دکھاوا

صبیحہ اقبال

بلڈنگ کی سیڑھیوں پر قدم رکھتے ہی ہچکیوں کے ردھم، سسکیوں کے تواتر اور بین کی آواز نے اُس کے قدم پکڑلیے اور ایمان کو یہ سمجھنے میں قطعاً کوئی دقت پیش نہیں آئی کہ یہ آواز سولیجہ صاحب کے فلیٹ سے آرہی ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون…اس کے منہ سے بے اختیار گواہی نکلی: رب کا حکم یہی ہے کہ اپنے آپ کو رب کی امانت سمجھو اور امانت کی ادائیگی کے لیے ہمہ وقت تیار رہو۔ یہی اطاعت کی معراج ہے، عبودیت کی انتہا ہے۔ ایمان نے سوچا۔

ابھی پچھلے ماہ ہی تو ایمان اپنی فیملی کے ساتھ اس آرکیڈ میں شفٹ ہوئی تھی۔ سیٹنگ کی مشغولیت اور بچوں کی مصروفیت میں وقت ہی نہیں مل رہا تھا کہ گردوپیش کی کچھ خبر ہو، البتہ کسی کے کراہنے کی آواز اس کی توجہ ضرور اپنی جانب مبذول کرالیتی۔ رات عاشر کی طبیعت کی خرابی کے سبب وہ رات بھر جاگی تو مسلسل پوری رات کھانسنے اور کراہنے کی آواز پر اس نے تہیہ کرلیا کہ وہ صبح ضرور پڑوس میں خیریت کے لیے جائے گی۔ اس کی ہمدرد اور غم گسار طبیعت نے فیصلہ کرلیا کہ اگر سب سے قریبی پڑوسی ہونے کے باوجود وہ لوگ ان سے ملنے نہیں آئے تو کیا ہوا، وہ تو حق ہمسائیگی نبھائے گی کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے اس کی بڑی تاکید کی ہے۔

’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ، آپ کی نئی پڑوسن ایمان۔‘‘ ایمان نے گیٹ پر آنے والی خاتون سے اپنا تعارف کرایا۔

’’آئیے، آئیے ایمان تشریف لائیے۔ ایمان خود چل کر آئے یہ تو ہماری خوش نصیبی ہے۔‘‘ خاتونِ خانہ خاصی ملنسار لگ رہی تھیں۔ وہ ایمان کا ہاتھ پکڑ کر خوب صورتی سے سجے سجائے ڈرائنگ روم کی طرف لے آئیں…

’’اور کیسی ہیں آپ؟‘‘ ایمان نے راہ و رسم بڑھائی۔

’’اللہ کا شکر ہے آپ کی دعا ہے، بس سسر صاحب بیمار رہتے ہیں، ہر وقت کی تیمار داری ہے، اسی لیے وقت کا پتا نہیں چلتا کہ صبح کب ہوتی ہے اور کب شام۔ صبح بچوں کو تیار کرکے اسکول رخصت کرو، پھر میاں صاحب کو ناشتہ پانی کے بعد آفس روانہ کرکے جو ذرا گھڑی بھر کو آنکھ لگ جائے تو بہو بہو کی گردان ہونے لگتی ہے۔‘‘ میزبان خاصی دلبرداشتہ لگ رہی تھیں۔

’’ارے بھئی بزرگوں کی خدمت تو نصیب والوں کے حصے میں آتی ہے۔ اللہ قبول فرمائے، آسانی فرمائے اور صحت سے نوازے۔‘‘ ایمان نے پڑوسن کا حوصلہ بڑھایا۔

’’کیا بیماری ہے آپ کے سسر کو؟‘‘ ایمان نے بڑی ہمدردی سے سوال کیا۔’’رات کو ان کے کراہنے کی آواز آتی رہی۔‘‘

’’کوئی ایک بیماری ہو تو بتاؤں۔ ابھی کھانسی ہے ابھی بخار، کبھی سرمیں درد تو کبھی ٹانگوں میں شکایت، اچھے بھلے کھاتے پیتے ہیں، لیکن ہر دم کمزوری کا رونا الگ… آپ ہی بتائیں کہ تین بچوں کے ساتھ آج کل کی مہنگائی کو فیس کرنا، بچوں کی فیس، یوٹیلٹی بلز، کھانا پینا، آنا جانا، لینا دینا، دکھ سکھ سبھی کچھ تو لگا ہوا ہے انسان کے ساتھ… ایسے میں ان کی روز ایک بیماری کے لیے دوا کہاں سے لاؤں اور روز روزڈاکٹر کے ہاں کیسے لے کر جایا جائے!‘‘ میزبان جیسے بھری بیٹھی تھیں۔

’’ارے میں نے آپ کا اسمِ گرامی تو پوچھا ہی نہیں۔‘‘ ایمان نے میزبان کو بدمزہ ہوتے دیکھ کر بات کا رخ بدل دیا۔

’’جی مجھے صومیہ کہتے ہیں۔‘‘ مسکراتے ہوئے جواب آیا۔ ’’ارے ابا جی کی باتوں میں اپنی بات تو میں بھول ہی گئی۔ کیا لیں گی ٹھنڈا یا گرم۔‘‘

’’نو تھینکس! اس وقت تو صرف آپ کا تعارف حاصل کرنے اور خیریت لینے آئی تھی، ٹھنڈا گرم بعدکے لیے اٹھا رکھیں۔‘‘

’’نہیں نہیں، آپ پہلی مرتبہ ہمارے گھر آئی ہیں، ویسے ہی تونہیں جائیں گی، بس ابھی گئی اور ابھی آئی۔‘‘ صومیہ یہ کہتی ہوئی باہر کی جانب لپک گئی۔

’’آہ… آہ…‘‘ کراہ پر اس نے آواز کی سمت کا تعین کرکے کھڑکی کا بھاری پردہ کھسکا دیا۔ اُف… ایمان کو لگا کہ کسی مریض کا کمرہ نہیں بلکہ بے ترتیب پڑا ہوا اسٹور روم، ادھ کھلی الماریوں سے جھانکتے کپڑے اور دوسری چیزیں، میز پر گندے برتن اور بے ترتیب پڑی کچھ دوائیوں کی شیشیاں، جھلنگا پلنگ پر ملگجے کپڑوں میں ملبوس ایک مدقوق سا جسم، جس پر جسم سے زیادہ ڈھانچے کا گمان ہو، اور تعفن زدہ بستر… اور دیوار کی اِس جانب طریقے، سلیقے، قرینے، خوش ذوقی کا منہ بولتا ثبوت ڈرائنگ روم۔ اس نے بے دلی سے پردہ برابر کردیا۔

دل چاہا کہ اٹھ کر واپس آجائے کہ صومیہ ٹرالی میں بڑی نفاست کے ساتھ لذتِ کام و دہن کا سامان لیے مسکراتی ہوئی داخل ہوئی۔ پتا نہیں کیوں ایمان کو اس کی یہ مسکراہٹ نری پیشہ ورانہ لگی، جس میں خلوص کا کوئی عنصر نہ ہو۔ ’’ارے آپ کھڑی کیوں ہوگئیں! بیٹھیں ناں!‘‘ صومیہ نے ایمان کا ہاتھ پکڑ کر اسے زبردستی نرم و گداز صوفہ پر بٹھا کر پلیٹ اس کے ہاتھ میں پکڑا دی۔

’’آہ… اللہ…‘‘ ٹوٹے الفاظ اس کی سماعت سے ٹکرائے تو وہ پہلو بدل کر رہ گئی۔ خستہ تازہ بسکٹ اس کے حلق میں پھنس رہے تھے۔ ’’صومیہ تمہارے سسر شاید تکلیف میں ہیں، ان کی آواز سے محسوس ہورہا ہے۔‘‘ ایمان نے اس کی توجہ اُن کی جانب مبذول کرانی چاہی۔

’’ارے وہ تو اسی طرح کرتے رہتے ہیں، کوئی اور کام جو نہیں۔‘‘ اسے شدید شاک لگا اور اس کے لیے وہاں بیٹھنا ممکن نہ رہا۔

’’اگر کوئی خصوصی غذا دینی ہو تو مجھے بتادیں، میںبنادیا کروں گی، آخر پڑوسی جو ہوئی۔ جو آپ کے بزرگ وہ میرے بزرگ، اور بزرگوں سے دعائیں لینے کا مجھے بڑا شوق ہے۔‘‘ ایمان صومیہ کے سوئے جذبات کو جگانا چاہ رہی تھی۔

’’نہیں ایمان بہت شکریہ، میں خود بھی ان کا بہت خیال رکھتی ہوں، لیکن تکلیف تو دور نہیں کرسکتی ناں۔ حالانکہ بابا کے دو بیٹے اور بیٹیاں اور بھی ہیں مگر لگتا ہے انہیں تو باپ کی کوئی پروا ہی نہیں۔ ساری ذمہ داری میری اور میرے شوہر کی ہی رہتی ہے۔‘‘

’’اچھا اب میں چلتی ہوں، کوئی بھی خدمت میرے لائق ہو تو بلا تکلف مجھے بتانا۔‘‘ صومیہ پھر دل کے پھپھولے پھوڑنے لگی تو ایمان نے واپسی ہی میں عافیت جانی، لیکن یہ واپسی بڑے بوجھل دل کے ساتھ ہوئی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کیا والدین بھی اپنی اولاد کو کبھی بوجھ سمجھ کر پالتے پوستے اور خدمت کرتے ہیں۔ لیکن نہیں، اپنے بچوں کی خدمت تو ہم بڑی خوش دلی کے ساتھ کرتے ہیں، ان کی ہر چھوٹی بڑی خواہش کو پورا کرنے کی فکر میں بسا اوقات اپنی آخرت بھی برباد کرنے سے گریز نہیں کرتے، اسی لیے اسے فتنہ کہا گیا۔ اور دوسری طرف والدین کی نافرمانی کرکے، ان کو نظر انداز کرکے اپنی آخرت برباد کرتے ہیں۔ اسی لیے والدین کی نافرمانی پر سخت وعید ہے۔ بے شک وہ جانتا ہے فطرتِ انسانی کو۔ وہ جذبوں کا موازنہ کرتی رہی، توازن بنتا بگڑتارہا اور وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ جس رب نے ممتا کا داعیہ رکھا، اسی رب نے بچوں کی تربیت کی ذمہ داری بھی ڈالی۔ اگر اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے ادا کیا جائے تو جو صورتِ حال فی زمانہ ہے وہ سنبھل جائے گی۔

گاہے بگاہے وہ خیال کرکے سولیجہ صاحب کے لیے نرم غذا تیار کرکے بھیجتی رہی کہ ہوسکتا ہے رب کو اس کی یہ نیکی ہی پسند آجائے اور اس کی مغفرت کا سامان ہوجائے، کہ رب سے محبت کی سیڑھی کا پہلا قدم اس کے بندوں سے محبت ہے۔ اور آج سولیجہ صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ پڑوسی ہونے کے ناتے اس کاسولیجہ صاحب کے ہاں جانا لازمی تھا۔ گھر بہوؤں، بیٹوں، بیٹیوں، دامادوں اور ان کے مختلف العمر بچوں سے بھرا ہوا تھا۔ کچھ دور و نزدیک کے دوسرے لوگ بھی جمع تھے اور سب کی آہ و بکا سے کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔ کوئی سینہ پیٹ رہا تھا تو کوئی بال نوچ کراظہار غم کررہا تھا۔ عجیب منظر تھا اور ایمان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی تو سولیجہ صاحب ہیں جن کے جیتے جی کسی کو گھنٹہ دو گھنٹے کی فرصت نہیں ہوتی تھی کہ آکر ان کے پاس بیٹھے۔ ان کی ضروریات کا خیال کرے، ان سے باتیں کرکے ان کا دل بہلائے تاکہ مریض اپنے آپ کو دھرتی کا بوجھ سمجھ کر جیتے جی نہ مرجائے۔

’’ارے بھئی نہلانے کا تختہ کسی اچھی جگہ سے لانا، کبھی خلیق صاحب کی طرح کا آجائے اور لوگ کہیں کہ کم از کم تختے کا انتظام تو صحیح کیا ہوتا۔‘‘

’’دیکھنا کفن کے ساتھ تو بس معمولی ہی عطر ہوتا ہے، ذرا بڑھیا عطر بھی لے لینا۔‘‘

ایک کے بعد ایک آواز کانوں میں پڑرہی تھیں۔ ’’بھائی ابا کی مٹی کے بعد کیا اور کتنا کھانا بنوانا ہے، آرڈر ابھی دے دو پھر وقت پر تیار نہیں ہوتا، اور بھر پور پکوانا ورنہ لوگو ںکا کیا ہے کہنے لگتے ہیں باپ کے مرنے پر بھی کنجوسی ہی کی، انہیں دوسرے کے غم کا احساس تھوڑا ہی ہوتا ہے۔ یہ صفورا آپا تھیں بڑی صاحبزادی۔ ’’بھیا ڈیکوریشن بھی مناسب لینا، میرے سارے سسرال والے ہوں گے، تم تو جانتے ہو ان لوگوں کو، کسی کے غم کا احساس نہیں ہوتا، بس اپنی حیثیت کا تعین ہوتا رہتا ہے۔‘‘ طہورہ بی کو بھی لوگوں کا خوف کھائے جارہا تھا۔ ہاتھوں میں پکڑی تسبیح کے دانے بھی مسلسل گرتے رہے اور سارے مسائل بھی ڈسکس ہوتے رہے۔ نواسیاں اور پوتیاں سروں پر مفلر نما دوپٹے جمائے ہاتھوں میں سپارے پکڑے میت کے ارد گرد بیٹھ کر اپنے نانا، دادا کی زندگی کی کچھ یادیں تازہ کررہی تھیں اور ہر ایک یہ باور کرانے کی کوشش میں تھا کہ مرنے والے کو وہ سب سے زیادہ پیارا تھا۔ پیارا ہوگا، یقینا ہوگا، جس طرح کسان بیج سے زیادہ کھیتی سے محبت رکھتے ہیں اور اس کھیتی کی خاطر ہی تو بیج کو زیرِ زمین ڈال دیتے ہیں، اور جب کونپلیں پھوٹتی ہیں تو بیج کو بھول کر ان کی آبیاری میں لگ جاتے ہیں۔ نانا، نانی اور دادا، دادی بھی ایسے ہی کسان ہوتے ہیں۔ اپنے بچوں کو بھول کر اُن کے بچوں کی فکر میں گھلنا ان کا روگ بن جاتا ہے، اور جب یہ بچے بڑے ہوتے ہیںتو اپنی اولاد بھی ان کی خاطر دور ہوتی چلی جاتی ہے، بالکل اس بوڑھے کسان کی طرح جس کے ہاتھوں کا لگایا ہوا درخت تناور ہوکر اس کی دسترس سے بہت دور ہوجاتا ہے اور اس کے پھل کو وہ حسرت و یاس سے تکتا رہتا ہے۔ یہی حال سولیجہ صاحب کا تھا کہ خاندان بڑا تھا لیکن دسترس سے دور۔ اور اب صومیہ سب کے درمیان بیٹھی سسر کی محبت و شفقت کی داستانیں سنا رہی تھی اور بتارہی تھی کہ وہ اپنے سسر کا سوئم کس دھوم دھام سے کرے گی، کیا کیا پکوائے گی اور کس کس کو بلوائے گی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں