں کپڑوں پر استری کررہا تھا کہ دروازے پر خالہ بی نمودار ہوئیں۔ نام تو ان کا جمیلہ تھا مگر پورا محلہ ان کو خالی بی کے نام سے جانتا تھا۔ محلے میں کسی کے بھی گھر پر کوئی بات ہوجائے بس خالہ بی کو معلوم ہونا چاہیے۔ اس گھر کی کہانی خالہ بی کی زبانی پورے محلے میں گھر گھر پہنچ جاتی۔
خالہ بی نے اماں کے ساتھ بیٹھتے ہی ہمارے پڑوس کے گھر کی ساری کہانی ایک ہی سانس میں کہہ ڈالی: ’’اے بہن! بس کیا بتاؤں…؟ بیچاری جب سے شادی ہوکر آئی ہے اسی دن سے غریب پر ظلم ہورہے ہیں۔ کبھی روٹی کے جلنے پر اسے مارا جارہا ہے، کبھی دودھ کے گرجانے پر… اس میں اس غریب کا کیا قصور، انسان سے خطا ہو ہی جاتی ہے۔‘‘
’’ہاں بہن! بے چاری پر ظلم ہورہے ہیں۔ شروع شروع میں تو سارا دن کم جہیز لانے پر کوسا جاتا تھا۔ اب جہیز کا قصہ ختم ہوا تو یہ کہانی شروع ہوگئی۔ مگر یہ تو بتاؤ آج کیا ہوا ہے؟‘‘ اماں نے خالہ بی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے پوچھا۔
’’یوں سمجھ لو ان لوگوں کو تو بہانہ چاہیے، اس غریب کو ستانے کا۔ ساس نے کہہ دیا ہوگا کہ مجھے پوتا چاہیے۔ ورنہ تیری خیر نہیں۔ اس پر بے چاری نے جواب دے دیا کہ سب اللہ کی دین ہے۔ پھر کیا تھا ساس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ جو چیز ہاتھ میں آئی اس بیچاری پر دے ماری۔ میں ابھی اس سے مل کر آرہی ہوں، سر میں اور سیدھے ہاتھ پر شدید چوٹ آئی ہے۔‘‘
’’رابعہ کو توایسا نہیں کرنا چاہیے۔ آخر وہ بھی تو کسی کی بیٹی ہے۔‘‘ امی نے دل پر ہاتھ رکھ کر کہا: ’’یاد ہے رابعہ کی بیٹی شائستہ کے رشتے کی بات چلی تھی تو کس طرح اس نے سسرال والوں سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ میری بیٹی بڑے ناز وں میں پلی ہے، اس کا خیال رکھنا، شائستہ کے یہاں کون سا لڑکا پیدا ہوا اس کے یہاں تو لڑکی بھی گونگی پیدا ہوئی ہے مگر پھر بھی اس کی سسرال والے صبر سے کام لے رہے ہیں۔ رابعہ ان باتوںسے سبق لینے کے بجائے الٹا اس غریب پر ظلم کررہی ہے۔‘‘
خالہ کی باتیں ختم ہوئیں تو میں کپڑوں پر استری کرچکا تھا۔ میں نے جلدی سے کپڑے اٹھائے اور آفس جانے کی تیاری کرنے لگا۔ چلتے چلتے میںنے خالہ سے پوچھا کہ ’’فرید ان باتوں کو نہیں جانتا کہ اس کی بیوی کے ساتھ اس کی ماں کیا سلوک کررہی ہے؟‘‘
’’جانتا تو وہ سب کچھ ہے بیٹا مگر وہ اپنی ماں سے باہر نہیں ہے۔‘‘ خالہ نے کہا۔
آفس میں سارا دن میں عارفہ کے بارے میں سوچتا رہا کہ آج کل پیسے اور شکل و صورت کو کتنی اہمیت دی جارہی ہے۔ کوئی بھی ساس اپنی بہو کا عام سی شکل و صورت والی اور غریب ہونا برداشت نہیں کرسکتی۔ خواہ وہ لوگ خود کتنے ہی غریب کیوں نہ ہوں۔ بس اس کو تو اپنے بیٹے کے لیے چاند سی دلہن اور ڈھیر سارا جہیز چاہیے۔ آفس میں میں نے فیصلہ کرلیا کہ آج عارفہ کے بارے میں فرید سے بات کروں گا۔ آفس سے لوٹا تو گھر پر تالا لگا ہوا تھا۔ میں نے جیب سے چابی نکالی اور دروازہ کھول کر گھر میں داخل ہوا۔ ابھی مجھے چند سیکنڈ ہی گزرے تھے کہ امی گھر میں داخل ہوئیں، میں نے امی سے پوچھا کہ کہاں گئی تھیں؟
’’آج تو رابعہ اور فرید نے حد کردی ظلم کی۔ اس طرح تو کوئی جانور پر بھی ظلم نہیں کرتا، وہ دونوں تو اس بیچاری کو آج جان سے ہی مارنے والے تھے مگر ہم محلے والوں کی کوشش سے وہ غریب بچ گئی۔
بیچاری کا سر پھٹ گیا ہے۔ چہرے پر ساس کے ناخنوں کے نشان ہاتھوں اور پیروں پر الگ ڈنڈے مارے گئے۔ اتنا ظلم کرنے کے بعد اس بیچاری کو لاوارثوں کی طرح پھینک دیا وہ تو میں اور خالدہ بہن بڑی مشکل سے اسے پکڑ کر قریبی اسپتال میں لے گئے ہیں۔‘‘
’’امی جان کیا محلے والے فرید اور رابعہ کو کچھ نہیں سمجھاتے۔‘‘
’’بیٹا ایک مرتبہ خالدہ بہن کے بیٹے نے سمجھانے کی کوشش کی تھی، اس پر دونوں ماں بیٹا اس سے جھگڑ پڑے کہ آئندہ ہمارے گھریلو معاملات میں دخل اندازی مت کرنا۔‘‘
’’تو عارفہ کے گھر والوں کو کچھ نہیںمعلوم؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’ان لوگوں نے بیٹی کے گھر آنا جانا چھوڑ دیا ہے۔ ایک مرتبہ عارفہ کے والدین عارفہ سے ملنے ان کے گھر آئے تھے اور کچھ دنوں کے لیے عارفہ کو اپنے گھر لے جانا چاہتے تھے، جس پر فرید نے ان لوگوں سے بے حد بدتمیزی کی تھی۔نہ جانے کس نے ان لوگوں کو مشورہ دیا تھا کہ اس دوزخ میں اپنی بیٹی کو جلنے کے لیے چھوڑدیں۔‘‘ امی نے بتایا۔
کچھ دنوں کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ عارفہ نے ایک بیٹی کو جنم دیا ہے۔ امی نے مجھے بتایا کہ عارفہ اسپتال میں اکیلی ہے۔ اس کے پاس صرف اس کے ماں باپ ہی ہیں۔ ان ساس بیٹے نے تو صاف کہہ دیا کہ بیٹی کے ساتھ اس گھر میں قدم مت رکھنا۔ امی اور میں کھانا کھا رہے تھے کہ خالہ بی گھر میں داخل ہوئیں اوربتایا کہ عارفہ اپنے گھر آگئی ہے پھر وہ ادھر اُدھر کی باتیں کرتی رہی۔ دوسرے دن آفس میں زیادہ کام نہ ہونے کی وجہ سے مجھے جلدی گھر آنا پڑا۔ ابھی میں گلی میں ہی داخل ہوا تھا کہ سامنے مجھے پولیس کی وین نظر آئی۔ میں نے دیکھا کہ گلی میں کافی رش بھی تھا۔
کسی سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ فرید کی بیوی عارفہ نے خود کو آگ لگا کر خود کشی کرلی ہے۔ میرے دل میںاچانک خیال آیا کہ یہ خود کشی نہیں ہے۔ عارفہ بڑی صبر والی تھی۔ وہ یہ حماقت کبھی بھی نہیں کرسکتی۔
پولیس فرید اور اس کی ماں کو تفتیش کے لیے اپنے ساتھ لے گئی۔ میں نے سوچا کہ اگر پولیس کو کوئی گواہ نہ ملا تو وہ فرید اور اس کی ماں کو چھوڑ دے گی اور یہ عارفہ کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔ میں نے محلے والوں سے عارفہ کے لیے انصاف کی اپیل کی کہ ہم سب مل کر فرید اور اس کی ماں کے خلاف گواہی دیں گے۔ پہلے تو کچھ لوگ ڈر گئے کہ یہ پولیس کیس ہے مگر میری کوششوں سے کچھ لوگ عارفہ کو انصاف دلانے پر راضی ہوگئے اور گواہی کے لیے تیار ہوگئے۔ ہم سب محلے والوں کی گواہی اورپولیس کی کوششوں سے ساری بات کھل کر سامنے آگئی اور فرید اور اس کی ماں نے اقبالِ جرم کیا کہ انھوں نے مل کر پہلے عارفہ کو بہت مارا اور پھر باورچی خانے میں اسے لاکر آگ لگادی۔ کیس عدالت میں گیا اور عدالت نے فرید اور اس کی ماں کو عمرقید سنادی۔ عارفہ کی بیٹی کو اس کے والدین ساتھ لے گئے۔
اس کہانی نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا کہ آخر کب تک عارفہ جیسی لڑکیوں کوجو خود جنت کا ایک نمونہ ہوتی ہیں دوزخ کی آگ میں ڈالا جاتا رہے گا۔ کب تک عارفہ جیسی معمولی شکل و صورت والی غریب اور کم جہیز لانے والی لڑکیوں کے دوپٹے جلتے رہیں گے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں