دین پراستقامت اور دعوت

۔۔۔۔

ایمان لانے کے بعد بندے پر اللہ کی طرف سے جو خاص ذمہ داریاںعائد ہوجاتی ہیں ان میں سے ایک بڑی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ بندہ پوری مضبوطی اور ہمت کے ساتھ دین پر قائم رہے، اور خواہ زمانہ اس کے لیے کیسا ہی ناموافق ہوجائے وہ کسی حال میں دین کا سرا ہاتھ سے چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہو، اسی کا نام ’’استقامت‘‘ ہے۔ قرآن شریف میںایسے لوگوں کے لئے بڑے انعامات اور بڑے درجوں کاذکر کیاگیا ہے۔ ایک جگہ ارشاد ہے:
’’جن لوگوںنے اقرارکرلیا (اور دل سے قبول کرلیا) کہ ہمارا رب بس اللہ ہے (اور ہم اس کے مسلم بندے ہیں) پھر وہ اس پرٹھیک ٹھیک قائم رہے، (یعنی اس اقرار کاحق ادا کرتے رہے اور کبھی اس سے نہ ہٹے) ان پر اللہ کی طرف سے فرشتے یہ پیغام لے کر اتریںگے کہ کچھ اندیشہ نہ کرو اور کسی بات کا رنج و غم نہ کرو اور اس جنت کے ملنے سے خوش رہوجس کا تم سے وعدہ کیاجاتاتھا۔ ہم تمہارے رفیق ہیں دنیوی زندگی میںاور آخرت میں اور تمہارے لئے اس جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جو تمہارا جی چاہے گا، اور تمہیںوہ سب کچھ ملے گا جوتم مانگوگے، یہ باعزت مہمانی ہوگی تمہارے رب غفوررحیم کی طرف سے۔‘‘(حٰم السجدہ:۳۰،۳۲)
ایک حدیث میں ہے:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک صحابیؓ نے عرض کیاکہ: حضرت ؐ! مجھے کوئی ایسی کافی شافی نصیحت فرمائیے کہ آپؐ کے بعدپھر کسی سے کچھ پوچھنے کی حاجت نہ ہو۔ آپؐ نے ارشاد فرمایاکہو، بس اللہ میرا رب ہے اور پھر اس پر مضبوطی سے جمے رہو (اور اس کے مطابق بندگی کی زندگی گزارتے رہو)۔‘‘
قرآن شریف میں ہماری ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے کئی ایسے وفاداربندوںکے بڑے سبق آموز واقعات بیان فرمائے ہیںجو بڑے سخت ناموافق حالات میں بھی دین پر قائم رہے اور بڑے سے بڑے لالچ اور سخت سے سخت تکلیفوں کاڈر بھی ان کو دین سے نہیں ہٹاسکا۔ ان میںایک واقعہ تو ان جادوگروں کا ہے، جنہیں فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ کے لئے بلایاتھا اور بڑے انعام و اکرام کاان سے وعدہ کیاتھا۔ لیکن خاص مقابلے کے وقت جب موسیٰ علیہ السلام کے دین اور ان کی دعوت کی سچائی ان پر کھل گئی تو نہ تو انہوںنے اس کی پروا کی کہ فرعون نے جس انعام و اکرام کا اور جن بڑے بڑے عہدوں کا وعدہ ہم سے کیاہے ان سے ہم محروم رہ جائیںگے اور نہ اس کی پروا کی کہ فرعون ہمیں کتنی سخت سزا دے گا۔ بہرحال انہوںنے ان سب خطروں سے بے پرواہوکر بھرے مجمع میں پکارکر کہہ دیاکہ ’’اٰمنَّا بِرَبِّ ہَارُونَ وَ مُوسیٰ‘‘ (یعنی ہارون اور موسیٰ جس پروردگار کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں ہم اس پر ایمان لے آئے)۔
پھر جب خدا کے دشمن فرعون نے ان کو دھمکی دی کہ میں تمہارے ہاتھ پائوں کٹواکے سولی پر لٹکوادوںگا، تو انہوںنے پوری ایمانی جرأت سے جواب دیا:
’’تجھے جو حکم دیناہو دے ڈال، تو اپنا حکم بس اس چند روزہ دنیوی زندگی ہی میں تو چلاسکتا ہے، اور ہم تو اپنے سچے رب پر ایمان اس لئے لائے ہیں کہ وہ (آخرت کی ابدی زندگی میں) ہمارے گناہ بخش دے۔‘‘ (سورہ طہٰ:۷۲،۷۳)
اور اس سے بھی زیادہ سبق آموز واقعہ خود فرعون کی بیوی کا ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ فرعون مصر کی بادشاہت کا گویا اکیلا مالک و مختار تھا اور اس کی یہ بیوی ملک مصر کی ملکہ ہونے کے ساتھ خود فرعون کے دل کی بھی گویا مالک تھی، بس اس سے اندازہ کیجئے اس کو دنیا کی کتنی عزت اور کیسا عیش حاصل ہوگا۔ لیکن جب موسیٰؑ کے دین اور ان کی دعوت کی سچائی اللہ کی اس بندی پرکھل گئی تو اس نے بالکل اس کی پرواہ نہ کی کہ فرعون مجھ پر کیاظلم کرے گا، اور دنیا کے اس شاہانہ عیش کے بجائے مجھے کتنی مصیبتیں اور تکلیفیں جھیلنی پڑیںگی۔ الغرض ان سب باتوں سے بالکل بے پرواہوکر اس نے اپنے ایمان کا اعلان کردیا؟ اور پھر حق کے راستے میں اللہ کی اس بندی نے ایسی ایسی تکلیفیں اٹھائیں جن کے خیال سے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں اور کلیجہ منھ کو آتا ہے… پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو یہ درجہ ملاکہ قرآن شریف میں بڑی عزت کے ساتھ ان کاذکر کیاگیا، اور مسلمانوں کے لئے اس کے صبر اور اس کی قربانی کو نمونہ بتلایاگیا۔ ارشاد ہے:
’’اور ایمان والوں کے لئے اللہ تعالیٰ مثال بیان کرتاہے، فرعون کی بیوی (آسیہ) کی، جب کہ اس نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار! تو میرے واسطے جنت میں اپنے قریب کے مقام میں ایک گھر بنادے اور مجھے فرعون کے شر سے اور اس کی بداعمالیوں سے نجات دے اور اس ظالم قوم سے مجھے رہائی بخش دے۔‘‘ (سورہ تحریم:۱۱)
دین کی کوشش اور نصرت وحمایت
ایمان والوں سے اللہ کاخاص مطالبہ اور بڑا تاکیدی حکم ایک یہ بھی ہے کہ جس سچے دین کو اور اللہ کی بندگی والے جس اچھے طریقے کو انہوںنے سچا اور اچھا سمجھ کر اختیارکیا ہے، وہ اس کو زندہ اور سرسبز رکھنے کے لئے اور اس کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کے لئے جو کوشش کرسکتے ہوں، ضرور کریں۔دین کی خاص زبان میں اس کا نام جہاد ہے۔ اور مختلف قسم کے حالات میں اس کی صورتیںمختلف ہوتی ہیں۔
مثلاً اگر کسی وقت حالات ایسے ہوں کہ خود اپنا اور اپنے گھر والوں کا اور اپنی قوم اور جماعت کا دین پر قائم رہنا مشکل ہو اور اس کی وجہ سے خدانخواستہ مصیبتیں اور تکلیفیں اٹھانی پڑتی ہوں تو ایسے حالات میں خود کو اور اپنے گھروالوں اور اپنی قوم والوں کو دین پر ثابت قدم رکھنے کی کوشش کرنا اور مضبوطی سے دین پر جمے رہنا بہت بڑا جہاد ہے۔ اسی طرح اگر کسی وقت مسلمان کہلانے والی قوم جہالت اور غفلت کی وجہ سے اپنے دین سے دور ہوتی جارہی ہوتو اس کی اصلاح اور دینی تربیت کی کوشش کرنا اور اس میں اپنی جان ومال کھپانا بھی جہاد کی ایک قسم ہے۔
اسی طرح اللہ کے جو بندے اللہ کے سچے دین سے اور اس کے نازل کیے ہوئے احکام سے بے خبر ہیں، ان کو معقولیت اورسچی ہمدردی کے ساتھ دین کا پیغام پہنچانے اور اللہ کے احکام سے واقف کرانے میں دوڑدھوپ کرنا بھی جہالت کی ایک صورت ہے۔
اور اگر کوئی ایسا وقت ہوکہ اللہ اور رسول ؐ پر ایمان رکھنے والی جماعت کے ہاتھ میں اجتماعی قوت اورطاقت ہو اوراللہ کے دین کی حفاظت اور نصرت کے مقصد کا تقاضا یہی ہو کہ اس کے لئے اجتماعی طاقت استعمال کی جائے تو اس وقت اللہ کے مقرر کئے ہوئے قوانین کے مطابق دین کی حفاظت اور نصرت کے لئے طاقت کا استعمال کرنا جہاد ہے۔ لیکن اس کے جہاد اور عبادت ہونے کی دو خاص شرطیں ہیں: ایک یہ کہ ان کا یہ اقدام کسی ذاتی یا قومی مفاد کی غرض سے یا ذاتی قومی تعصب و دشمنی کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اصل مقصد صرف اللہ کے حکم کی تعمیل اور اس کے دین کی خدمت ہو۔ دوسرے یہ کہ اس کے قوانین کی پوری پابندی ہو۔ ان دو شرطوں کے بغیر اگر طاقت کااستعمال ہوگا تو دین کی نظر میں وہ جہاد نہیں، فساد ہوگا۔
اسی طرح ظالم وجابر حکمرانوں کے سامنے (چاہے وہ مسلمانوں میں سے ہوں یا غیرمسلموں میں سے) حق بات کہنا بھی جہاد کی ایک خاص قسم ہے، جس کو حدیث شریف میں ’’افضل الجہاد‘‘ فرمایاگیا ہے۔
دین کی کوشش اور حمایت وحفاظت کی یہ سب صورتیں اپنے اپنے مواقع پراسلام کے فرائض میں سے ہیں اور جہاد کا لفظ (جیساکہ اوپر ہم نے بتلایا) درجہ بدرجہ ان سب کو محیط ہے۔ اب اس کی تائید اور فضیلت کے متعلق چند آیتیں اور حدیثیں اور سن لیجئے:
’’اور کوشش کرو اللہ کی راہ میں جیساکہ اس کاحق ہے، اس نے (اپنے دین کے لئے) تم کو منتخب کیا ہے۔‘‘ (سورہ الحج:۷۸)
’’اے ایمان والو! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت اور ایسے سودے کاپتا دے دوں جو دردناک عذاب سے تم کو نجات دلادے؟ وہ یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ پر تم ایمان کو استوار کرو اوراس کی راہ میں (یعنی اس کے دین کے لئے) اپنے مال اور اپنے جی جان سے کوشش کرو، یہ نہایت اچھا سودا ہے تمہارے لئے، اگر تمہیں سمجھ بوجھ ہو (اگر تم نے اللہ اور رسول ؐ پر ایمان اور اس کی راہ میں جان ومال سے کوشش کی، یہ شرط کردی ، تو) وہ تمہارے گناہ بخش دے گا اور تم کو (عالم آخرت کے) ان باغوں میں داخل کردے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوںگی اور غیرقانونی جنت کے عمدہ مکانوں میں تم کو بسائیگا، یہ تمہاری بڑی کامیابی اور بامرادی ہے۔‘‘ (سورہ صف:۱۰،۱۲)
حدیث شریف میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ دیا اور اس میں ارشاد فرمایا:
’’اللہ پر سچا ایمان اور دین کی کوشش کرنا سب اعمال میں افضل ہے۔‘‘
ایک اور حدیث میں ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
’’تمھیں کسی شخص کا خدا کی راہ میں (یعنی اللہ کے دین کی جدوجہد اور اس کی نصرت وحمایت میں) کھڑا ہونا اور کچھ حصہ لینا اپنے گھر کے گوشہ میں رہ کر ستر سال نماز پڑھنے سے افضل ہے۔‘‘
خواتین کے لئے دین کی نصرت وحمایت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنے شوہروں اور اولاد کو دین کے راستہ پر چلنے میں معاون و مددگار ثابت ہوں۔ قرآن مجید میں اولادکوایک جگہ فتنہ اور ایک جگہ رحمت کہاگیاہے۔ یہ اولاد رحمت اس وقت ہوتی ہے جب گھر کے بڑے کے لئے دین کی نصرت وحمایت میں مددگار ثابت ہوتی ہو اور فتنہ اس وقت ہوتی ہے جب گھر کے بڑے کے لئے دین کے راستہ پر چلنے میں رکاوٹ بنتی ہو یا ناک بھوں چڑھاتی ہو۔
——

 

 

 

 

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146