وہ شام مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں اور میرے ساتھی ٹرسٹیان زیرِ تعمیر مسجد کے بارے میں مسجد کی نامکمل عمارت کے باہر کھڑے محوِ گفتگو تھے۔ ہم فکر مند تھے کہ مسجد کے لیے اراضی سرکار سے حاصل تو کرلی ہے مگر اس پر مسجد کی عمارت تعمیر کرنا بھی ایک اہم مسئلہ ہوتا ہے۔ اکثر مسجدیں اللہ کے خیرخواہ بندوں کے چندوں سے تعمیر ہوتی ہیں اور مسجدوں کے اخراجات بھی ایسے ہی مخیر حضرات کے عطیات اور چندوں پر ہی منحصر ہوتے ہیں۔ اللہ کا گھر ’’مسجد‘‘ جس کی فکر بندوں سے زیادہ بذاتِ خود اللہ جل شانہ کو ہوتی ہے، لیکن جدوجہد کرنا بندوں کا کام ہوتا ہے۔ تعمیرِ مسجد کے لیے اللہ کے مخیر بندے اپنے جھولی کا دہانہ کھول دیتے ہیں اور پھر عالیشان مسجد تعمیر ہوجاتی ہے۔
ہم جس بستی میں مقیم ہیں یہ ایک نئی بستی ہے جسے سرکاری ادارے نے بسایا ہے۔ یہاں ہر مذہب کے لوگ آباد ہوچکے ہیں۔ مسلمانوں کی بھی اچھی خاصی آبادی ہے۔ سرکاری ادارے کے منصوبے کے تحت یہاں ہر مذہب کے لوگوں کو ان کی ضروریات، جیسے مسجد، مندر، چرچ اور گردواروں کے لیے قطعۂ اراضی ادارے کی جانب سے سستے داموں پر مہیا کی جاتی ہیں۔ مسلمانوں نے بھی مسجد کے لیے زمین حاصل کی اور مسجد کا سنگِ بنیاد رکھا۔ اب مسجد کی عمارت پہلے مرحلے میں ایک منزل تک پہنچ چکی تھی اور مزید دو منزلے تعمیر ہونا باقی تھے۔بس اسی بات پر ہم ٹرسٹیان غوروخوض کررہے تھے کہ ہمارے قریب ایک شخص آکر کھڑا ہوگیا۔ اس کے ایک ہاتھ میں صندوق تھا۔ ہم اپنی گفتگو میں مصروف رہے۔ وہ شخص بہت دیر تک اپنا چہرہ بسورے ہوئے خاموش کھڑا رہا۔ مجھے محسوس ہوا شاید یہ شخص کچھ کہنا چاہتا ہے۔ شاید کسی کا پتہ، ٹھکانہ وغیرہ دریافت کرنا چاہتا ہے…
’’کیا بات ہے؟‘‘ میں نے اس اجنبی سے پوچھا۔
اجنبی ہمارے بہت قریب آیا۔ اس کے چہرے سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتا ہے مگر کہہ نہیں پا رہا ہے، شاید جھجک رہا تھا۔
’’بولو بھئی بولو، کیا بات ہے؟ کیا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے پھر سوال کیا۔
آخر کار اس اجنبی نے خاموشی توڑی، اپنی زبان کھولی: ’’م…م… میں جام نگر کا رہنے والا ہوں… مسافر ہوں… اس شہر میں کسی ضروری کام سے آیا تھا… ریلوے اسٹیشن پر کسی نے میرا بٹوہ چرالیا ہے۔ … میری جیب کٹ چکی ہے…‘‘ پھر وہ خاموش ہوا۔ ہم سمجھ گئے کہ وہ ایک ضرورتمند ہے۔ چہرے مہرے سے وہ اجنبی ایک شریف آدمی لگ رہا تھا۔ لباس بھی صاف ستھرا تھا۔ اس کے رخسار پر ہلکے سے داڑھی کے بال جھانک رہے تھے۔ ظاہر ہے مسافت شروع کرنے سے پہلے اس نے اپنا چہرہ بنایا ہوگا، مجھ کو اس پر ترس آنے لگا۔
’’اسٹیشن پر میں نے اپنی روداد ایک غیرمسلم بھائی کو سنائی تو اس نے کہا تھوڑی دوری پر ایک مسجد تعمیر ہورہی ہے تمہاری برادری کے، تمہاری ذات کے لوگ آباد ہیں، اُن سے جاکر ملو۔ شاید وہ لوگ تمہاری سمسیا کو حل کریں۔ بس میں یہاں اسی امید پر آیا ہوں کہ میرے جام نگر جانے کا بندوبست ہوجائے۔ مجھے اور کچھ نہیں چاہیے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ رونے لگا۔
ہم نے اس کی ڈھارس بندھائی، اسے تسلی دی۔ اور مسجد میں ایک گوشے میں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ مسجد کے خادم سے اسے پانی وغیرہ دینے کے لیے کہا۔ جب وہ اجنبی ہم سے تھوڑے فاصلے پر چلا گیا تب ہم نے فیصلہ کیا، ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے۔ہم تینوں نے اپنے اپنے بٹوؤں کے منہ کھولے اور اتنی رقم جمع کرلی کہ وہ اپنی منزل پر بآسانی پہنچ سکے، راہِ زاد بھی ادا کردیا۔
جب ہم جمع شدہ رقم اس شخص کے حوالے کررہے تھے، تب وہ ڈھاڑیں مار کر رونے لگا۔ کہنے لگا’’اللہ آپ لوگوں کو اس کا اجر دے، آپ لوگوں کو توانائی دے، آپ کی روزی میں برکت دے، ہمیشہ خوش رکھے۔ میں اس دن کو زندگی بھر کبھی نہیں بھولوں گا۔ یہ احسان مجھے ہمیشہ ہمیشہ یاد رہے گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جانے لگا تب میں اچانک اس سے مخاطب ہوا۔
’’بھائی صاحب آپ اپنا پتہ اور ٹیلی فون نمبر دیجیے تاکہ ہم آپ سے رابطہ قائم کرسکیں۔‘‘
اس نے قلم نکالا ایک پرچی پر اپنا نام ،دو ٹیلی فون نمبر اور جام نگر شہر کا پتہ لکھ دیا اور شکریہ کہتے ہوئے اپنی راہ لی۔
اس کے چلے جانے کے بعدہم آپس میں گفتگو کرنے لگے۔ ’’آدمی سیدھا معلوم ہوتا ہے، بے چارہ پریشانی میں مبتلا ہے۔ یقینا اچھے گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ جب اپنی منزلِ مقصود پر پہنچے گا تو ہم رابطہ قائم کریں گے۔‘‘
چند روز گزر جانے کے بعد میں نے اس کے دیے ہوئے نمبر پر فون کیا۔ دونوں فون نمبر deadمل رہے تھے۔ اسی لیے فون پر رابطہ قائم نہ کرسکا۔ سوچا کیوں نہ خط لکھا جائے۔ فوراً خط تحریر کیا:
’’جناب عثمان شریف صاحب!
السلام علیکم
اللہ جلِ شانہ کی ذات سے امید ہے کہ آپ خیریت سے اپنے دولت کدے پر پہنچ گئے ہوں گے۔ آپ کے دیے ہوئے نمبروں پر رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی مگر دونوں ٹیلی فون نمبر ڈیڈ لائن کا پیغام پہنچا رہے تھے۔ یقینا لائن میں کوئی خرابی ہوگی۔ ہم بھی یہاں پر خیریت سے ہیں۔ ہم سبھی ٹرسٹیان آپ کے بارے میں فکر مند ہیں۔ فرصت ملے تو حالات سے آگاہ کرائیں۔ والسلام
آپ کا خیر خواہ…… پنویل
چند دن گزرنے کے بعد شہر جام نگر سے جواباً ایک خط موصول ہوا، جو انگلش میں تحریر تھا، مگر زبان اردو تھی۔ خط کی بولی اس طرح تھی:
جناب ٹرسٹی صاحب! السلام علیکم
عثمان علی شاہ قادری جام نگر میں ایک سال سے رہتے تھے۔ ہمارے مکان میں بھاڑے (کرائے) سے۔ وہ ٹابیز (تعویذ) اور دیشی ڈورا (گنڈے) کا کام کرتے تھے۔ چار مہینے پہلے وہ بِنا بتائے یہاں سے چلے گئے ہیں۔ ان سے ہمارا کوئی بھی رشتہ نہیں ہے۔ وہ قادری سید ہیں اور ہم بخاری سید ہیں۔ وہ پنویل سے ہمارے گھر اب تک نہیں پہنچے ہیں۔ وہ بنگلور کے رہنے والے ہیں۔ ان کے بارے میں ہمیں اس سے زیادہ کچھ معلومات نہیں ہے۔ جو آپ نے پوچھا ہم نے جواب دے دیا۔ فقط
ثریا… جام نگر
خط پڑھنے کے بعد میں خلاء میں گھورتا رہا… سوچتا رہا… کیا آئندہ بھی کسی اجنبی کی مدد کرنی چاہیے؟اس کے اعمال اس کے ہم راہ… یہ سوچ کر اپنے خیالات کو جھٹک دیا۔ ——