قرآن کریم نے اہل علم کی رفاقت و صحبت اور ان کے مقام و مرتبے کو بڑی اہمیت دی ہے۔
قرآن کریم کی بعض آیات پڑھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں طبیعاتی یا انسانی علوم مردا ہیں یا دینی علوم، مثلا: ’’اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے تاروں کو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ معلوم کرنے کا ذریعہ بنایا۔ دیکھو ہم نے نشانیاں کھول کر بیان کردی ہیں ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں۔‘‘ (الانعام:۹۷)
اس آیت میں نجوم (ستارے) اور اشیاء سے مراد علمِ دین نہیں ہے۔ اس طرح : ’’اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش، اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے۔ یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانش مند لوگوں کے لیے۔‘‘
عالمین (علم رکھنے والے) یعنی زبانوں اور رنگ و نسل کے اختلاف کا حتی کہ: ’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں۔‘‘ (فاطر:۲۸)
یہ آیت بھی کائناتی اور انسانی علوم کے تناظر میں آئی ہے:
’’کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے اور پھر اس کے ذریعے سے ہم طرح طرح کے پھل نکال لاتے ہیں، جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ پہاڑوں میں بھی سفید، سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں پائی جاتی ہیں، جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔‘‘
ثَمَرَاتٌ مُّخْتَلِفًا اَلْوَانُہَا یعنی نباتیات کا علم، یعنی علم الارض اور علم زولوجی۔
مِنَ النَّاسِ وَالدَّوَابِّ وَالْاَنْعَامِ (فاطر:۲۸) ’’اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں۔‘‘
یعنی علم حیوانات و انسان۔ یہ سارے علوم رکھنے والے علما اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمُؤُا کے زمرے میں آتے ہیں۔ یہاں کچھ علما کائنات، حیات اور انسان کے اسرار کے ماہر علما ہیں۔ یہ وہ علم ہے جس کے بارے میں ہمارے علما کا کہنا ہے کہ اس کا سیکھنا فرض ہے۔ طب، انجینئرنگ، فزیا لوجی، کیمیا اور حیاتیاتی علوم ایسے ہیں کہ امت ان کے اندر گہرا رسوخ پیدا کیے بغیر نہ ترقی کرسکتی ہے اور انہ اپنے وفاع کی صلاحیت حاصل کرسکتی ہے، بلکہ خود اپنی ذاتی ضروریات بھی پوری نہیں کرسکتی۔
او ریہ فطری امر ہے کہ ان علوم کے ذریعے ہم اللہ تعالیٰ کی معرفت بھی حاصل کرتے ہیں۔ ایک کتاب کا عنوان ہے: ’’طب محرابِ ایمان ہے‘‘ کیوں کہ جب ایک طبیب اور ڈاکٹر انسانی جسم اور ان اشیاء پر غور و خوض کرے گا تو یہ چیز اس کے لیے اللہ تعالیٰ پر کامل یقین اور ا سکی معرفت کا باعث ہوگی۔ علما کہتے ہیں کہ دنیاوی علوم کا سیکھنا فرض کفایہ ہے۔ اگر امت کے کچھ افراد بھی ان علوم کو اس قدر حاصل نہیں کرتے جو امت کی ضروریات پوری کرسکتے تو ساری امت گناہ گار ہوگی۔ لیکن ایک علم وہ بھی ہے جس سے مراد علم نبوت لیا جاتا ہے۔ مثلاً حدیث ہے: ’’انبیاء درہم و دینار وراثت میں چھوڑ کر نہیں جاتے بلکہ علم ورثے میں چھوڑتے ہیں۔ جو شخص بھی اس علم کو حاصل کرے گا گویا اس نے بہت بڑی نعمت کو حاصل کرلیا۔‘‘ یہ علم نبوت ہے۔ اور انبیاء کے وارث تو علمائے دین ہی ہیں۔ یعنی عقیدہ، شریعت اور اخلاقیات کے علما، جو اللہ کی طرف لوگوں کی رہ نمائی کرتے ہیں، لوگوں کے ہاتھ پکڑ کر انہیں صراطِ مستقیم پر گامزن کرتے ہیں۔ یہی وہ علم ہے جس کا تذکرہ ایک دوسری حدیث میں بھی آتا ہے۔ یعنی علم نبوت اور ہدایت الٰہیہ کا علم۔ ’’اس علم کا حامل بعد کے اُن عادل افراد میں سے ہوگا جو اس علم کو مبالغہ آمیزوں کی مبالغہ آرائی، باطل پسندوں کے بطلان سے بچائیں گے۔مختصر یہ کہ ہر علم سے مراد علم دنیا نہیں اور ہر علم سے مراد علم نبوت بھی نہیں ہے۔ بلکہ کچھ خاص اہل علم ہی انبیاء کے وارث ہیں۔ اور یہی ہیں جنہوں نے رسول اللہﷺ سے علم نبوت کی وراثت پائی اور آپؐ نے یہ وراثت اپنے سابق انبیائے کرام سے حاصل کی۔ یعنی اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ہَدَی اللّٰہُ فَبِہُدٰھُمُ اقْتَدِہ (الانعام:۹۰) ’’اے نبیؐ وہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے، انہی کے راستے پر تم چلو۔‘‘lll