قرآن کی آیتوں نے اپنی میٹھی آواز میں دوبارہ للکارا…
’’(کہو) کیا میں خدا کے سوا اور منصف تلاش کروں؟ حالانکہ اس نے تمہاری طرف واضح مطلب کی کتاب بھیجی ہے۔‘‘
’’اور تمہارے پروردگار کی باتیں سچائی اور انصاف میں پوری ہیں، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں، اور وہ سنتا جانتا ہے۔‘‘
’’اور اکثر لوگ جو زمین پر آباد ہیں (گمراہ ہیں) اگر تم ان کا کہا مان لوگے تو خدا کا راستہ بھول جاؤگے۔ یہ محض خیال کے پیچھے چلتے اور نرے اٹکل کے تیر چلاتے ہیں۔ تمہارا پروردگار اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے، جو اس کے راستے سے بھٹکے ہوئے ہیں اور ان سے بھی خوب واقف ہے، جو راستے پر چل رہے ہیں۔‘‘
’’نہیں نہیں، نہیں۔‘‘ بیگم عشرت نے اپنے ذہن کو جھٹک دیا تاکہ وہ خالی ہوجائے اور وہ دوسرے دن کئی ہزار عورتوں کی جانب سے اُن کے اعزاز میں ہونے والے اس استقبال کا جواب دینے کے لیے اپنی تقریر کے خیالات کو جمانے کی کوشش کرسکیں۔
رات بڑھتی جارہی تھی، بیگم عشرت اپنی خوابگاہ میں لیٹے ہی لیٹے اپنے ذہن میں اپنی تقریر کا ریہرسل کرنے لگیں۔
’’یہ جیت آپ سب کی ہے۔ یہ جیت اس ملک کی اُن لاکھوں عورتوں کی ہے، جو کئی سو برس سے اپنے شوہر کے ہم پلہ ہونے کے لیے جدوجہد کررہی ہیں۔ یہ جیت مساوات کی ہے۔ یہ جیت نازک صنف پر پڑنے والے وار کو روکنے کی ایک ڈھال ہے۔ سب مذاہب کے نزدیک شوہر اور بیوی زندگی کی گاڑی کے دو برابر کے پہیے ہیں۔ لیکن اسلامی قانون نے ایک پہیے کو کمزور کردیا تھا۔ ایک مسلمان شوہر اس بات کا پورا اختیار رکھتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو بغیر کوئی وجہ بتائے طلاق دے دے۔ ایک بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کرلے۔ یہ انصاف نہیں ہے۔ ہم اس بے انصافی کے خلاف میں جدوجہد کرتے ہوئے کامیابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔‘‘
موافق اور مخالف پہلو لیے جب کوئی تصفیہ طلب بات ذہن میں آجاتی ہے تو وہاں ایک ہائی کورٹ کا سماں بن جاتا ہے اور سوچنے والی دماغی قوتیں دو حصوں میں بٹ کر وکلاء کی طرح اس کیس کی مدافعت اور پیروی کرتی ہیں، اس لیے قرآن کی آیتوں میں بیٹھے ہوئے مؤکل نے پھر شہادت دی۔
’’اور تمہارے پروردگار کی باتیں سچائی اور انصاف میں پوری ہیں، اس کو کوئی بدلنے والا نہیں اور وہ سنتا اور جانتا ہے۔‘‘
’’اوں ہنھ، اونھ ہونھ۔ نہیں نہیں۔‘‘ بیگم عشرت نے اس بار کسی قدر آواز سے کہا۔ مطلب تھا کہ وہ اپنے دماغی کورٹ کا اجلاس نہیں چاہ رہی ہیں، اسے التوا میں رکھنے کی کوشش کررہی ہیں۔
’’کمال ہے۔‘‘ بیگم عشرت کے شوہر اقبال نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا:’’آپ ادھر رخ کیے ہوئے ہیں، اور میرے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو دیکھ رہی ہیں۔‘‘
اقبال کے ہاتھ کو اپنی بیگم کے جسم پر گرفت مل گئی۔
’’نہیں، نہیں۔‘‘ بیگم عشرت نے کہا۔ لیکن گرفت مضبوط تر ہوگئی۔
کسمساتی ہوئی بیگم عشرت نے پوچھا:
’’کل جو جلسہ ہورہا ہے، وہاں آپ میرے ساتھ رہیں گے نا؟‘‘
اقبال نے جواب دیا’’مجھے آپ کی تنظیم اور اس کی تحریک سے کوئی ہمدردی اور لگاؤ نہیں ہے، اس لیے اُسے میری حمایت نہیں ملے گی۔ میں اگرآپ کے ساتھ رہوں گا تو لوگ سمجھیں گے کہ میں بھی اس تحریک کی موافقت میں ہوں۔‘‘
بیگم عشرت کروٹ لے کر بولیں:’’میرا خیال ہے کہ آپ فراخ دل اور وسیع النظر آدمی ہیں۔ آپ جب اس تحریک کے مخالف بن جاتے ہیں تو مجھے اپنے تصور پر شک ہونے لگتا ہے۔
اقبال کو ہنسی آئی۔ انھوں نے بیگم کو کھینچتے ہوئے کہا:’’شوہر اور بیوی کے درمیان خدا نے فرشتوں کو بھی جانے سے منع کردیا ہے۔ ازدواجی تعلقات اپنا قانون خود ہی بنالیتے ہیں۔ ایسا قانون بہتر ہے۔ اسلامی قانون میں اتنی لچک ہے۔ اس میں حکومت کی طرف سے مداخلت پیدا کرنے کے مطالبہ کی آپ کی کوششیں مناسب نہیں ہیں۔ ابھی تو صرف بل پیش کرنے کا تصفیہ کیا گیا ہے۔ اب بھی آپ لوگوں کو سنبھل جانے کا موقع ہے، غور کیجیے۔‘‘
’’یہ انصاف نہیں ہے کہ مرد اپنی بیوی کی موجودگی میں ایک سے زیادہ شادیاں کرے۔ جب دل چاہے طلاق دے دے۔ یہ عورت پر ظلم ہے۔‘‘
اقبال کو پھر ہنسی آئی اور وہ بولے: ’’آپ کی تنظیم یا تو جذباتی عورتوں پر مشتمل ہے، یا سطحی خیال کے مردوں کی پشت پناہی حاصل کررہی ہے۔ اس بات کا بھی مجھے اندازہ ہورہا ہے کہ اسے بے تعلق فرقوں کے تنگ نظر اور حاسد عناصر کی بھی شہ مل رہی ہے، تاکہ ہمارا اچھا ڈھانچہ ٹوٹ جائے اور انہیں تسکین ملے۔‘‘
’’یہ میری بات کا جواب نہیں ہے۔‘‘
’’آپ نے جو باتیں بیان کی ہیں عشرت، وہ انتہائی محدود ہیں۔ غیر معمولی حالات میں وہ بطورِ دوا یا ٹانک استعمال میں آنا چاہئیں۔ اگر آپ کی تنظیم کو اس بات کی شکایت ہے کہ لوگ دوا کو غذا کی طرح استعمال کررہے ہیں تو اسے روکنے کا شعور پیدا کرنے کے لیے علاحدہ قسم کی تحریک چلائی جاسکتی تھی۔ اپنی ہی مثال لے لو۔ اگر آپ کی رفاقت میں مجھے بھر پور زندگی کا لطف مل رہا ہو تو میں کیوں چاہوں گا کہ اپنی شریکِ حیات کی حیات میں کوئی اور شریک ہوجائے۔‘‘
’’لوگوں کو ہوس بھی ہوسکتی ہے۔‘‘
جنھیں دوسری شادی کی محض ہوس ہوسکتی ہے، ویسے لوگ زیادہ نہیں ہوتے۔ اگر قانون بن جائے تب بھی وہ غیر قانونی طور پر دوسری عورت سے رابطہ رکھیں گے ہی۔ ایسے مستثنیات کو روکنے کے لیے قانون کی نہیں، بلکہ پُر اثر سماجی ردِ عمل کی ضرورت ہے۔‘‘
’’اچھا ایک بات بتائیے۔ ہماری شادی کو پورے پانچ برس ہوگئے، لیکن ہمیں اولاد نصیب نہیں ہوئی۔ آپ نے کتنی بار اس تمنا کا اظہار کیا تھا کہ اپنے آنگن میں کسی ہمکتے ہوئے بچے کو آپ دیکھیں۔ وہ تو اچھا ہوا کہ پچھلے ماہ میں نے آپ کو خوش خبری دے دی، ورنہ آپ کو شک تھا کہ میرے اندر ہی کوئی خامی ہے۔ ایمانداری سے بتائیے کہ کیا یہ بات آپ کے ذہن میں نہیں تھی کہ آپ دوسری شادی کرلیں گے تب ہی آپ اولاد کی دولت سے نامحروم نہیں رہیں گے۔‘‘
’’فرض کرلو کہ میں نے یوں ہی سوچا تھا۔ تب یہ قانون مکمل ہوجائے تو بھی آپ کو طلاق دے دوں گا اور دوسری شادی کرلوں گا۔‘‘
’’نئے قانون میں اس وجہ کی بناء پر آپ کو طلاق دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘
’’جو وجوہ دی جائیں گی، میں انہی میں سے کوئی وجہ پیدا کرلوں گا۔ اپنی بیوی کے ساتھ تعلقات خراب کرلوں گا۔ گھر چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ ملک چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔ خاموشی کے ساتھ زہر دے دوں گا۔‘‘
’’افوہ۔‘‘ عشرت گھبرا کر بولیں۔’’آپ مجھ سے مخاطب ہوکر یوں مثالیں دے رہے ہیں تو مجھے کس قدر وحشت ہورہی ہے، آپ اندازہ نہیں کرسکتے۔‘‘
ایسی مثالوں سے بھی دل دھڑکتا ہے نا! جانے دو۔ اپنی تنہائی میں باہر کی اِن بوجھل باتوں کو زیادہ آنے نہیں دیں گے۔ اپنا سیدھا سادا قصہ تو یہ ہے کہ آپ ہماری رگ رگ میں دوڑتی ہیں۔ عشو سوئٹی فرشتے بھی اب جارہے ہیں۔ دیکھا آپ نے۔ دیکھا آپ نے‘‘ اقبال نے اپنی بیگم کو اپنی جانب کھینچا تو اُن کے منہ سے ایک دبی ہوئی چیخ نکلی جو اقبال کے خیالوں میں فرشتوں کے چلے جانے کی علامت تھی۔ اقبال کے ہاتھوں کی گرفت پھیلی اور ازدواجی رشتے کی لاقانونیت اپنا قانون بنانے میں مصروف ہوگئی۔
٭٭
کئی منٹ تک پُرجوش تالیاں بجتی رہیں۔ کئی ہزار عورتوں کا مجمع تالیاں پیٹ رہا تھا۔ بیگم عشرت بہت متاثر ہوئیں۔ سب کا خیال تھا کہ اس کامیابی کا سہرا بیگم عشرت کے سر ہے، کیوںکہ انھوں نے ہی مسلمان عورتوں کے حقوق کی بات اٹھانے میں پہل کی تھی۔ ان کی بنائی ہوئی تنظیم سخت مخالفتوں کے باوجود بہت تیزی کے ساتھ پھیلتی گئی۔ اس کی شاخیں ملک کے سب ہی حصوں میں قائم ہوئیں تاکہ رائے عامہ کو ہموار کیا جاسکے۔ اُن کے کہنے کے مطابق اُن کی اس تنظیم کی مخالفت صرف مسلمان مرد کررہے تھے۔ بہت سے دوسرے مردوں کی انھیں حمایت حاصل تھی۔ عورتوں کے ساتھ دینے میں کوئی مذہبی تخصیص نہیں تھی۔
اس کے بعد اسلامی قانون کے اس حصے کو بدلنے کی بات ایک بل کی شکل میں پارلیمنٹ میں آئی، جس کی رو سے اب مسلمان مرد اپنی بیوی کی موجودگی میں زیادہ شادیاں نہیںکرسکیں گے۔ احتجاج کرنے والے احتجاج کرتے ہی رہ گئے۔ بل لوک سبھا اور اس کے بعد راجیہ سبھا میں پاس ہوا۔ اُسے صدر کی رضا مندی مل گئی۔ اب وہ بل قانون بن گیا۔
ملک کے تمام اخباروں میں بیگم عشرت کی تصویر نمایاں تھی اور ان کی زبردست کامیابی کو خوب سراہا گیا تھا۔ انھوں نے اپنے ملک کی کمزور عورت کو اپنے شوہر کے ہم پلہ کردیا تھا۔ اب شوہر اپنی بیوی کی حق تلفی اور اس کے احساس کو مجروح کرنے کی جرأت نہیں کریں گے۔ اب شوہر کے اِس حق کو کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق جب بھی چاہے اور وجہ بتائے بغیر اپنی بیوی کو طلاق دے دے، محدود کردیا گیا۔
صبح کو شہر کے ایک بڑے گراؤنڈ میں عورتوں کا جلسۂ عام تھا، جس میں بیگم عشرت کا استقبال کیا جارہا تھا۔ یوں پتہ چل رہا تھا کہ ہر خاتون اپنے ساتھ ایک ہار لے کر آئی ہے کیونکہ ڈائس پر پھولوں کا ایک بڑا انبار تھا۔ بیگم عشرت کہتی گئیں، تالیاں بجتی رہیں۔ جب جلسہ برخاست ہوا تو کئی عورتوں نے بیگم عشرت کو گھیر لیا۔ سب شخصی طور پر انھیں مبارکباد دینا چاہتی تھیں۔
بیگم ثمینہ نے انھیں بڑی مشکل سے نکالا اور انھیں لیے اپنی کار کی طرف بھاگنے لگیں۔ کار میں بیٹھ کر دونوں ہانپ رہی تھیں اور دونوں ہنس رہی تھیں۔ بیگم عشرت ہاتھ ہلاتی رہیں اور بیگم ثمینہ نے فوراً کار اسٹارٹ کی۔ جب اسے فتار مل گئی تو بولیں: ’’میں آج بے انتہا خوش ہوں عشرت! یوں محسوس ہورہا ہے کہ یہ کامیابی سب کی نہیں صرف میری ہے۔ صرف میری کامیابی ہے۔‘‘
’’کوئی خاص بات ہے کیا؟‘‘ عشرت نے پوچھا۔
’’کار شاہراہ پر آگئی۔
’’تم پوچھ رہی ہو تو میں بتاؤںگی کہ بات خاص ہی ہے۔ تم شاید میری بات کو سمجھیں بھی نہیں۔‘‘
ثمینہ نے ونڈ اسکرین کے اوپر اپنے مقابل لگے ہوئے آئینے میں دیکھا، پیچھے سے آنے والی گاڑیوں کو نہیں بلکہ اپنے ہونٹوں پر لگی ہوئی لپ اسٹک کو۔ اپنے دونوں ہونٹوں کو ایک دوسرے پر یوں مسلا جیسے کوئی ایک برس کا بچہ بسکٹ کا چورا منہ میں گھولتے وقت کرتا ہے۔ آئینے کے ذریعے اس بات کا اعتراف کرلینے کے بعد کہ لپ اسٹک کی یکسانیت ہونٹوں کے حصوں پر برقرار ہے، ثمینہ نے ذرا سا سر ہلا کر عشرت کو دیکھا۔ ثمینہ کے ہونٹوں پر بہت ہی میٹھی مسکراہٹ تھی۔
اپنے بالوں کے ہیئر پن کو درست کرتے ہوئے عشرت بولی۔ ’’میں قطعی نہیں سمجھی۔‘‘
’’ارے بھئی میں، ہمارے مسٹر کی نمبر دو ہوں نا۔‘‘
’’اچھا…!‘‘ عشرت نے اس لفظ کو بہت زور سے اور طول کھینچ کر حیرت کا اظہار کیا اور بولی مجھے معلوم نہیں تھا۔ تب خطرہ نمبر ایک کو ہے یا نمبردو کو۔‘‘
’’خطرہ ہو میرے دشمن کو‘‘ ثمینہ تنک کر بولی ’’پہلی بیولی دیوانی ہے۔ دماغ کا کوئی کل پرزہ گھس گیا ہے۔ تین برس تک سعید نے علاج کروایا۔ نا امید ہوگئے تو مجھ سے شادی کرلی۔‘‘
’’اور وہ دیوانی…؟‘‘ عشرت نے پوچھا
’’سسرال میں رہتی ہے۔ میرا مطلب ہے سعید کے والدین کے ہاں۔ سعید اخراجات بھیجتے ہیں۔ بہت پابندی کے ساتھ۔ کبھی کبھی اسے گھر پر لاتے ہیں تو یقین مانو میرا خون کھول جاتا ہے۔ وہ دیوانی بچوں کی طرح حرکتیں کرتی ہے، ناچتی ہے گاتی ہے۔ میں نے تو عشرت ایک بار لکڑی اٹھا کر اسے ماردیا تھا۔‘‘ ثمینہ ہنسنے لگی، پھر آگے بولی ’’سعید کو خراب لگا۔ میں نے بہت بار سعید سے کہا کہ اُسے پاگل خانے میں شریک کردو، نہیں تو اس کے بھائی کے ہاں بھیج دو، ہم اس کے لیے اپنا وقت اور پیسے کیوں ِضائع کریں۔‘‘
’’پھر؟‘‘ ثمینہ خاموش ہوئی تو عشرت نے پوچھا۔
’’تب بھی سعید کو برا لگتا ہے۔ میں برداشت کررہی ہوں، لیکن آخر کب تک میں برداشت کروں، کیا زندگی بھر بھگتنا پڑے گا؟ نہیں اب سعید کے سامنے دو راستے ہوں گے۔ انھیں ہم دونوں میں سے کسی ایک کو طلاق دینا ہوگا۔ مجبوراً انھیں دیوانی کو چھوڑنا پڑے گا۔‘‘
’’ہاں، تم سچ کہہ رہی ہو۔‘‘ عشرت بولی ’’سعید بھائی تمہیں چاہتے ہیں نا؟‘‘
’’بے انتہا۔ میری کسی بات کو رَد نہیں کرتے، بشرطیکہ بات پہلی بیوی کے متعلق نہ ہو۔ اور میں اُس کی یاد انھیں نہ دلاؤں۔‘‘
’’یاد دلاؤ تو کیا ہوتا ہے۔‘‘
’’تب بہت دیر تک ان پر اداسی کا دورہ پڑجاتا ہے۔ اُن کے کہنے کے بموجب میں اُن کا موڈ بگاڑ دیتی ہوں۔‘‘
’’اوہ،‘‘ عشرت بولی ’’شکر ہے کہ ہماری زندگی پر کسی اس قسم کے گھناؤنے بادل کا سایہ نہیں ہے۔ بس ذرا سا شک ہوتے ہوتے رہ گیا۔‘‘
’’شک کیسا؟‘‘ ثمینہ نے رفتار بڑھاتے ہوئے پوچھا
’’پانچ برس تک امید مجھ سے دور تھی۔ اب پانچ برس کے بعد مجھے تیسرا مہینہ لگا ہے۔ اب وہ مجھے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ اب میں زیادہ دلکش ہوگئی ہوں۔‘‘
’’اوہو، کن گراجولیشن ڈیئر۔‘‘
’’تھینکس!‘‘ عشرت نے جواب دیا اور اس کے بعد چونک کر بولی ’’ہم فراٹے بھرتے ہوئے شہر کی حدود سے باہر نکل رہی ہیں۔ پروگرام کیا ہے؟‘‘
’’ہاہا، میں نے تمھیں بتایا ہی نہیں، لیکن یہ بات طے شدہ ہے نا کہ آج کا دن میرے ساتھ گزارنے میں تمہیں اعتراض نہیں۔‘‘
’’قطعی نہیں، کبھی نہیں۔‘‘
’’تو سنو، میرے ہسبنڈ نے تاج محل میں جھٹ پٹ لنچ کا انتظام کیا ہے۔ بمبئی کے وہ سارے سیٹھ جنھوں نے کسی نہ کسی صورت میں ہمیں مالیہ دیا تھا اور بہت سے ایم ایل اے جنھوں نے ہماری ہمت افزائی کی ہے، وہ سب آنے کے لیے رضا مندی ظاہر کرچکے ہیں۔ تمہاری موجودگی ظاہر ہے کہ بہت ضروری ہے۔ لنچ کے بعد ٹی ٹائم تک ایک مزاحیہ مشاعرہ ہے۔ ’’دو بیویاں والے‘‘ کے عنوان سے۔ خیر ہمیں مشاعرہ سے کیا لینا ہے۔ لنچ ختم ہوتے ہی دوبارہ میں تمھیں مجمع میں سے اڑالوں گی اور شام کو اقبال بھائی کی سیکوریٹی میں دے دوں گی۔‘‘
’’مجھے اڑانے کی پریکٹس تم نے کرلی ہے۔‘‘
دونوں ہنسنے لگیں، خوب بے تحاشا۔ ہنسی ختم ہونے کے بعد ثمینہ گنگنانے لگی۔ موٹر فراٹے بھررہی تھی۔ پھر ثمینہ بولی ’’کھنڈالہ گھاٹ کی دلکش خنکی مجھے ہمیشہ گنگنانے کے لیے اکساتی ہے۔ اسی جگہ جہاں سے گھاٹ کے شروع ہونے کے آثار آنے لگتے ہیں۔ میں بے ساختہ گاتی ہوں۔ اچھا عشرت تم لڑکا چاہتی ہو یا لڑکی؟‘‘
’’رفتار زیادہ ہے ثمینہ۔‘‘ عشرت نے کسی قدر پریشانی سے کہا اور اس کے بعد جواب دیا: ’’جو خدا کی مرضی۔ میری مرضی پوچھو تو مجھے اول نمبر پر لڑکا چاہیے، انھیں بھی لڑکے کی آرزو ہے۔‘‘
’’اپنے لیے میری بھی ایسی ہی خواہش ہے۔ لیکن فی الحال ہم نے اسے پوسٹ پونڈ کررکھا ہے۔ ہم اسے تشریف لانے کے لیے پاسپورٹ نہیں دے رہے ہیں۔‘‘
عشرت نے ہنس کر پوچھا: ’’کیوں بھلا؟‘‘
’’ہمارے مسٹر کے سر میں فارن جانے کی دھن سوار ہے، سنا ہے کہ باہر بچے کی پرورش کرنا بہت جھنجھٹ ہے۔‘‘
’’میں نے بھی یوں ہی سنا۔‘‘ عشرت بولی اور دوبارہ تیزی سے بولی: ’’کار بہت تیز ہے ثمینہ۔ اسّی میل رفتار زیادہ ہے۔ اس جگہ کے لیے بہت زیادہ ہے۔ پروا نہیں اگر ہم لیٹ ہوجائیں۔ آدھا گھنٹہ ہوں گے، پون گھنٹہ ہوں گے زیادہ سے زیادہ دیر ہوگی۔ اب توگھاٹ آگئے۔‘‘
ثمینہ نے چیخ ماری۔
’’عشرت بریک فیل ہوگیا۔ گھاٹ آگئے اور بریک گیا۔ یا اللہ میںکیا کروں۔ عشرت میں کیا کروں۔‘‘
وہ مسلسل چیخنے لگی۔
’’پٹرول بند کردو۔ رفتار کم کردو۔ فرسٹ گیئر۔‘‘عشرت چلائی ’’ہینڈ بریک استعمال کرو۔‘‘
’’پٹرول بند کردیا۔ اس ڈھلوان پر کچھ کام نہیںکرتا۔ ہینڈ بریک بھی نہیں۔‘‘
’’لاری آرہی ہے سامنے سے، ثمینہ ثمینہ اوخدا۔ ‘‘
’’کنٹرول سے باہر ہے۔ بچاؤ بچاؤ بچاؤ۔‘‘
فضا میں ثمینہ اور عشرت کی طویل چیخیں گونجیں۔ اس کے بعد ایک زور دار آواز آئی جو دونوں کی آوازوں پر حاوی ہوگئی۔
خواہش اور توقع کے خلاف کوئی بدقسمت واقعہ جب صدمے اور نقصان کی لَے پر اُداس راگ الاپتا ہے تو اسے حادثہ کہتے ہیں۔ موٹر کئی سو فٹ کی بلندی سے گر گئی۔ کراہوں کی آواز بھی نہیں آئی۔
سنّاٹا اور اندھیرا…!
آہستہ آہستہ عشرت کو ہوش آنے لگا۔ وہ اندر ہی اندر اور آپ ہی آپ کراہنے لگی۔
’’میں کہاں ہوں۔ میں کہاں ہوں۔ یہ ہسپتال معلوم ہوتا ہے۔ ایسا پتہ چل رہا ہے کہ میں بچ گئی ہوں۔ ہاں میں بچ گئی ہوں۔ مجھے خود سے زیادہ اپنے اندرپلنے والے موتی کی فکر ہے، ورنہ اقبال مجھے الزام دیں گے کہ میں نے ان کے ہیرے کی حفاظت بھی نہیں کی۔ میرے جسم پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔ میرا سارا جسم دکھ رہا ہے۔ سارا جسم ایک زخم بنا ہوا ہے۔ ہائے، اُف یہ کیا ہوگیا۔ میں اپنا ہاتھ نہیں ہلاسکتی۔ ہاتھ نہیں اٹھ رہا ہے۔ پاؤں نہیں اٹھ رہا ہے۔ میں منہ بھی نہیں کھول سکتی۔ سارا جسم شل ہوگیا ہے۔ میں کروٹ بھی نہیں بدل سکتی۔ میری پلکیں بھی نہیں جھپک رہی ہیں۔ کھلی کی کھلی ہوئی ہیں۔ یہ لوگ نلی کے ذریعے سے میرے پیٹ میں غذا ڈال رہے ہیں۔ میرے شوہر میرے نزدیک آگئے، اُن کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔ اُن کے ساتھ بہت سے ڈاکٹر ہیں۔ ڈاکٹر میرا معائنہ کررہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ میں بے ہوش ہوں۔ کوئی ان سے کہے کہ میں دیکھ رہی ہوں۔ میں سن رہی ہوں۔ میں بے ہوش ہوں۔ میرے جسم کا کوئی عضو نہیں ہل رہا ہے۔ تو میں کیا کروں۔ میں کیا کروں۔ میرے مالک میں کس قدر مجبور ہوگئی ہوں۔ ہائے میں بے بس ہوگئی۔ اقبال آپ صبر کیجیے، میں اچھی ہوجاؤں گی۔ آپ روئیے نہیں، آنسو مت بہائیے اقبال۔‘‘
چھے مہینے گزرگئے۔
’’میری پٹیاں کھل گئیں۔ جسم ابھی تک بے حرکت ہے۔ آنکھیں کھلی کی کھلی ہی رہتی ہیں۔ نرسیں مجھے لے کر آپریشن تھیٹر گئیں۔ زیادہ دقت نہیں ہوئی۔ میری ڈیلیوری ہوگئی۔ میں نے نوزائیدہ بچے کے رونے کی آواز سنی۔ اس آواز نے مجھے خوشی کے مارے پاگل کردیا۔ اس آواز نے مجھے زندہ رہنے کے لیے اکسا دیا۔ نرسیں کہہ رہی ہیںکہ وہ لڑکا ہے۔ اقبال اندر آئے۔ ان کا چہرہ کھل گیا۔ اقبال میں نے آپ کی خواہش پوری کردی ہے۔ میرے بچے کو کہاں لے جارہے ہو۔ مجھے میرے بچے کو دیکھنے دو۔ اسے میری چھاتی کا دودھ پینے دو۔ میرے سینے کے اندر دودھ جوش ماررہا ہے۔ میرے منّے کو میری چھاتی سے لگا کر دیکھو۔ میرا دودھ ابل کر باہر نکلے گا۔ میں نہیں مری۔ میں بے ہوش بھی نہیں ہوں۔ سب کچھ دیکھ رہی ہوں۔ ہر بات سن رہی ہوں، لیکن میرا سارا جسم شل ہے۔ میں اپنی انگلی بھی نہیں ہلاسکتی۔ اپنے جسم کے اوپر سے مکھی بھی نہیں اڑا سکتی۔ میری زندگی یہ کیسی ہوگئی ہے۔‘‘
تقریباً ساڑھے پانچ برس اور گزرگئے۔
’’میری حالت میں کوئی فرق نہیں ہوا۔ ڈاکٹروں کے خیال میں میں بے ہوش ہوں۔ وہ اس بات کا پتا چلانے سے قاصرہیں کہ یہ آخر کیسی بے ہوشی ہے۔ اب مجھے دیکھنے کے لیے میرے شوہر ہر روز نہیں آرہے ہیں۔ ہفتے میں ایک وقت آتے ہیں۔ کبھی دو وقت بھی آجاتے ہیں، کسی ہفتے نہیں بھی آتے۔ پچھلی بار وہ آئے تو ان کے ساتھ ایک جوان عورت تھی۔ میں نے پہلی بار اسے دیکھا۔ دیکھ کر میرا دل دہل گیا۔ میرا بچہ کہاں ہے۔ اسے کوئی کیوں نہیں لاتا۔ ان ساڑھے پانچ برسوں میں میں نے اسے صرف چند بار ہی دیکھا ہے۔ کتنا ذہین اور خوبصورت لگتا ہے۔ کاش وہ روز میری آنکھوں کے سامنے آجائے۔ میں اپنی زندگی اس کے اوپر سے قربان کردوں۔ میرے چاند! تمہاری ماں تڑپ رہی ہے، تمھیں دیکھنے کے لیے۔ میں کتنی بے بس ہوگئی ہوں۔ میرا دل ڈوب رہا ہے۔ لیکن میں رو کر بھی اپنی بھڑاس نہیں نکال سکتی۔ یہ کیسی زندگی ہے۔ میں خود کشی بھی نہیں کرسکتی۔ وہ چڑیل کون ہے جو اقبال کے ساتھ آئی تھی۔ اقبال اس کے ساتھ بہت بے تکلفی سے باتیں کررہے تھے۔ نرسیں میرے بارے میں گفتگو کررہی ہیں۔ میں سن رہی ہوں۔ اوہ اس عورت سے اقبال شادی کرنا چاہتے ہیں۔ سن رہی ہوں کہ نیا قانون اقبال کا ساتھ نہیں دے رہا ہے کیونکہ ان کی بیوی یعنی کہ میرا شمار نہ مردوں میں ہوتا ہے اور نہ زندہ لوگو ںمیں۔‘‘
بے بسی کی زندگی میں گزرتے ہوئے دنوں کا قتلِ عام جاری رہا۔
’’مجھے اسٹریچر پر ڈال کر کورٹ میں لایا گیا۔ اقبال کٹہرے میں کھڑے ہوکر جج سے کہہ رہے تھے۔ مائی لارڈ! مجھے اپنی بیوی سے بے انتہا محبت ہے۔ اس لیے چھ برس میں نے انتظار میں کاٹے ، چھ برس ایک شادی شدہ مرد کے لیے اپنی بیوی سے علاحدہ رہنا انتہائی مشکل ہے، لیکن میں نے اس امید پر دن گزار دیے کہ عشرت جلد ٹھیک ہوجائیں گی۔ ساڑھے پانچ برس تک میں اپنے بچے کے لیے باپ ہی نہیں، ماں بھی بنا۔ میری گھریلو زندگی کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے۔ میں اس نظام کو دوبارہ جمانے کا خواہش مند ہوں تاکہ میری زندگی سکون سے ہمکنار ہو۔ میں میمونہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں لیکن قانون اجازت نہیں دیتا کہ میں دوسری شادی کروں، اس لیے میں اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہوں۔ دیکھئے اس اسٹریچر پر پڑی ہوئی بے ہوش عورت کے ساتھ میں ازدواجی زندگی نہیں گزار سکتا۔ اس کے بعد ڈاکٹروں کے بیان ہوئے۔ نرسوں نے بیان دیا۔ وکیلوں نے جرح کی اور اقبال کے وکیل نے اخبار کا وہ تراشا جج صاحب کو دکھایا جس میں اقبال کے اس اقدام اور کورٹ کی پیشی کا اشتہار دیا گیا تھا تاکہ کسی کو اس طلاق پر اعتراض ہو تو وہ آئیں اور بیان دیں۔ اعتراض کرنے کے لیے کوئی نہیں آیا۔میرے بھائی بھی نہیں اور بہن بھی نہیں آئیں۔ میرا دل رو رہا تھا اور بے آواز جملوں اور آہوں کے ساتھ میں جج صاحب سے کہہ رہی تھی کہ اعتراض مجھے ہے، میرا بیان لیجیے۔ اقبال کو دوسری شادی کی اجازت دیجیے، لیکن خدا کے لیے وہ مجھے طلاق نہ دیں۔ میں نہیں مری، میں زندہ ہوں۔‘‘
’’کورٹ نے طلاق کی منظوری دے دی۔ ہائے اقبال یہ آپ نے کیا کیا۔ اب تو میں آپ کے لیے غیر ہوگئی ہوں۔ اب آپ میں اور مجھ میں کوئی رشتہ نہیں ہے۔ کاش یہ قانون پاس نہ ہوتا اور آپ مجھے طلاق دیے بغیر دوسری شادی کرلیتے۔ میں آپ کو دیکھ کر ہی زندگی گزار لیتی۔ کم از کم میں آپ کی بیوی تو رہتی۔ میرا بچہ کہا ںہے؟ اسے مجھ سے محبت کیوں نہیں؟‘‘
دو سال اور گزر گئے۔
’’اِن دو سالوں میں اقبال صرف ایک بار آئے تھے۔ اُن کے ساتھ اُن کی بیوی تھی۔ وہ دونوں ایک ہیں۔ میں ان کے لیے غیر ہوگئی ہوں۔ نامحرم بن گئی ہوں۔ ماضی کے رشتے کے باعث وہ مجھے ہمدردی کے ساتھ دیکھتے رہے۔ وہ لمحہ کتنا دلخراش تھا۔ میرا لختِ جگر صرف ایک با رآیا تھا۔ اب نرسیں بھی مجھ سے بے اعتنائی برتتی ہیں، کیونکہ میرا کوئی نہیں ہے۔ مجھے غذا بھی برابر نہیں دیتیں۔ بھوک لگتی ہے تو میں پکار بھی نہیں سکتی۔ میرے حصے کا دودھ میرے سامنے ہی آیائیں دوسروں سے چھپ کر پی جاتی ہیں۔ کئی کئی دن غذا کے بغیر گزرجاتے ہیں۔ کاش مجھے موت آجاتی۔ اس زندگی میں اب کوئی لگاؤ اور کوئی دلکشی باقی نہیں رہی۔ اقبال بھی مجھ سے چھن گئے ہیں۔ موت کیسی ہوتی ہے۔ مجھے موت آجائے میرے مالک مجھے موت کے دامن میں ہی پناہ دے دے!‘‘
اقبال نے اٹھ کر لائٹ کھولی اور بیگم عشرت کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا:
’’ڈارلنگ آپ کو کیا ہوگیا ہے۔ کئی گھنٹوں سے دیکھ رہا ہوں کہ آپ سوتی ہوئی بڑبڑارہی ہیں۔ مسلسل رو بھی رہی ہیں۔ بہت کوشش کررہا تھا کہ آپ کی بڑبڑاہٹ کو سمجھ سکوں لیکن سمجھ میں نہیں آیا۔ اب یہ موت موت کیا کہہ رہی ہیں۔ خدا خیر کرے۔‘‘
بیگم عشرت اٹھ کر بیٹھ گئیں۔ اِدھر اُدھر آنکھیں پھاڑ کر دیکھا، جیسے انھیں اپنا زندہ رہنا ایک معجزہ لگ رہا ہو۔ بھیگی ہوئی آنکھیں جلدی سے پونچھ کر وہ کھڑی ہوگئیں، اور اطمینان کرنے لگیں کہ وہ چل پھر سکتی ہیں۔
’’کہاں جارہی ہیں، کیا چاہتی ہیں؟‘‘ اقبال نے کسی قدر تیز لہجے میں پوچھا۔
’’ڈیئر!‘‘ عشرت نے بھیگی آواز میں کہا۔ پھر سنبھل کر بولیں :’’آپ نے کل پانچ جنوری کا اخبار پڑھا ہے، لیکن ایک چھوٹی سی اطلاع کو غیر اہم جان کر شاید آپ نے چھوڑ دیا ہوگا ایک سیکنڈ ٹھہرئیے میں بتاتی ہوں۔‘‘
وہ میز کے قریب گئیں اور اخبار لاکر اقبال کو دیتی ہوئی کہنے لگیں: ’’دیکھئے، یہ جو خبر ہے نا، میں نے خواب میں یہی دیکھا۔ بس ذرا سا فرق تھا۔‘‘
اقبال پڑھنے لگے:
’’ناگاساکی (جاپان) آٹھ برس اور تین مہینے اسپتال میں مسلسل بے ہوش رہنے کے بعد ایک ۳۲ سالہ خاتون کا انتقال ہوگیا۔ اس مدت کے دوران ۱۰؍اپریل ۱۹۶۴ء کو انھیں ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ کار کے حادثے کے باعث بے ہوش ہونے کے تقریباً چھ مہینوں کے بعد یہ پیدائش ہوئی۔ ان خاتون کا نام مسز مساکو نونا بتایا گیا ہے۔ جاپان کے جنوبی حصے کے اس اسپتال میں انھیں ۴؍اکتوبر ۱۹۶۳ء کو داخل کیا گیا تھا۔ اُن کے شوہر نے ۱۹۶۸ء میں طلاق حاصل کرنے کے بعد دوسری شادی کرلی۔ اسپتال کے ایک ڈاکٹر کی اطلاع کے مطابق وہ خاتون اپنے بستر پر اس تمام عرصہ کسی نقل و حرکت اور قوتِ گویائی کے بغیر پڑی رہیں۔ اُن کی آنکھیں اس ساری مدت میں کھلی کی کھلی رہیں۔‘‘
——