دیکھنا ہے تو انھیں دیکھو!

مصطفی محمد الطحان ترجمانی: نسیبہ سبحانی

ہزاروں کی تعداد میں اہلِ مکہ صحابیِ رسول حضرت خبیب بن عدی کی شہادت کا نظارہ کررہے ہیں۔ اپنے دہکتے دل اور سلگتے جذبات کو تسکین دے رہے ہیںاور نعوذ باللہ محمد ؓ سے دشمنی کی بھڑکتی آگ کے تقاضوں کی تکمیل کررہے ہیں۔ وحشی انسانوں کی اس بھیڑ میں سعید بن عامر بھی موجود ہیں۔

خبیب کی شہادت کی گھڑی آن پہنچی۔ خبیب نے تختۂ دار پر چڑھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ نماز سے فارغ ہوکر خبیب لوگوں سے مخاطب ہوئے ’’خدا کی قسم! اگر تم لوگ یہ نہ سمجھتے کہ میں موت کے ڈر سے نماز کو طول دے رہا ہوں تو میں خوب لمبی نماز پڑھتا۔‘‘

سعید اپنی قوم کو دیکھ رہے ہیں۔ وہ خبیب کے زندہ جسم کا مثلہ کررہے ہیں۔ وہ خبیب کے جسم کی ایک ایک بوٹی کاٹ رہے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کیا تم پسند کرو گے کہ تمہاری جگہ محمد آجائیں اور تم کو نجات مل جائے۔ اللہ اللہ! اتنی اذیتیں جھیلنے کے بعد بھی اس بندئہ مومن کے پائے استقلال میں ذرہ برابر لرزش نہیں آئی۔ وہ صبر و عزیمت کا پیکر بنا رہا۔ اس کے جسم سے خون کے فوارے رواں تھے اور وہ کہہ رہا تھا۔ ہرگز نہیں! خدا کی قسم، میں یہ کبھی نہیں پسند کرسکتا کہ میں اپنے گھر والوں میں عافیت کی زندگی بسر کروں اور نعوذ باللہ محمد ؐ کے پائے مبارک میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے۔‘‘ ہر طرف سے آوازیں بلند ہوئیں: اسے زندہ نہ چھوڑو! اسے زندہ نہ چھوڑو۔

قریش تو اپنے اس جرم کو فراموش کربیٹھے، وہ بھول گئے کہ کچھ ہی دنوں پہلے ان کے ناپاک ہاتھوں نے کتنے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ لیکن نوجوان سعید بن عامر اس واقعہ کو نہ بھول سکا۔ خبیب کے اللہ پر یقین، رسول سے محبت اور دین پر ثابت قدمی نے ان کی زندگی کا رخ موڑ دیا۔ اب اللہ نے اسلام کے لیے ان کے دل کے کواڑ کھول دیے۔ انھوں نے قریش سے اور قریش کی بدعنوانیوں سے اعلانِ برأت کیا اور اللہ کی الوہیت اور رسول کی رسالت کی شہادت دی۔ اور ایمان و یقین کی دولت سے مالا مال ہونے کے شوق میں مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے اور رسولِ اقدسؐ کے آستانے سے وابستہ ہوگئے۔ وہ خیبر اور اس کے بعد کے تمام غزوات میں شریک رہے۔ جب رسول اقدسؐ دارِ فانی سے کوچ کرکے اپنے مولائے حقیقی سے جاملے توحضرت سعید، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے ساتھ رہے۔ اور ایک ایسے مثالی مومن کی شان سے رہے، جس نے اپنی آخرت سنوارنے کے لیے فی الواقع اس دنیا کو قربان کردیا۔ اور جو اللہ کی خوشنودی کے لیے اپنی تمام جسمانی اور نفسانی خواہشات سے دست بردار ہوگیا۔

حضرت عمر بن خطاب خلیفہ ہوئے، تو وہ ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اے عمر! میں آپ کو وصیت کرتا ہوں کہ لوگوں کے معاملے میں ہمیشہ اللہ سے ڈرتے رہیے، لیکن اللہ کے معاملے میں لوگوں سے کبھی مت ڈریے۔ اور کبھی آپ کا کوئی قول، آپ کے عمل کے برعکس نہ ہو، کیونکہ بہتر قول وہ ہوتا ہے جس کی عمل تصدیق کرے۔

اے عمر! ہمیشہ اپنا رخ سیدھا رکھیے ان مسلمانوںکے لیے جن کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو سرپرست بنایا ہے۔ چاہے وہ قریبی ہوں یا دور کے ہوں۔ ان کے لیے وہی کچھ پسند کیجیے جو اپنے لیے اور اپنے گھر والوں کے لیے پسند کرتے ہوں اور ان کے لیے وہ تمام چیزیں ناپسند کیجیے جو اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے ناپسند کرتے ہوں۔ حق کے لیے ہر بازی کھیلنے کے لیے تیار رہیے۔ اور اللہ تعالیٰ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کیجیے۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا: اے سعید! ایسا کرنا کس کے بس میں ہے؟ انھوں نے جواب دیا، یہ آپ کے بس میں ہے! اور ہر اس شخص کے بس میں ہے جسے اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کا سرپرست بنایا ہو اور اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی تیسرا نہ ہو۔

جب امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب نے معاویہ کو شام کی گورنری سے معزول کیا تو انھوں نے اپنے گردوپیش نظر دوڑائی کہ کس کو ان کی جگہ متعین کریں۔ بالآخر انھوں نے فرمایا: سعید بن عامر کو بلاؤ۔ حضرت سعید بن عامر تشریف لائے، حضرت عمرؓ نے انہیں حمص کی گورنری پیش کی۔

سعید ؓنے کہا: امیر المؤمنین مجھے اس آزمائش میں نہ ڈالیے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا اور آواز کافی بلند ہوگئی تھی، بخدا میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ کیا تم لوگ چاہتے ہو اپنی ساری ذمہ داریاں میری گردن پر ڈال کر مجھے تنہا چھوڑ دو؟

پھر ایسا ہوا کہ کچھ دنوں کے بعد امیر المؤمنین حضرت عمرؓ کے پاس اہلِ حمص کا ایک وفد آیا، جن پر حضرت عمرؓ کو پورا بھروسہ تھا۔ امیر المؤمنین نے ان سے فرمایا اپنے یہاں کے فقیروں کی ایک فہرست تیار کرو تاکہ ان کی ضرورتیں پوری کی جائیں۔ ان لوگوں نے حمص کے فقیروں کے نام لکھ کر حضرت عمرؓ کو پیش کردیے۔ جن میں سعید بن عامرؓ کا نام سرِ فہرست تھا۔ حضرت عمرؓ نے دریافت کیا یہ سعید بن عامر کون ہیں؟

انھوں نے جواب دیا: یہ ہمارے امیر ہیں۔

حضرت عمرؓ نے پوچھا: تمہارا امیر فقیر ہے؟

انھوں نے جواب دیا: ہاں، بخدا کئی کئی دن گزرجاتے ہیں اور ان کے ہاں آگ نہیں جلتی۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ پر گریہ طاری ہوگیا، پھر انھوں نے سونے کی ایک ہزار اشرفیاں دیتے ہوئے فرمایا: ان سے میرا سلام کہنا اور کہنا کہ امیر المؤمنین نے یہ آپ کی اپنی نجی ضرورت کے لیے بھیجی ہیں۔ وفد اشرفیوں کی تھیلی لیے ہوئے حضرت سعیدؓ کے پاس پہنچا۔ سعیدؓ نے اشرفیاں دیکھیں تو انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔ ان کی بیوی انا للہ سن کر بولیں کیا ہوا سعید؟

حضرت سعیدؓ نے فرمایا: دنیا میرے یہاں گھس آئی ہے کہ مجھے آزمائش میں ڈالے اور میری آخرت کو برباد کردے۔

نیک دل اور بھلائی میں مددگار خاتون نے کہا: اس سے اپنا دامن بچائیے! حضرت سعیدؓ نے ان اشرفیوں کی بہت سی تھیلیاں بنائیں اور غریبوں میں تقسیم کردیں۔

پھر کچھ عرصہ کے بعد حضرت عمرؓ حمص تشریف لائے اور اہلِ حمص سے پوچھا: تم نے اپنے گورنر کو کیسا پایا؟ تو وہ شکایتیں کرنے لگے۔ اس زمانے میں حمص کو ’’چھوٹا کوفہ‘‘ کہا جاتا تھا۔ کیونکہ وہ لوگ بھی کوفہ والوں کی طرح اپنے ذمہ داروں پر الٹے سیدھے اعتراضات کرنے کے عادی تھے۔ انھوں نے عرض کیا: ہم کو ان سے چار شکایتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ صبح سویرے ہم لوگوں سے نہیں ملتے، ہمیشہ دن چڑھے تشریف لاتے ہیں۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا: یہ تو بڑی خراب بات ہے۔ اور کیا شکایت ہے؟

انھوں نے کہا: رات میں کوئی ان سے ملنا چاہے تو اس سے نہیں ملتے ہیں۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا: یہ بھی بڑی خراب بات ہے! اور کیا شکایت ہے؟

انھوں نے کہا: مہینہ میں ایک دن ایسا ہوتا ہے کہ وہ ہمارے درمیان تشریف نہیں لاتے۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا: یہ بھی بڑی خراب بات ہے۔ اور کیا شکایت ہے؟

انھوں نے کہا: کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ان پر غشی طاری ہوجایا کرتی ہے۔

حضرت عمرؓ نے حضرت سعیدؓ کے ساتھ سب کو اکٹھا کیا اور دعا کی اللّٰہم لا تخیب رأیی فیہ الیوم۔

خدایا! سعید کے بارے میں جو میرا حسنِ ظن ہے، وہ آج غلط نہ ہوجائے! پھر مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔ حضرت عمرؓ نے سعیدؓ کے سامنے لوگوں سے پوچھا: تمہیں ان سے کیا شکایت ہے؟

انھوں نے کہا: یہ صبح سویرے ہم لوگوں سے نہیں ملتے، ہمیشہ دن چڑھے تشریف لاتے ہیں۔

حضرت عمرؓ نے حضرت سعیدؓ سے فرمایا: کہو سعید! اس کا کیا جواب ہے؟

حضرت سعیدؓ نے فرمایا: بخدا یہ ایک ایسی بات ہے جس کا میں ذکر کرنا نہیں چاہتا تھا، میرے گھر کوئی کام کرنے والی نہیں ہے۔ لہٰذا میں ہی بچوں کے لیے آٹا گوندھتا ہوں، پھر اس کے خمیر اٹھنے کا انتظار کرتا ہوں، پھر روٹی پکاتا ہوں، اس کے بعد وضو کرکے ان لوگوں کے پاس آتا ہوں۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا: اس کے علاوہ تم لوگوں کی کیا شکایت ہے؟

انھوں نے کہا: رات میں ان سے کوئی ملنا چاہے تو اسے ملاقات کا موقع نہیں دیتے۔

حضرت عمرؓ نے حضرت سعیدؓ سے فرمایا: اس سلسلے میں تم کیا کہتے ہو؟

حضرت سعیدؓ نے فرمایا: یہ بھی ایسی بات ہے جس کا میں اظہار کرنا نہیں چاہتا تھا، میں نے دن کو ان لوگوں کے لیے فارغ کردیا ہے اور رات کو اللہ عزو جل کے لیے خاص کردیا ہے۔

حضرت عمرؓ لوگوں سے مخاطب ہوئے: تم لوگوں کو سعید سے اور بھی کوئی شکایت ہے؟

لوگوں نے کہا: ہاں، مہینے میں ایک دن یہ گھر سے باہر نہیں نکلتے۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا: بھئی سعید! اس کی کیا وجہ ہے؟

حضرت سعیدؓ نے فرمایا: میرے پاس کوئی آدمی نہیں ہے جو میرے کپڑے دھودے اور میرے جسم پر جو کپڑے ہیں، ان کے علاوہ میرے پاس کپڑے نہیں ہیں۔ لہٰذا میں خود ہی یہ کپڑے دھوکر ان کے سوکھنے کا انتظار کرتا ہوں۔ پھر انھیں پہن کر دن کے آخری حصے میں باہر نکلتا ہوں۔

حضرت عمرؓ نے لوگوں سے فرمایا: اور بھی کوئی شکایت ہے؟

انھوں نے کہا: کبھی کبھی ان پر غشی طاری ہوجاتی ہے، پھر انہیں کوئی ہوش نہیں رہتا۔

حضرت عمرؓ نے فرمایا: بھئی سعید! اس کی کیا وجہ ہے؟

انھوں نے فرمایا: میں خبیب بن عدی الانصاری کی شہادت کے وقت مکہ میں موجود تھا، جب قریش ان کے جسم کی بوٹیاں کاٹ رہے تھے اور کہہ رہے تھے، کیا تم پسند کروگے کہ اس وقت تمہاری جگہ محمد آجائیں؟ اس مردِ مجاہد نے جواب دیا: ہرگز نہیں بخدا میں یہ کبھی نہیں پسند کرسکتا کہ میں اپنے بال بچوں میں رہوں، اورمحمدﷺ کے پائے مبارک میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے۔ پھر انھوں نے فرمایا: اے عمر! جب بھی میں وہ دن یاد کرتا ہوں جب میں مشرک تھا، دائرئہ ایمان سے باہر تھا، اور اس وقت میں نے خبیب کی مدد نہیں کی، تو مجھے ڈر لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے اس گناہ کو کبھی نہیںمعاف کرے گا۔ پھر مجھ پر غشی طاری ہوجاتی ہے۔ اس وقت حضرت عمرؓ بے ساختہ پکار اٹھے:’’ شکر ہے خدا کا کہ میری فراست نے خطا نہیں کی۔ میرا اندازہ بالکل صحیح نکلا۔ ‘‘حقیقت یہ ہے کہ حضرت سعیدؓ کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ انھوں نے دنیا پر آخرت کو ترجیح دی۔ اللہ کی خوشنودی اور اس کا انعام حاصل کرنے کے لیے نفسانی خواہشوں اور دنیوی لذتوں کو ٹھوکر ماردی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں