دین میں نماز کی اہمیت

ابوالفضل نور احمد

نماز بندے کی طرف سے خدا کی خدائی کا اعتراف ہے۔ اس خدائی کے بے شمار پہلو، ان گنت شکلوں میں انسان کے اوپر اس طرح ظاہر ہیں کہ انسان اگر ہمیشہ حالتِ ذکر میں رہے تب بھی ان کا حق ادا نہیں کرسکتا۔ اورنماز کے ذریعہ اصلاً جو چیز مطلوب ہے وہ یہی ہے کہ بندہ ہر وقت خدا کا فرمانبردار بنا رہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمتِ خاص سے دینِ اسلام کی یہ خوبی رکھی ہے کہ انسان اپنی عملی زندگی کے تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی اطاعت سامنے رکھے تو اس کے تمام کام عبادت کا درجہ حاصل کرلیتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر اگر کسی مریض کا علاج کررہا ہے اور اس کا نظریہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور اس کے ایک بندے کا علاج کررہا ہے اور وہ اس کے درد کو اپنا درد محسوس کرتا ہے اور اس وقت تک چین نہیں لیتا جب تک اس مریض کی تکلیف کا ازالہ نہیں ہوجاتا تو اس ڈاکٹر کا سارا عمل عبادت اور نیکی میں شمار ہوتا ہے۔ اس طرح ایک استاد کا یہ تصور کہ وہ خدا کے بندوں کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کررہا ہے اور انہیں علم کے ذریعے خدا شناسی کے مدارج سے آشنا کررہا ہے تو اس کا یہ عمل بھی عبادت اور نیکی بن جاتا ہے۔ ایک دکاندار رزقِ حلال کے حصول کی نیت سے دکان پر جاتا ہے تو اس کا یہ عمل بھی اس کے لیے عبادت اور نیکی کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔ اس طرح ایک ماں اپنے بچے کی پرورش کے مقصد سے دن کو مشغول رہتی ہے اور راتوں کو جاگتی ہے تو اس وقت ماں کا یہ تصور کہ وہ خدا کی مخلوق اور اپنے سپرد خدائی امانت کی پرورش کا فرض انجام دے رہی ہے اور اپنی ممتا کی فطرت کو ذمہ داری سے نبھا رہی ہے تو اس کا یہ سارا عمل بھی نیکی اور عبادت میں شمار ہوتا ہے۔ اگر ماں کا ارادہ اور عمل یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی تربیت و تعلیم سے اپنی اولاد کو خدا شناسی سے بہرہ ور کرے گی اور خدا کی اطاعت و فرمانبرداری کا مجسمہ بنائے گی تو اس ماں کا یہ عمل بھی اس کی بہت بڑی نیکی اور عبادت شمار ہوگا۔

لیکن ان نیکیوں اور عبادات میں خلوص و استقامت اور للہیت پیدا کرنے کے لیے اسلام نے عبادات کے ارکان اربعہ کا ایک نظام ترتیب دیا ہے۔ اسلام کی ہر عبادت ایک خاص روح کی حامل ہے اور اس کی ترکیب ایسی رکھی گئی ہے کہ وہ اپنے اصل مقصد یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے حصول کا مقصد پورا کرتے ہوئے انسانی زندگی کے دیگر فطری لوازمات اور ضروریات کو بھی پورا کرتی ہے۔ مثلاً: نماز جس طرح اللہ تعالیٰ کی یاد اور ذکر کاایک منظم ذریعہ ہے بیک وقت وہ خواہشات اور منکرات سے روکنے کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ اسی طرح اس سے جماعت بندی ہوتی ہے اور نماز باجماعت کا تصور سماجی زندگی میں ایک ادارے کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔ پیغمبر ﷺ کے زمانے میں مسجد کو واقعی ایک ادارے کی حیثیت حاصل تھی۔پیغمبر ﷺ نماز کا سلام پورا کرنے کے بعد دونوں طرف صفوں پر نظر دوڑا کر معلوم کرتے تھے کہ آج ہمارا کون سا ساتھی نماز میں شریک نہیں ہوسکا اور پھر اس کی وجہ معلوم کرتے تھے اگر وہ بیمار ہوتا تھا تو اس کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تھے اور اگر وہ کسی اور مسئلہ میں الجھا ہوتا تو اس میں اس کے غمخواررہتے تھے۔ قرآن مجید میں نماز کی دو قسمیں آئی ہیں۔ ایک جگہ فرمایا گیا ہے:

واقم الصلوٰۃ لذکری۔ (طٰہٰ: ۱۴)

’’اور میری یاد کے لیے میری نماز قائم رکھ۔‘‘

اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے مقصوداپنی فرمانبرداری ہے اور نمازاس فرمانبرادری کا ایک عمل اظہار ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ فرمانبرداری ہمیشہ کے لیے مطلوب ہے۔ فرمایا:

إلا المصلینo الذین ہم علیٰ صلاتہم دائمونo (معارج: ۲۲-۲۳)

’’مگر نماز پڑھنے والے جو اپنی نماز کے اوپر ہمیشہ رہنے والے ہیں۔‘‘

یہ دائمی نماز یا ذکر کچھ رٹے ہوئے لفظ کو دہرانے کا نام نہیں۔ انسانی زندگی کے تمام افعال میں، تمام اذکار میں اللہ تعالیٰ کے احکام اور فرمانبرداری کو ملحوظ رکھنا ہی اس کی حقیقی یاد ہے۔ پھر پانچ وقت کی نماز میں، انسانی زندگی کے ان تمام افعال میں جو خدا کی فرمانبرداری سامنے رکھتے ہوئے سر انجام دیے جاتے ہیں، اس کی استقامت خدا تعالیٰ سے مانگنا یہ ’’صلاتہم دائمون‘‘ ہے۔

نماز کی دوسری قسم کو سورۃ ماعون میں بیان کیا گیا ہے۔ فرمایا:

’’کیا تم نے دیکھا اس شخص کو جو انصاف کے دن کو جھٹلاتا ہے۔ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں ابھارتا۔ پس تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز (کے اصل مقاصد) سے غافل ہیں۔‘‘

مراد یہ ہے کہ ایسے نمازی جو اپنی عملی زندگی میں انسانیت کے کام نہیں کرتے، سماج کے محروم لوگوں کی خدمت کا بیڑہ نہیں اٹھاتے اور اپنے رزق کو تقسیم کرکے نہیں کھاتے وہ حقیقت میں حساب والے دن کو سچا سمجھتے ہی نہیں۔ اگر انہیں یقین ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں حاضرہوکر ایک ایک چیز کا حساب کتاب دینا ہے اور تمام نعمتوں کے متعلق پوچھا جائے گا تو یہ لوگ ہرگز اس طرح نہیںکرتے کہ انسانیت کے کاموں سے ہاتھ نکال لیں۔ اب انہیں نام کا یا نسل کا مسلمان رہنا ہے، تو اس صورت میں وہ جو نماز پڑھ رہے ہیں، اس کے لیے ارشاد ہوا ہے کہ ’’خرابی ہے ان نمازیوں کے لیے۔‘‘بعض روایات میں ’’ویل‘‘کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ جہنم کی بدترین وادی ہے ایسے نمازیوں کو وہاں ٹھکانے لگایا جائے گا۔

اس لیے اس نماز کا لطف ہی اور ہے جس میں خدا کے سامنے پیش کرنے کے لیے انسان کے پاس کچھ موجود ہو کہ یا اللہ میں نے تیری فرمانبرداری میں خاص تیری رضا کے لیے یہ کچھ کیا ہے۔ اب تو عظمت والا ہے ساری حمد تیری ہیں، ساری ستائش تیری ہے۔ اب میرا یہ عمل قبول فرما اور تو مجھے اس راستے پر استقامت عطا فرما۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چلنے والوں کے لیے تیری نعمتیں مختص ہوئیں اور جو اس راستے پر نہیں چلے وہ گمراہ ہوئے اور تیری ناراضگی ان کا مقدر ہوئی۔

خدا اور بندے کے درمیان نماز ایک دو طرفہ عمل ہے، جس کا ایک سرا بندے کی طرف ہوتا ہے اور دوسرا خدا کی طرف۔ بندہ جب اپنے رب کو اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے یاد کرتا ہے (آل عمران:۱۹۱) تو خدا کی توجہ اسے حاصل ہوتی ہے۔ قرآن میں خدا اور بندے کی نماز کی صورت میں باہمی مواصلات کے تقاضوں سے آگاہ کیا گیا ہے:

۱- بندے کے تصور میں خدا اس طرح سماجائے کہ ہر واقعہ اس کو خدا کی یاد دلانے والا بن جائے:

’’وہ جو یاد کرتے ہیں اللہ کو کھڑے اور بیٹھتے اور لیٹتے ہوئے۔ آسمان و زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، کہہ اٹھتے ہیں، خدایا تو نے اس کو عبث نہیں بنایا۔‘‘ (آل عمران:۱۹۱)

۲-خدا کی عظمت بندے کے اوپر اتنی چھا جائے کہ اس کے خیال سے اس کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں:

’’رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اس سے کھال پر ان لوگوںکے جو ڈرتے ہیں اپنے رب سے۔‘‘ (زمر: ۲۳)

۳- خدا کا تذکرہ ہو تو بندے کا دل دہل اٹھے:

’’وہ فرمانبردار لوگ کہ جب ذکر آتا ہے اللہ کا، تو ان کے دل دہل اٹھتے ہیں۔‘‘ (انفال:۲)

۴- خدا کا کلام بندے کو رلا دے:

’’تو دیکھے کہ ان کی آنکھیں ابلتی ہیں آنسوؤں سے اس سبب سے کہ انھوں نے حق پہچان لیا۔‘‘ (مائدہ:۸۳)

۵- نماز اس کے لیے ایسی چیز بن جائے جس سے وہ ضرورت کے وقت مدد طلب کرے:

’’اے ایمان لانے والو صبر اور نماز سے مدد لو۔‘‘ (بقرہ: ۱۵۲)

حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کو پریشانی پیش آتی تو آپ نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے۔ یہی صلحائے امت کا ہمیشہ معمول رہا ہے۔ ابنِ تیمیہؒ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب کوئی بات ان کی سمجھ میں نہ آتی تو وہ کسی ویران جگہ میں چلے جاتے، نماز پڑھتے اور سجدے میں سر رکھ کر کہتے: یا معلم ابراہیم علمنی (اے ابراہیم علیہ السلام کو سکھانے والے مجھے بتادے)۔ ابو نعیم نے حضرت ابنِ مسعود سے نقل کیا ہے کہ انھوںنے کہا:

’’جب تک نماز میں ہو، تم بادشاہ کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہو اور جو بادشاہ کا دروازہ کھٹکھٹائے اس کے لیے وہ کھول دیا جاتا ہے۔‘‘

نماز مومن کے لیے، زندگی کے صحرا میں ایک نخلستان ہے۔ یہ نماز جب آدمی کو حاصل ہوجاتی ہے تو وہ اس کی محبوب ترین چیز بن جاتی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:

جعلت قرۃ عینی فی الصلوٰۃ۔ (النسائی)

’’میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔‘‘

٭احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نماز نہ پڑھنے کو انکار کی بات اور منکروں کا طریقہ قرار دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ جو شخص نمازنہ پڑھے اس کا دین میں کوئی حصہ نہیں۔چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:

’’بندے کے اور کفر کے درمیان نماز چھوڑدینے ہی کا فاصلہ ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)

٭ نماز نہ پڑھنے والوں کو قیامت کے دن سب سے پہلے جو سخت ذلت و رسوائی اٹھانی پڑے گی اس کو قرآن مجید کی ایک آیت میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے۔ جس کا مطلب اور خلاصہ یہ ہے کہ ’’قیامت کے دن (جب کہ نہایت سخت گھڑی ہوگی اور شروع دنیا سے لے کر قیامت تک کے سارے انسان میدانِ حشر میں جمع ہوں گے) اللہ تعالیٰ کی ایک خاص تجلی ظاہر ہوگی اور اس وقت پکارا جائے گا کہ سب لوگ اللہ کے حضور میں سجدے میں گرجائیں، تو جو خوش نصیب اہل ایمان دنیا میں نمازیں پڑھتے تھے اور اللہ کو سجدے کیا کرتے تھے وہ تو فوراً سجدے میں چلے جائیں گے۔ لیکن جو لوگ تندرست اور اچھے ہٹے کٹے ہونے کے باوجود نمازیں نہیں پڑھتے تھے اور اس خدا کو سجدہ نہ کرتے تھے ان کی کمریں اس وقت تختے کی مانند سخت کردی جائیں گی، اور وہ کافروں کے ساتھ کھڑے رہ جائیں گے، سجدہ نہ کرسکیں گے اور ان پر سخت ذلت و رسوائی کا عذاب چھا جائے گا اور ان کی نگاہیں نیچی ہوں گی اور وہ آنکھ اٹھا کر دیکھ بھی نہ سکیں گے۔ دوزخ کے عذاب سے پہلے ذلت وخواری کا یہ عذاب انھیں روزِ حشر اٹھانا ہوگا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں