عَنِ النَّبِیِّﷺ قَالَ اِنَّ الدِّیْنَ یُسْرٌ، وَلَنْ یُّشَادَّ الدِّیْنَ اَحَدٌ اِلاَّ غَلَبَہٗ، فَسَدِّدُوْا وَ قـَـارِبُوْا وَابْشُـرُوْا وَاسْتَعِیْنُوْا بِالْغَــدْوَۃِ وَالرَّوْحَــۃِ وَ شَیْئٌ مِـنَ الدُّلْجـَـۃِ۔ (بخاری)
ترجمہ: نبی ﷺ نے فرمایا: یہ دین (اسلام) آسان ہے اور دین سے جب بھی مقابلہ کیا جائے گا، وہ مقابلہ کرنے والوں کو شکست دے دے گا، پس تم لوگ سیدھے راستہ پر چلو، شدت پسندی اور غلو سے بچو، اور اپنی نجات سے مایوس نہ ہو خوش رہو، کہ تم کو نجات ملے گی ان شاء اللہ، اور کچھ صبح کو چل لو، کچھ شام کو چل لو اور کچھ رات میں چل لو۔
تشریح: دین آسان ہے یعنی اس کے احکام آسان ہیں۔ ہر شخص آسانی کے ساتھ اِس دین پر عمل کرسکتا ہے، اور دین سے مقابلہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دین نے جو آسانیاں دی ہیں اس پر بس نہ کرتے ہوئے کوئی شخص شدت پسندی اختیار کرے گا تو بالآخر عاجز ہو جائے گا اور جو پابندیاں اس نے اپنے اوپر لازم کرلی ہیں انھیں نبھا نہیں سکے گا، پس شدت پسندی سے بچانے کے لیے فرمایا دین کی سیدھی راہ پر چلو، شدت پسندی اور غلو سے بچو، اپنی نجات سے مایوس کیوں ہوتے ہو، فرض نمازوں کے علاوہ کچھ صبح کو کچھ شام کو اور کچھ رات کے آخر میں نفلیں پڑھ لیا کرو، اس بات کو نبیﷺ نے نہایت مؤثر انداز سے پیش کیا کہ مومن کی مثال مسافر کی سی ہے جو مسافر ٹھنڈے وقت میں شام اور صبح سفر کرتا ہے اور کچھ رات میں راستہ طے کرتا ہے تو یہ خیریت اور آرام سے اپنی منزل مقصود پر پہنچ جاتا ہے اور جو مسافر راستہ طے کرنے میں دن و رات ایک کر دیتا ہے ایسا مسافر بالآخر تھک کر کہیں بیٹھ جاتا ہے اور منزل پر نہیں پہنچتا، اس مثال سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ مومن دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کے سفر میں ہے، تو منزل مقصود جنت تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ دن و رات عبادت میں مشغول رہے کچھ صبح میں، کچھ شام کو اور کچھ رات کے آخری حصہ میں نوافل پڑھ لے تو ان شاء اللہ اپنی منزل پر پہنچ جائے گا، یہ تہجد، یہ اشراق اور چاشت کی نفلیں اسی کی عملی شکلیں ہیں جنھیں نبیؐ نے اپنی اُمت کے سامنے پیش کیا۔
یہاں یہ بات یاد رکھیے، یہ بشارت ان لوگوں کو دی جا رہی ہے جو اونچے درجہ کے نیک اعمال کرنے کے باوجود اپنی نجات سے مایوس ہو رہے تھے کہ بھلا اعمال کی اتنی تھوڑی پونجی سے سلامتی کے گھر جنت میں کیسے جگہ پاسکیں گے۔