۷؍ستمبر کو دہلی ہائی کورٹ میں ہونے والے طاقت ور بم دھماکے نے ایک بار پھر ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس دھماکے میں تا حال ۱۳؍افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ یہ دھماکہ جن دہشت پسندوں کی کارروائی ہے، انھوں نے ملک اور ملک کی تفتیشی ایجنسیوں کو گم راہ کرنے اور تحقیقات کو ایک خاص رخ دینے کے لیے اپنی دانست میں جو انداز اختیار کیا، وہ کافی عجیب و غریب اور حیرت انگیز تھا۔ اس دہشت گردانہ کارروائی کے فوراً بعد پولیس کو فرضی ناموں سے ای میل بھیجے گئے، جن میں حرکت الجہاد اور انڈین مجاہدین جیسی فرضی تنظیموں کے ذریعے اس بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے کی بات کہی گئی تھی۔
ای میل بھیجنے والے ہندو نوجوان تھے، جنھوں نے فرضی ناموں سے تازہ بنائی ہوئی آئی ڈیز سے ای میل کیے اور دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی۔ چنانچہ ہمارے میڈیا اور تفتیشی ایجنسیوں نے بھی ’’حسبِ روایت‘‘ وہی بات جو وہ ہر دھماکے پر کہتے آئے ہیں کہہ کر ملک کو یہی بتانے کی کوشش کی کہ یہ دہشت گردانہ حملہ بھی نام نہاد مسلم تنظیموں حرکۃ الجہاد اور انڈین مجاہدین کی کارستانی ہے۔ مگر تاحال جو کچھ گرفتاریاں ہوئیںیا جن لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا، ان میں سے کوئی بھی قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکا۔
دہلی ہائی کورٹ کے بھیڑ بھاڑ والے اس گیٹ پر ہونے والا یہ دھماکہ ایسے وقت میں کیاگیا، جب دہشت گردی کی علامت کے طور پر جانا جانے والا واقعہ ۱۱؍ستمبر عین قریب تھا اور پوری دنیا اس واقعہ کی برسی کے قریب تھی۔ اس طرح ہندوستان میں ہونے والا یہ دہشت گردانہ حملہ ۱۱؍ستمبر سے بہ آسانی جڑ گیا اور اسے ۱۱؍ستمبر کے واقعے سے جوڑ کر پوری دنیا نے دیکھا بھی اور بنیادی طور پر دنیا کو یہی پیغام دیا گیا کہ یہ بھی ’’ریڈیکل مسلمانوں‘‘ کی حرکت ہے۔ اس طرح وہ عناصر جنھوں نے یہ گھناؤنی حرکت انجام دی اپنے جزوی مقصد میں کامیاب ہوئے کیونکہ ۱۱؍ستمبر کے تبصروں میں یہ بھی شامل ہوگیا۔ امریکی صدر باراک اوبامہ کو دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کے لیے ایک اور Justificationمل گیا اور امریکی قوم کے لیے ہمدردیاں سمیٹنے کا ایک اور موقع نصیب ہوگیا۔
ہندوستان میں دہشت گردانہ حملوں کی تاریخ امریکہ پر دہشت گردانہ حملے سے زیادہ قدیم ہے۔ پہلے یہاں دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے بہ آسانی سکھ نوجوانوں کو موردِ الزام ٹھہرادیا جاتا تھا مگر بعد میں یہ ٹرینڈ تبدیل ہوگیا اور اب، خاص طور پر، امریکہ کے ۱۱؍ستمبر کے بعد، ہر دھماکہ اور دہشت گردانہ کارروائی کو مسلم نوجوانوں کے سر منڈھا جانے لگا۔ اس طرح سیکڑوں بے گناہ مسلم نوجوانوں کی زندگیاں تباہ ہوئیں۔ نہ جانے کتنے نوجوان پولیس کے ٹارچر سے زندہ لاش بن کر رہ گئے۔ کتنے آج بھی لاپتہ ہیں اور دنیاکو اچھی طرح معلوم ہے کہ کتنے بے گناہ مسلم نوجوان آج بھی جیلوں میں سڑ رہے ہیں حالانکہ ان کی بے گناہی کا اعتراف حکومتی اداروں نے بھی کرلیا ہے۔
دراصل گزشتہ چند سالوں میں ہندوستان میں دہشت گردی کا ایک اورچہرہ سامنے آیا ہے مگر نہ جانے کیوں حکومت اور اس کے تفتیشی ادارے اس چہرے کو عوام کے سامنے لانے سے کتراتے ہیں۔ یہ چہرہ مالیگاؤں، ناندیڑ، مکہ مسجد اور سمجھوتہ ایکسپریس میں ہوئے دھماکوں کے بعد سامنے آیا۔ عوام جانتے ہیں کہ سوامی اسیمانند اور پرگیا سنگھ ٹھاکر کو کس لیے گرفتار کیا گیا تھا اور انھوں نے کن کن دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی۔ ان دونوں افراد کا تعلق براہِ راست شدت پسند ہندو تنظیموں سے تھا۔ سوامی اسیمانند نے مکہ مسجد، اجمیر، مالے گاؤں اور سمجھوتہ ایکسپریس میں ہوئے دھماکوں کے بارے میں واضح طور پر بتایا تھا کہ یہ بھگوا دہشت گردوں کی کارستانی ہے۔ جبکہ آج بھی درجنوں مسلم نوجوان ان دھماکوں کے لیے جیل میں بند ہیں۔
مکہ مسجد دھماکہ کے سلسلے میں گزشتہ دنوں آندھرا پردیش کے وزیرِ اعلیٰ نے مسلم نوجوانوں کی گرفتاری اور طویل مدت جیل پر مسلمانوں سے معذرت کی تھی اور گرفتار شدگان کو دو دو لاکھ روپئے بطورِ معاوضہ دینے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ ہوسکتا ہے یہ سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے کیا گیا اعلان ہو، مگر یہ اس بات کو تو واضح کردیتا ہے کہ وہ لوگ بے گناہ تھے اور انھیں بے گناہی کے باوجود کئی سال جیل میں گزارنے پڑے اور نہ جانے کس قدر شدید پولیس کے ٹارچر کا شکار ہونا پڑا۔
اور اب مالے گاؤں میں ہوئے بم دھماکہ کے مسلم ملزمین کی بے گناہی کا خود نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (NIA)نے اعتراف کیا ہے۔ اس اعتراف سے جہاں خوشی ہے کہ درجنوں بے قصور مسلم نوجوان باعزت بری ہوجائیں گے وہیں ملک کی تفتیشی ایجنسیوں کی نااہلی، تعصب اور خراب کارکردگی پر افسوس بھی ہوتا ہے۔ اور یہ افسوس اس وقت اور زیادہ شدید ہوجاتا ہے جب ان کی ذمہ داریوں اور ان کے رول کو ملک کی ترقی، امن وامان اور فرقہ وارانہ فضا کو بہتر بنائے رکھنے کے سیاق و سباق میں دیکھتے ہیں۔ ان کی جلد بازی، جھوٹی ستائش اور تمغوں کی خواہش نے ملک کو کس قدر نقصان پہنچایا، اس کا اندازہ شاید وہ کبھی نہ کرسکیں اور اس کی بھرپائی کے لیے طویل مدت اور بڑی محنت درکار ہوگی۔
دہلی ہائی کورٹ کے اس دھماکے نے مسلمانوں کو ایک بار پھر تشویش میں مبتلا کردیا تھا۔ مگر شاید وزیرِ اعظم منموہن سنگھ کو مسلمانوں کے کرب اور ان کی بے گناہی کا اندازہ تھا، اس لیے انھوں نے اپنے ایک بیان میں واضح طور پر ایسا اشارہ دیا تھا کہ بے گناہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار نہ کیا جائے۔ شاید اس کے پیچھے ان کا یہ اندیشہ بھی ہو کہ یہ کارروائی بھی انہی عناصر کی ہوسکتی ہے، جنھوں نے مالیگاؤں اور مکہ مسجد میں دہشت گردی کی۔ جو بھی ہو، ان کے اس بیان سے مسلمانوں نے ایک اطمینان ضرور محسوس کیا اور لگا کہ شاید اب وقت آرہا ہے کہ حقیقت میں جو گناہ گار ہیں ان تک پہنچا جاسکے گا اور حقیقی مجرمین کا پتہ لگا کر قرار واقعی سزا دی جاسکے گی۔
یہ تحریر لکھے جانے تک اس دھماکہ کو ایک ہفتہ سے زیادہ گزرچکا ہے مگر ابھی تک مجرمین کا کوئی سراغ نہیں لگایا جاسکا۔ چنانچہ اس بات پر حیرت ہے کہ چند ہی گھنٹوں میں ’’بڑے بڑے حادثات کے مجرموں تک پہنچ جانے والی‘‘ پولیس اور تفتیشی ایجنسیاں آخر اس حادثے کے مجرمین کا پتہ ابھی تک کیوں نہیں لگاپائی ہیں اور اگر پتہ لگ گیا ہے تو انہیں عوام کے سامنے لانے میں کوئی تردد تو نہیں ہورہا ہے۔
اِدھر وزیرِ داخلہ نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ دہلی ہائی کورٹ بم دھماکہ ملکی انتہا پسندوں کا کام بھی ہوسکتا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب سرحد پار کی دہشت گردی کی طرف انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی۔ اگر وزیرِ داخلہ یہ سمجھتے ہیں تو انھیں سیکورٹی ایجنسیوں کو نئے رول کے لیے تیار کرنا ہوگا اور یقینا اس سے ملک میں امن و امان کی فضا بھی قائم ہوگی اور فرقہ واریت کا بھی قلع قمع ہوسکے گا۔ مگر اس کے لیے حکومتی سطح پر مضبوط قوت ارادی اور انصاف پسندانہ طرزِ فکر و عمل کی ضرورت ہوگی۔
شمشاد حسین فلاحی