مشہور عباسی خلیفہ ہارون رشید رقہ میں مقیم ہیں اور خبر آئی ہے کہ رومیوں نے مسلمان عورتوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ یہ خبر مسلمانوں پر بجلی بن کر گری، جہاد کا جوش پیدا ہوگیا، اسی سلسلہ میں ایک موقع پر منصور بن عمار لوگوں کو جہاد کی ترغیب دے رہے تھے کہ مجمع میں سے ایک بند لفافہ ان کے پاس آیا اس کو کھولا گیا تو اس میں لکھا ہوا تھا:
’’میں ایک شریف عربی گھرانے کی عورت ہوں، رومیوں نے مسلمان عورتوں کے ساتھ جو کچھ کیا اس کی اطلاع مجھ کو ہوئی۔ مجھ کو اپنے سر کے بال بیحد محبوب ہیں۔ میں ان کو کاٹ کر اس خط کے ساتھ آپ کے ساتھ بھیجتی ہوں اور آپ سے خدا کا واسطہ دے کر کہتی ہوں کہ یہ انتظام کردیجیے کہ یہ میرے بال کسی مجاہد کے گھوڑے کی لگام میں کام آجائیں، کیا عجب ہے کہ اللہ تعالیٰ اسی کی وجہ سے مجھ پر رحم فرمائے۔‘‘
منصور بن عمار یہ خط پڑھ کر رو دئے اور پورا مجمع تڑپ گیا۔ ہارون رشید نے جنگ کا اعلان کردیا اور خود بھی اس لڑائی میں شرکت کی، انجام کار اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کامیابی نصیب فرمائی۔
ابو قدامہ شامی ایک اسلامی لشکر کے سپہ سالار ہیں۔ ایک مرتبہ وہ مسلمانوں کو جہاد کی طرف متوجہ کرکے اپنی قیام گاہ کی طرف جارہے تھے۔ راستہ میں ایک حسین و جمیل عورت ملی، اس نے ابو قدامہ کو آواز دی مگر انھوں نے کوئی توجہ نہ کی، اس خاتون نے دوسری مرتبہ اصرار کے ساتھ ان کو اپنی طرف متوجہ کیا ابو قدامہ رُک گئے۔ یہ عورت ان کے پاس آئی اور ایک خط دے کر روتی ہوئی لوٹ گئی ابوقدامہ کہتے ہیں کہ میں نے خط کھول کر دیکھا تو اس میں لکھا تھا:
’’ آپ نے ہم کو جہاد کی طرف دعوت دی، اور اس کے اجرو ثواب کی طرف توجہ دلائی، مگر افسوس کے مجھ کو یہ دولت نصیب نہیں ہے اس لیے میں اپنی بہترین دولت یعنی بالوں کی چوٹی کاٹ کر حاضر خدمت کررہی ہوں کہ آپ اپنے گھوڑے کی لگام میں کام لائیں، شاید یہی چیز میری مغفرت کا باعث بن جائے۔‘‘
اس کے بعد ابوقدامہ محاذ جنگ پر چلے گئے، وہاں ایک نو عمر لڑکے کو دیکھا کہ وہ نبرد آزمائی میں مصروف ہے، ابو قدامہ آگے بڑھے اور اس لڑکے سے کہا کہ تم ابھی کمسن ہو، کہیں گھوڑے سے گر نہ پڑو، تم میدان جنگ سے واپس جاؤ۔ لڑکے نے کہا کہ آپ مجھ کو واپسی کا حکم دیتے ہیں حالانکہ خدا فرماتا ہے:
یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِذَا لَقِیْتُمْ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا زَحْفاً فَلَا تُوَلُّوْہُمُ الاَدْبَارَ وَمَنْ یُوَّلِّہِمْ یَوْمَئِذٍ دُبَرَہٗ إِلَّا مُتَحَرِّفاً فِی الْقِتَالِ أَوْ مُتَحَیِّزاً إِلیٰ فِئَۃٍ فَقَدْ بَائَ بِغَضَبٍ مِنَ اللّٰہِ وَمَاوٰہ جَہَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ۔
’’اے ایمان والوں جب تم کافروں سے(جہاد میں) مدمقابل ہوجاؤ تو ان سے پشت مت کرنا اور جو شخص ان سے اس موقع پر (مقابلہ) کے وقت پشت کرے گا مگر ہاں جو لڑائی کے لیے پیترا بدلتا ہو جو اپنی جماعت کی طرف پناہ لینے آتا ہو وہ مستثنیٰ ہے، باقی اور جو ایسا کر ے گا وہ اللہ کے غضب میں آجائے گا اور اس کاٹھکانا دوزخ ہوگا اور وہ بہت بری جگہ ہے۔‘‘
اس کے بعد نو عمر لڑکے نے ابوقدامہ سے تیر مانگے، ابوقدامہ نے اس شرط پر تیر دئے کہ اگر تم کو شہادت نصیب ہو تو بارگاہ خداوندی میں میری شفاعت کرنا، لڑکے نے وعدہ کیا، وہ بالآخر شہید ہوا۔
شہادت کے وقت ابوقدامہ اس لڑکے کے پاس گئے اور شفاعت کا وعدہ یاد دلایا اس لڑکے نے کہا:
’’میں اسی ماں کا بیٹا ہوں جس نے اپنے سر کے بال کاٹ کر آپ کی خدمت میں اس لیے پیش کیے تھے کہ آپ اسے گھوڑے کی لگام میں ان سے کام لیں، اب آپ یہ زحمت گوارا کریں کہ میری ماں تک میرا سلام پہنچادیجیے گا اور ان کو میری شہادت کی خبر دے دیجیے گا۔‘‘
ابوقدامہ جب اس نوعمر لڑکے کی ماں کے پاس پہنچے تو ماں نے دریافت کیا کہ تعزیت کرنے آئے ہو، یا مبارک باد دینے آئے ہو۔‘‘
ابو قدامہ کو اس سوال پر حیرت ہوئی اور اس کا مطلب پوچھا۔ ایمانی غیرت اور جوش وحمیت میں سرشار یہ خاتون بولی:
’’اگر میرا بیٹا موت کی آغوش میں سوگیا ہے تو مجھ سے تعزیت کیجیے اور اگر وہ شہادت کی دولت سے سرفراز ہوا ہے تو میں مبارکباد کی مستحق ہو۔‘‘