ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سچے اور آخری رسول محمدؐ کی حیات پاک ہر پہلو اور ہر زاویے سے کامل و مکمل ترین ہے۔ آپؐ کی سیرت طیبہ کا ہر واقعہ ہمارے لیے چراغ راہ ہے، ہمارا اور آپ کا عقیدہ ہے کہ حضور اکرمؐ کی رسالت کسی ایک علاقے، کسی ایک قوم، کسی ایک نسل اور کسی مخصوص زمانے کے لیے نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام انسانوں کے لیے پاکیزہ ترین اور قرآن مجید کے الفاظ میں ’اسوۂ حسنہ‘ ہے۔
ہم اور آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس عالم آب و گل نے اپنی آنکھ سے ’بعد از خدا بزرگ‘ کا صحیح مصداق اور سچا پیکر صرف آپ ہی کو دیکھا ہے اور ہم اس کے قائل ہیں کہ مکہ مکرمہ کا وہ در یتیم علم و عقل، اخلاق و عبادات، صفات و عادات، حسن معاملات، حسن سیرت، حسن صورت غرض کہ جتنے بھی فضائل آدمیت اور کمالات انسانی ہیں سب کے سب اعلیٰ درجہ پر فائز ہے، آپ یہ مانتے ہیں کہ عرب کے اس نبی امی کی مکمل پیروی اور اقتداء ہی کا نام اسلام ہے۔
پھر یہ کیسا اندھیر ہے کہ اس اسوۂ کاملہ کے ہوتے ہوئے ہماری نگاہیں اغیار کی طرف اٹھتی ہیں؟ پیارے نبیؐ اپنی نمازیں کس طرح ادا فرماتے تھے؟ کیا آپ نے بھی اس طرح نماز پڑھی ہے؟ اگر پڑھی بھی ہے تو کتنی بار؟ روزہ اللہ کے حبیب کو کتنا محبوب تھا؟ کیا ہم اور آپ بھی روزے کو اپنے لیے آسان سمجھتے ہیں؟ کیا آپ نے بھی یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ سرورِ کائناتؐ کی خوراک کس قدر سادہ ہوتی تھی؟ اور غذا کی کتنی مقدار آپ تناول فرماتے تھے؟ فاتح کونین کتنے فاقے کیا کرتے تھے۔ کیا آپ کا لباس، پیراہن نبویؐ سے کوئی مناسبت رکھتا ہے؟ آپ نے اپنے جسم پر جو قسم قسم کے کپڑے پہن رکھے ہیں اور شرافت کا معیار خوش پوشاکی کو قرار دے رکھا ہے، کیا اس کی کوئی دلیل آپ کو سنت نبویؐ سے ملی ہے؟ کیا آپ نے کبھی اس کی فکر کی کہ فخر موجودات نے مکان کی تعمیر کے سلسلے میں کیا ہدایات دی ہیں؟ اور کس طرح کے مکان میں سردار دو جہاں کی سکونت تھی؟ اس کے برعکس ہم لوگ اپنے مکان کی تعمیر میں خداوند قدوس کی عطا کی ہوئی دولت جس طرح خرچ کرتے ہیں کیا وہ اسراف و تبذیر کے زمرے میں داخل نہیں ہے؟ کیا نبی اکرمﷺ کی اتباع یہی ہے؟
غور کیجیے کہ ہماری خریدو فروخت، لین دین، خوشی غمی، رہن سہن، عادات و اطوار، رسم و رواج میل ملاپ کے طریقے معلم اعظم ؐ کے بتائے ہوئے طریقوں سے کس حد تک مناسبت اور ملابست رکھتے ہیں؟ آج کا معیارِ زندگی اور طرزِ معاشرت جتنا پر پیچ پرشکوہ اور پرتصنع ہے، اللہ کے سچے رسولؐ اور آپؐ کے اصحابؐ کا طریقہ زندگی اتنا ہی آسان اور سادہ تھا، آپ اپنے آپ کو اس طرز پر ڈھالنے میں پس و پیش کیوں کرتے ہیں؟
ہم اور آپ اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہم کو پسندیدہ دین کا نام لیوا بنایا، ہمارا عقیدہ ہے کہ خالق کائنات نے اپنے دین ’’اسلام‘‘ کی تبلیغ و اشاعت کے لیے اپنے برگزیدہ بندوں کو مبعوث فرمایا۔ آپ کا ایمان ہے کہ اللہ کے ان محبوب بندوں نے پیامِ الٰہی بے کم و کاست ہم تک پہنچا دیا، آپ اس بات کو مانتے ہیں کہ ہم سب کی فوز و فلاح اسلام کے احکام پر مکمل طور پر عمل کرنے میں ہے۔
لیکن ذرا سوچئے کہ جب آپ کے گھر، آپ کے خاندان، آپ کے محلہ اور آپ کی بستی میں بڑی تعداد نماز نہیں پڑھتی ہے تو ان کے ساتھ آپ کا رویہ کیا ہوتا ہے؟ رمضان کے مبارک مہینے میں روزہ خوروں سے آپ کس طرح پیش آتے ہیں؟ وہ روزہ دار جو زکوٰۃ کی ادائیگی نہیں کرتے، ان کے متعلق آپ کا برتاؤ کیا ہے؟ وہ متمول حضرات جو فریضہ حج نہیں ادا کرتے، آپ ان سے کیا معاملہ کرتے ہیں؟
آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسلام جیسے پاکیزہ مذہب میں دروغ گوئی، مکر سازی، فریب دہی، وعدہ خلافی، بدمعاملگی، غبن، خیانت اور چوری جیسی برائیوں کی بیخ کنی کی گئی ہے، اس کے باوجود ان برائیوں پر عمل کرنے والے آپ کے نزدیک کس حیثیت کے حامل ہیں؟
آپ نے ضرور پڑھا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ترکہ اور میراث میں عورتوں کا کیا حصہ رکھا ہے، ان کے حصہ کو ہڑپ کرنے والوں اور ان کے حقوق کو غصب کرنے والوں کے ساتھ آپ کیا سلوک کرتے ہیں؟
آپ کو یقینا معلوم ہوگا کہ سود اور سود خوروں کے بارے میں خدائے تعالیٰ نے اپنی سچی کتاب میں سخت ترین احکام نازل کیے ہیں، اس کے بعد بھی آپ سود خوروں اور سود کے سلسلہ میں کیا نظریات رکھتے ہیں؟ آپ نے مطالعہ کیا ہوگا کہ اسلامی شریعت میں رشوت دینے والے اور رشوت لینے والے کے لیے کتنی شدید وعید ہے، اس کے باوجود آپ کی نگاہ میں رشوت دینے والے اور لینے والے کس مرتبہ کے حامل ہیں؟
سوچئے اور خوب سوچئے! پھر یہ فیصلہ کیجیے کہ ہماری عبادات، معاشرت، معاملات، اخلاق اور زندگی کا کون سا شعبہ کس حد تک اسوۂ حسنہ سے ہم آہنگ ہے؟