آئینے میں ابھرنے والی شبیہ یقینا کسی بھی چیز کا عکس ہوتی ہے، جو اس کے سامنے آتی ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ شبیہ ہو بہ ہو ہوتے ہوئے بھی الٹی (inverted) ہوتی ہے۔ آئینہ میں نظر آنے والی چیزوں کی طرح باتوں اور عمل کا بھی اب ایسا ہی حال ہوگیا ہے۔
آئیے چند مشہور جملوں کو آئینے کے سامنے دیکھتے ہیں:
٭… مہنگائی کتنے عروج پر ہے، دال روٹی چلانامشکل ہے۔ کیا کھائیں؟ کیا پہنیں؟
یہ جملہ کسی بھی گفتگو کا، خواہ فون پر ہو یا ملاقات پر، ایک اہم حصہ ہوتا ہے۔ ذرا اس کو آئینے کی نظر سے دیکھیں:
۱- یہ ایک اوسط درجے کے گھر میں شادی کی تقریب ہے۔ یہاں شریک ہر عورت نے ہزاروں کی جیولری پہن رکھی ہے۔ ہر مہمان نے ملبوسات اور لوازمات پر جو خرچے کیے ہیں، ان کے منہ سے یہ جملہ کتنا عجیب لگتا ہے! دولہا، دولہن اور ان کے رشتے داروں کے اخراجات کی ہوش ربا تفصیلات سنیں تو دل بیٹھنے لگتا ہے۔
۲- یہ دیکھئے! خوبصورت شادی خانوں اور ہوٹلوں کی لائن! یہاں بکنگ مہینوں پہلے کروانی پڑتی ہے، ورنہ تقریبات ملتوی کرنی پڑجاتی ہیں۔
۳- یہ فاسٹ فوڈز کی دکانیں، یہ ریسٹورینٹس کی لائنیں، اف ٹیبل لینی ہو یا پارکنگ، دونوں کا حصول مشکل ہوتا ہے۔
۴- ڈپارٹمنٹل اسٹورز کی ایک پوری chain ہے۔ آئٹم دیسی ہو یا بدیسی، بس مہنگا ہونا شرط ہے۔ ایسے ہاتھوں ہاتھ غائب ہوتا ہے کہ آپ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
۵- سڑکوں پر نئی اور چمکدار گاڑیوں کی تعداد دیکھئے! لگتا ہے ہر فرد کی اپنی گاڑی ہے۔
کیاخیال ہے مہنگائی کے معنیٰ لغت میں بدل دیے جائیں؟
٭… حالات کتنے خراب ہیں، کہیں آنے جانے کو دل نہیں چاہتا۔
یہ وہ جملہ ہے جو ملک میں رہنے والے بچوں تک کی زبان پر ہوتا ہے، خواہ اس نے ابھی ابھی بولنا سیکھا ہو۔
تو پھر کیا کرتے ہیں؟ کیسے وقت گزرتا ہے؟ (کیا گھر بیٹھ کر استغفار کرتے ہیں؟)
بس گھر میں بیٹھے ٹی وی دیکھتے رہتے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو کیبل کا، ذرا بھی بور نہیں ہونے دیتے۔ بچے آخر کہا ںتک صبر کریں؟ دو مہینے کی چھٹیاں ہیں، گھر میں پڑے پڑے بور ہوگئے۔ حالات کے خوف سے نہ کہیں پکنک پر جاسکے نہ کسی رشتہ دار کے گھر! تو کیا بس ٹی وی پر گزارا رہا!
نہیں! مگر بچوں کے لیے تو کچھ نہ کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ہر ویک اینڈ پر کے ایف سی یا پیزاہٹ لے کر جاتے رہے۔
چھٹیوں کی وجہ سے ہمارے خاندان میں کئی شادیاں رکھی گئیں، ان کی مصروفیات کی وجہ سے وقت کا پتا ہی نہیں چلا۔ مایوں، مہندی، بارات، ولیمہ، چوتھی، اس کے بعد عورتوں کا سلسلہ … وغیرہ وغیرہ۔
حالات اچھے ہونے کا انتظار کیوں؟ جب وہ سب کچھ ہورہا ہے، جو پرامن حالات میں بھی نہ ہونا چاہیے۔
٭… زندگی اتنی مصروف ہوگئی ہے کہ کسی سے فون پر بات کرنے کا بھی وقت نہیں ہوتا۔
یہ جملہ ہر اُس فرد کی زبان پر ہوتا ہے جو کسی نہ کسی ذمہ داری کا اہل سمجھا جاتا ہے، خواہ گھر ہو یا باہر۔ ذرا آئینے کی روشنی میں ایک دن کا جائزہ لیں۔
یہ ایک خاتون خانہ ہے، صبح اٹھ کر گھڑی پر نظر کی تو نو بج رہے تھے۔ اُف سب کو روانہ کرکے ذرا سا تو لیٹی تھی لہٰذا کروٹ بدل لی کہ ابھی کچھ وقت اور سویاجاسکتا ہے۔ دس کے بعد توناممکن ہے۔ صفائی والی نے کنڈی بجا بجا کر ناک میں دم کردیا ۔ بادلِ ناخواستہ اٹھنا ہی پڑا حالانکہ نیند مکمل کہاں ہوئی تھی؟ رات دو بجے کے بعد تو سونا نصیب نہیں ہوا تھا۔ اس کسلمندی میں ناشتا کرتے کرتے بارہ بج چکے ہیں۔ کھانے کے بارے میں کیا سوچا جائے؟ اسکول سے واپس آنے والوں کے لیے یا تو رات کا کھانا گرم کردیں یا پھر کوئی ریڈی میڈ پسندیدہ چیز بنالیں۔ اسی حیص بیص میں ظہر کی نماز قضا ہونے کا وقت ہوگیا۔ بھاگم بھاگ نماز پڑھی۔
اب ایسا وقت ہورہا تھا کہ کوئی کام ہو نہیں سکتا، کیوں کہ کچھ کاموں کا وقت گزرچکا تھا اور کچھ کاموں کا وقت ابھی دور تھا۔ لہٰذا وقت کاٹنے کے لیے گزشتہ رات کا ادھورا ڈرامہ ختم کیا۔ اسی عرصے میں دو مزید نمازیں ادا کیں۔ اب تو بھوک سے برا حال تھا۔ کھانا کھایا، سمیٹتے سمیٹتے کافی رات ہوگئی۔ سکون سے بیٹھے تو یاد آئے وہ تمام کام جو کل سے آج پر ٹالے گئے تھے۔ اب تو پھر وہی وقت ہوچکا تھا۔ لامحالہ انہیں کل پر ہی ٹالنا تھا۔ کچھ کام تو مہینوں سے اسی طرح ٹل رہے ہیں اور ہر نیا دن ان کاموں کی لمبائی کو تھوڑا سا اور بڑھا دیتا ہے۔
نہ نہ نہ ! صرف خاتون خانہ کا ایک دن نہ دیکھیں، باقی سب کے شیڈول بھی ضرور آئینے میں دیکھیں پھر فیصلہ کریں کہ کیا دن کو ۲۴ سے ۳۰ گھنٹے کا کرلیا جائے تو کچھ کام نبٹیں گے؟… وغیرہ وغیرہ
ارے صرف چار جملوں کے عکس نے آپ کو برانگیختہ کردیا! ابھی توپوری کتاب باقی ہے جو دن رات ہم بولتے ہیں، پورا دفتر ہے جو ہم کرتے ہیں اور آئینہ دیکھتا ہے ہم کو حیرانی سے۔
——