عَنْ کَعْب بِنْ مَالِکٍؓ، قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ اُرْسِلَا فِیْ غَنَمٍ بِاَفْسَدِ لَھَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْئِ عَلَی الْمَالِ وَالشَّرَفِ لِدِیْنِہٖ۔ (ترمذی، دارمی)
’’حضرت کعب بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’دو بھوکے بھیڑیے جو بکریوں میں چھوڑ دئے جائیں تو وہ بکریوں کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا نقصان کہ مال کا جمع کرنے والا اور عزت و منصب کو حاصل کرنے والا شخص حرص و لالچ میں اپنے دین کو تباہ و بردبار کرکے رکھ دیتا ہے۔‘‘
اس حدیث میں نبیؐ نے دو بھوکے بھیڑیوں اور بکریوں کی مثال دے کر یہ واضح فرمایا کہ بھوکے بھیڑیے بکریوں کو پا کر اپنی بھوک مٹانے اور نفس کی خواہش کو پوری کرنے کے لیے ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اور انتہائی بے دردی اور سفاکی سے اس ریوڑ کوتباہ و برباد کرتے ہیں۔ ایک طرف تو بکریوں کا نقصان ہوتا ہے اور دوسری طرف ریوڑ کے مالک کو بھی نقصان کا شدید احسا ہوتا ہے۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ انہیں جو نقصان پہنچ رہا ہے، ان سے زیادہ شدید نقصان وہ لوگ دین اور سماج کو پہنچاتے ہیں جو مال و دولت کے جمع کرنے اور عزت و مرتبہ حاصل کرنے کے لیے اپنی نفسانی خواہشات کی غلامی کرتے ہیں اور نہ ختم ہونے والی حرص و ہوس کے پیچھے پڑجاتے ہیں۔ انسانیت کے یہ بھیڑیے اللہ کے دین کو بھی پامال کرتے ہیں اور سماج کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں۔
ایک مادہ پرست انسان مال و دولت کی ہوس میں دین و اخلاق اور انسانیت کی پرواہ کیے بغیر دوڑ دھوپ کرتا ہے، مال کے حصول میں وہ یہ نہیں دیکھتا کہ یہ مال حلال ہے یا حرام اس کا تصور یہ ہے کہ مال جہاں سے ملے اور جس طرح ملے حاصل کرتے چلے جاؤ۔ وہ بے لگام ہوکر بگ ٹٹ طریقہ سے اس کے پیچھے دوڑتا ہے۔ اسے اللہ و رسول کے احکام اور اخلاق و شریعت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔ ظاہر ہے ایسا شخص دین کو تباہ کرنے اور سماج کو نقصان پہنچانے کے سوا کیا کرسکتا ہے۔ یہ دنیا میں بھی رسوا ہوتا ہے اور آخرت میں بھی جہنم کی آگ سے دوچار ہوگا۔دوسرا بھیڑیا وہ شخص ہے جو سماج میں عزت و مرتبہ اور جاہ و حشمت کے حصول میں اپنے نفس کا غلام ہوتا ہے۔ کرسی اقتدار اس کا اصل مقصود ہوتا ہے۔ اس کے حصول میں وہ حقوق تلفی، دوسروں کے نقصان اور اخلاق و شرافت کا کوئی پاس نہیں کرتا۔ اس کی تباہی و بربادی کے اثرات بہت دور تک پڑتے ہیں۔نبیؐ نے فرمایا یہ دونوں انسانی بھیڑیے دین کو نقصان پہنچاتے ہیں، اور اللہ کی ناراضگی کو مول لیتے ہیں۔