ذرا سوچئے!!

محمد عارف قریشی

گزشتہ چار پانچ روز سے ہمارے گھر صفائی کرنے والا جمعدار بلا اطلاع غیر حاضرتھا۔ ناچار میں نے فیصلہ کیا کہ اسے ہٹا کر دوسرا جمعدار لگوالوں گا۔ سو جونہی پڑوسیوں کے دروازے پر اس نے آواز لگائی، میں فوراً گھر سے باہر آیا اور اس کا انتظار کرنے لگا۔ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ ہمارا پہلا جمعدار چلا آرہا ہے اور جھاڑو چھابہ اٹھائے بغیر! میں نے سوچا اتنے دن فارغ رہ کر بھی اس کی تسلی نہیں ہوئی اور آج پھر یہ کام کرنے کے موڈ میں نہیں، سو میرا غصہ دوچند ہوگیا اور میں نے اسے خوب جھاڑ پلانے کا تہیہ کرلیا۔ جونہی وہ میرے قریب آیا، میں نے اس پر ایک غضب آلود نگاہ ڈالی اور پوچھنے ہی والا تھا کہ تم اتنے دن کہاں غائب تھے کہ اس نے بڑی شائستگی کے ساتھ میری طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا: ’’السلام علیکم!‘‘
مجھے بڑا تعجب ہوا کیونکہ اس سے پہلے وہ مجھے صرف ’’سلام صاحب‘‘ کہا کرتا تھا۔ اسی لیے آج کی صورتِ حال نے مجھ پر اتنی بوکھلاہٹ طاری کردی کہ میں نے اس سے مصافحہ تو کرلیا لیکن اس کے سلام کا جواب دینے کا مجھے خیال ہی نہ رہا۔ اور ابھی میں اپنے پہلے پروگرام کے مطابق اس سے کچھ کہنے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے مسکراتے ہوئے کہا ’’جناب! مجھے معلوم ہے، آپ مجھ سے ناراض ہیں کہ میں اتنے دن کام پر نہیں آیا لیکن میں اب مسلمان ہوگیا ہوں اور میں نے یہ کام چھوڑ دیا ہے، آج سے آپ کے گھر کی صفائی کا کام میرا ساتھی کرے گا۔‘‘ ایک ہی سانس میں یہ کہہ کر اس نے اسی جمعدار کی طرف اشارہ کیا جو پڑوسیوں کے گھر سے فارغ ہوکر اب ہمارے دروازے پر آگیا تھا۔ میرا سارا غصہ جھاگ کے مانند بیٹھ گیا۔
مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میرے منہ سے بے اختیار اس طرح کے بے ترتیب الفاظ نکل پڑے! ’’بہت خوب! ونڈرفل، مبارک ہو بھئی، تم نے تو … کیسے خیال آگیاتمہیں… کمال کردیا…‘‘ میرا جی چاہا کہ میں اسے گلے سے لگالوں اور خوب بھنچ بھینچ کر پیا رکروں لیکن بوجوہ میں اپنی اس خواہش کی تکمیل نہ کرسکا میں نے اس سے پوچھا: ’’تم نے اتنا بڑا فیصلہ کیسے کرلیا؟‘‘ اس نے کہا: ’’میری یہ خواہش بہت پرانی تھی۔ میں خود تو خاصی مدت سے اسلام کی سچائی کا قائل ہوچکا تھا، لیکن میں چاہتا تھا کہ میرے بیوی بچے بھی اس نعمت سے محروم نہ رہیں کیونکہ وہ میرے عیسائیت کو چھوڑ دینے کے بعد بے یارومددگار رہ جاتے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے میری یہ تمنا بھی پوری کردی اور میرے ساتھ ساتھ میری بیوی اور والد صاحب نے بھی اسلام قبول کرلیا ہے… لیکن جناب ایک بات ہے؟‘‘
’’وہ کیا؟‘‘ میں نے کسی انجانے خدشے سے پوچھا۔
’’میں مسلمان تو ہوگیا ہوں لیکن مجھے اسلام کے بارے میں کوئی زیادہ معلومات نہیں۔ کیا آپ اس سلسلے میں کوئی مدد کرسکتے ہیں؟‘‘ اس نے مجھ سے کہا۔
’’جن مولوی صاحب نے تمہیں مسلمان کیا ہے، کیا انھوں نے اس بارے میں تمہیں کچھ نہیں بتایا؟‘‘ میں نے پوچھا۔
اس نے کہا:’’میں نوری مسجد کے خطیب مولوی احمد بخش نوری کے پاس گیا تھا، انھوں نے مجھے کلمہ پڑھا دیا اور نماز روزے کے مسائل سمجھا دیے لیکن اس سے زیادہ انھوں نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔‘‘
میں مولوی احمد بخش صاحب کو ذاتی طور پر جانتا تھا، چنانچہ میں نے پوچھا: ’’مولوی صاحب نے تم سے کچھ اور بھی کہا؟‘‘
وہ کہنے لگا: ’’مجھے مسلمان کرنے اور میرا اسلامی نام نور محمد رکھنے کے بعد انھوں نے مجھ سے کہا تھا: اسٹیشن والی مسجد میں نہ جانا۔ اگر کبھی جانکلو تو اس کے امام کے پیچھے نماز مت پڑھنا، ورنہ دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاؤ گے۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’کیوں جی؟‘‘ تو مولوی صاحب نے کہا کہ وہ وہابیوں کی مسجد ہے۔ وہابی گستاخ رسولؐ ہیں، وہ نبی اکرمﷺ کو اپنے جیسا سمجھتے ہیں۔‘‘
نور محمد بتارہا تھا کہ مولوی صاحب جذباتی ہونے لگے تھے، میں نے ڈرتے ڈرتے ان کی بات کاٹ کر ان سے پوچھا: ’’کیا عیسائیت کی طرح اسلام بھی فرقوں میں بٹ چکا ہے؟‘‘
مولوی صاحب ایک دم غصے میں آگئے اور کہا: ’’اسلام کا صرف ایک فرقہ ہے اور وہ ہمارا مذہب ہے جو اس کا قائل نہیں وہ کافر ہے۔ اس لیے اسلام قبول کرلینے کے بعد اگر تم نے ہمارے مذہب کو اختیار نہ کیا تو تمہاراا سلام لانا نہ لانا برابر ہے۔‘‘
’’تو پھر مجھے اپنے مذہب کے بارے میں کچھ بتائیے۔‘‘ میں نے مولوی صاحب سے کہا۔ اس کے جواب میں انھوں نے میرے سامنے ایک لمبی تقریر کرڈالی جس کا زیادہ تر حصہ میری سمجھ میں نہیں آیا اور جو سمجھ میں آیا اسے میرا دل نہیں مانتا۔ اسلام ایسا تو نہیں ہوسکتا۔ عیسائیت کی یہی قباحت ہے جس سے دلبرداشتہ ہوکر میں نے اسے چھوڑا۔ اگر اسلام میںبھی پاپائیت ہے تو پھر اسلام اور عیسائیت میں کیا فرق ہوا؟‘‘
مولوی احمد بخش نوری کے بارے میں یہ تفصیل سن کر مجھے قطعاً تعجب نہ ہوا کیونکہ وہ مذہبی تعصب کی وجہ سے شہر بھر میں مشہور تھے۔ میں نے سوچا کہ مولوی احمد بخش نے اسے جو خوراک پلائی ہے، اس کا اثر ابھی چند روز رہے گا، بہرحال میں نے اس سے پوچھا: ’’تمہارے اس فیصلے کا تمہاری برادری میں کیا ردِ عمل ہوا؟‘‘
اس نے کہا: ’’برادری والے بڑے ناراض ہوئے ہیں جی، اور وہ اب تک یہ کوشش کررہے ہیں کہ میں عیسائیت کی طرف لوٹ آؤں۔ پہلے انھوں نے آرام سے مجھے سمجھایا اور اب مختلف طریقوں سے تنگ کرنا شروع کردیا ہے، لیکن میں نے جو فیصلہ کرلیا ہے، اس پر قائم ہوں اور قائم رہوں گا۔‘‘
نومسلم نور محمد کو پرعزم پاکر مجھے بڑی خوشی ہوئی اور میں نے اس سے استفسار کیا:’’نور محمد! کچھ پڑھے ہوئے بھی ہو؟‘‘
اس نے کہا: ’’ہاں جی، پانچ چھ کلاس پڑھا ہوں، اخبار، رسالے پڑھ لیتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا: ’’بھائی نور محمد! میں خود تو کوئی عالم فاضل نہیں، مگر میں تمہیں اس قسم کی کتابیں مہیا کرسکتا ہوں جن کے ذریعے تم اسلام سے مکمل آگاہی حاصل کرسکوگے۔‘‘
اس نے میرا شکریہ ادا کیا اور ایک دو روز بعد آنے کے بارے میں کہہ کر چلا گیا۔ اگلے دن میں نے اپنی چھوٹی سی لائبریری کھنگال کر اس کے لیے دو تین کتابیں علیحدہ رکھ دیں اور اس کاانتظار کرنے لگا، لیکن وہ کئی دنوں تک نہ آیا اور پھر ایک دن ملا بھی تو سرراہ آواز دے کر اسے روکا اور پوچھا: ’’کیا بات ہے بھائی نور محمد! تم پھر آئے نہیں۔‘‘
اس نے میرے سوال کا جو جواب دیا، وہ میرے لیے ایک دھماکے سے کم نے تھا، اس نے کہا: ’’وہ جی، میرے والد صاحب فوت ہوگئے تھے۔‘‘
’’کب؟‘‘ میں نے حیرت زدہ ہوکر پوچھا۔
’’پرسوں جی۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’تم نے مجھے اطلاع کیوں نہیں دی؟‘‘ میں نے قدرے خفگی میں اس سے کہا۔ میں ایک انتہائی خوش نصیب انسان کے جنازے میں شرکت سے محروم رہا۔ ایسا شخص جس نے ساری زندگی عیسائیت پر گزاری اور انتقال سے چند روز پہلے مسلمان ہوگیا۔ وہ سیدھا جنت میں جائے گا اور ہم جیسے گناہ گاروں کے لیے اس کے جنازے میں شریک ہونا بڑی سعادت ہوتی۔‘‘
’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں جی!‘‘ نور محمد نے تعجب سے کہا۔
’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں، نورمحمد! اسلام ہی وہ دین ہے جسے دین حق کانام دیا جاسکتا ہے۔ یہ اس پیغمبرؐ کا لایا ہوا دین ہے جس کے بعد سلسلہ نبوت اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ اس لیے یہ دین قبول کرلینے والا اگر کسی گناہِ کبیرہ کا مرتکب نہ ہو تو اس پر دوزخ کی آگ حرام ہے، اور تمہارے والد صاحب نے تو اپنی وفات سے کچھ ہی روز پہلے باطل کو چھوڑکر حق سے تعلق جوڑ لیا تھا، بھلا ان چند روز میں ان سے کیا گناہ ہوسکتا ہے، لہٰذا وہ یقینا جنتی ہیں۔‘‘
’’اگر یہ بات ہے تو کچھ لوگ میرے والد کے جنازے میںکیوں شریک نہیں ہوئے۔‘‘ نور محمد نے سوال کیا۔
’’کون تھے وہ بدنصیب اور کس لیے اس سعادت سے محروم رہے۔‘‘ میں نے الٹا سوال کیا ’’دراصل جی، میں اپنے والد کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے مولوی احمد بخش کو بلا لایا تھا کیونکہ میں کسی اور مولوی سے اب تک واقف نہیں ہوا تھا۔ اس پر میرے محلے کے بعض لوگ بگڑ گئے اور نوبت دنگا و فساد تک جاپہنچی۔ وہ کہتے تھے کہ میرے والد کی نماز جنازہ اپنے محلے کی مسجد کا مولوی پڑھائے گا، مولوی احمد بخش تو مشرک ہے۔ ہم اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ میں نے ہزار اندیشوں کے ساتھ سوال کیا۔
’’مجھے اپنے محلے والوں کی بات ماننی پڑی جی۔ میں مجبور ہوگیا تھا، وہ لوگ تعداد میں زیادہ تھے اور پھر بہت رات ہوگئی تھی، چنانچہ میرے والد کی نماز جنازہ اپنے محلے کے مولوی صاحب نے پڑھائی جبکہ مولوی احمد بخش نوری ناراض ہوکر چلے گئے۔ وہ کہتے تھے کہ ان کے پیچھے میری نماز نہیں ہوتی، یہ پیروں اور ولیوں کو نہیں مانتے۔ جو اللہ کے پیاروں کو نہیں مانتا وہ اللہ کو نہیں مانتا، اس لیے وہ کافر ہیں۔‘‘
اتنا کہنے کے بعد نور محمد خاموش ہوگیا اور انتظار کرنے لگا کہ میں کچھ کہوں لیکن مجھ پر اپنوں کی بے حسی نے خاموشی طاری کررکھی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ خود ہی کہنے لگا: ’’میں تو کل سے بہت پریشان ہوں جی! بار بار خیال آتا ہے پتہ نہیں میں صحیح مسلمان بھی ہوچکا ہوں یا ابھی کوئی کسر رہ گئی ہے۔ ادھر میری برادری والے آتے جاتے مجھ پر طنز کرتے ہیں کہ یہی اسلام ہے جس کے لیے تم نے باپ دادا کا دین چھوڑدیا ہے۔ اسی فرقہ بندی کے لیے تم اپنی برادری سے ناتا توڑ رہے ہو، اور سچی بات ہے جی، میرے پاس اس بات کا کوئی جواب بھی نہیں۔ میں نے سوچا تھا کہ مسلمان ہونے کے بعد مجھے تمام جھنجھٹوں سے نجات مل جائے گی، لیکن یہاں تو مزید پریشانیوں نے گھیر لیا ہے۔‘‘
اب مجھے خیال آیا کہ صورتِ حال کس قدر نازک ہوچکی ہے۔ اس نومسلم کو اگر اسلام کی صحیح تصویر نہ دکھائی گئی تو غالب امکان ہے کہ یہ دوبارہ عیسائیت کی طرف لوٹ جائے۔ سو میں نے اسے کہا: ’’تم ابھی میرے ساتھ چلو۔ میں نے تمہارے لیے کچھ کتابیں تلاش کررکھی ہیں انہیں پڑھ کر تمہاری ساری پریشانی دور ہوجائے گی۔‘‘
وہ فوراً میرے ساتھ چل پڑا لیکن بدقسمتی سے ابھی ہم چند قدم ہی چلے تھے کہ سامنے سے مولوی احمد بخش آتا نظر آیا۔ اس نے جیسے ہی نور محمد کو میرے ہمراہ دیکھا، فوراً اسے متوجہ کرکے کہنے لگا: ’’سنا بھئی، نور محمد، کہاں جارہے ہو؟‘‘
’’جناب میں۔‘‘ نور محمد نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’ذرا ان کے ساتھ گھر تک جارہا ہوں جی۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ مولوی احمد بخش نے بڑے رعب سے پوچھا۔
’’وہ جی، ان کے پاس کچھ کتابیں ہیں پڑھنے کے لیے، وہ لینے جارہا ہوں۔‘‘ نور محمد نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔ اس کے منہ سے یہ سنتے ہی مولوی احمد بخش بجلی کی تیزی سے اس کی طرف بڑھا اور اسے بازو سے پکڑ کر تقریباً گھسیٹتے ہوئے مجھ سے دور لے جانے لگا۔ یہ دیکھ کر میںنے جان لیا کہ آج نور محمد کی خلاصی ممکن نہیں،چنانچہ میں اپنے گھر چلا آیا۔ اور پھر میرا اندازہ صحیح نکلا۔ اگلی دفعہ جب نور محمد مجھ سے ملا، بلکہ سرراہ جاتے ہوئے میں نے اسے زبردستی روکا اور اصرار کرکے گھر لے آیا تو اس نے بتایا کہ اس روز مولوی احمد بخش نے اسے نماز عشا کے بعد اس شرط پر چھوڑا کہ آئندہ تم اس شخص (مجھ) سے نہیں ملوگے اور نہ اس سے کوئی کتاب لے کر پڑھو گے۔‘‘
یہ سن کر میری دلچسپی اور بڑھی اور میں نے اس سے پوچھا: ’’مولوی احمد بخش نے اور تم سے کیا کہا تھا؟‘‘
نور محمد نے بتایا کہ اس روز مولوی صاحب نے مجھے آپ سے کچھ دور لے جاکر کہا تھا : ’’تمہیں علم ہے یہ آدمی کون ہے؟‘‘
میںنے الٹا سوال کیا: ’’کیا مطلب ہے جی؟‘‘
مولوی صاحب نے کہا: ’’یہ جماعتیہ ہے۔ تم اس سے ملنا چھوڑ دو۔ یہ تمہیں گمراہ کردے گا۔‘‘
میں نے کہا: ’’کیوں جی، یہ مسلمان نہیں ہے کیا؟‘‘
مولوی صاحب کہنے لگے: ’’اوئے، مودودی کے پیروکار کہاں مسلمان ہیں، جو شخص صحابہؓ کو برا کہتا ہے، وہ کیونکر مسلمان ہوسکتا ہے۔ وہ صحابہؓ جو دین کے ستون ہیں، ان سے غلطی ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ ان کی تربیت خود رسول خدا نے کی ہے۔‘‘
میں نے دل میں سوچا، یہ توواقعی بری بات ہے اور مولوی صاحب سے پوچھا: ’’تو کیا انھوں نے صحابہؓ کے خلاف کچھ کہا ہے؟‘‘
یہ سن کر مولوی احمد بخش ایک دم جلال میں آگئے اور بپھر کر بولے: ’’کہا کیا مطلب، اس نے لکھا ہے۔ اس کی ساری کتابیں صحابہؓ کی شان میں گستاخیوں سے بھری پڑی ہیں۔‘‘
مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہوسکتے ہیں جو اپنے اکابر کو برا کہتے ہوں، تاہم میں نے مولوی صاحب سے وعدہ کرلیا کہ آئندہ میں آپ سے نہیں ملوں گا۔‘‘
یہ کہہ کر وہ چپ ہوا تو میں نے کہا: ’’اب تم مولوی احمد بخش کا حکم مانوگے یا میرے مشورے پر عمل کروگے؟‘‘
یہ کہتے ہوئے میں نے اس کے لیے منتخب کی ہوئی کتابیں نکالنے کی خاطر الماری کی طرف ہاتھ برھایا ہی تھا کہ نور محمد کی آواز آئی’’ اب اس کی ضرورت نہیں ہے جی!‘‘
میرا دل دھک سے رہ گیا۔ میں نے پلٹ کر پوچھا: ’’کیوں کیا ہوا؟‘‘
’’میں نے دوبارہ عیسائیت اختیار کرلی ہے جی! وہاں کم از کم مجھے یہ اطمینان تو ہے کہ میں جس فرقے میں رہوں، مجھے کافر کوئی نہیں کہے گا، جبکہ یہاں تو میں مسلمان ہوکر بھی مسلمان نہیں بن سکتا۔‘‘
’’تم نے بہت برا کیا، نور محمد! بہت برا کیا۔‘‘ میں نے انتہائی تاسف سے کہا جس کے جواب میں وہ بگڑ کر بولا: ’’نور محمد نہیں، صاحب! گلزار مسیح کہیے، اور یہ بھی سن لیجیے کہ میری اس واپسی کے ذمے دار آپ ہیں آپ! جنھوں نے اسلام کو فرقوں میںبانٹ کر اپنا دین بگاڑ دیا ہے۔ اور یوں اس میں نئے لوگوں کا داخلہ بند کردیا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر گلزار مسیح چلا گیا اور میں سوچتا رہا کہ اس کی واپسی کا ذمے دار میں ہوں یا مولوی احمد بخش نوری یا وہ لوگ جنھوں نے مولوی صاحب کی امامت میں نور محمد کے باپ کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار کردیا تھا؟ آپ بھی سوچئے…
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں