معلم کا پیشہ نبوی پیشہ ہے کیونکہ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا تھا: ’’ میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں۔‘‘
اس حیثیت سے معلم نبوی مشن کا فرد ہے اور اس کی ہمہ گیریت اس قولِ رسول سے سامنے آجاتی ہے۔
تعلیم کا مطلب حقیقت کا علم حاصل کر نا ہے اگر انسان معرفت حق حاصل نہ کر سکے تو کہنا ہو گا کہ اس نے تعلیم حاصل نہیں کی اور اس کا ذمّہ دار صرف طالب علم نہیں بلکہ ایک معلم بھی ہو گا۔ اسلام میں تعلیم کے لفظ کو وسیع معنی میں لیا گیا ہے اس میں ترتیب بھی شا مل ہے بلکہ یہ کہنا زیا دہ درست ہو گا کہ اسلام میں تعلیم و تربیت’’لازم و ملزوم ‘‘ ہیں۔ اسی اہمیت کے پیشِ نظر مقصد تعلیم پر یوں روشنی ڈالی گئی ہے:
’’تعلیم دینے کا مقصد اللہ کا نیک و صالح بندہ اور انسانیت کا سچّا یہی خواہ بنانا ہے یعنی طلبہ کی فطری صلاحیتوں کو اجو گر کر نا ۔ ان کے طبعی رجحانات کو صحیح رخ پر ڈالنا اور انھیں ذہنی جسمانی ، علمی اور اخلاقی اعتبار سے بتدریج اس لائق بنانا کہ وہ اللہ کے شکر گذار بندے بن کر رہیں۔ کائنات میں اس کی مرضی کے مطا بق تصرف کریں نیز انفرادی عائلی اور اجتمائی حیثیت سے ان پر جو ذمہ داریاں ان کے خالق و ما لک کی طرف سے عائد ہوتی ہے۔ ان سے وہ کماحقہ عہدہ بر آ ہو سکیں۔‘‘
(افضل حسینؒ )
معلّم کے اوصاف:
معلّم کی شخصیت انتہائی پر کشش ، پرُ بہار اور محبت و شفقّت سے معمور ہوتی ہے وہ معاشرہ کی جان اور مستقبل کا نگہبان ہو تا ہے۔معلّم کی مثال ایک باغ کے ما لی کی ہے جسے باغ کے ہر پو دے ہر کلی سے محبّت ہو تی ہے اور وہ اسے سنوارنے میں لگا رہتا ہے ٹھیک اسی طرح ایک سچّا معلّم بھی اپنے طلبہ کی تعمیر شخصیت کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیتا ہے۔ یوں تو ایک معلّم کو بہت سے اوصاف کا حامل ہو نا ضروری ہے لیکن اس وقت صرف تین امور کا ذکر مقصود ہے اور وہ یہ ہیں:
(۱) ذوقِ مطالعہ
(۲) فن ِ تدریس میں مہا رت
(۳) اعلیٰ کردار کا حامل ہو نا
(۱)ذوقِ مطالعہ:
ایک سچّے معلّم کو کتاب کا شوقین ہو نا چا ہیے اُسے ہر وقت اپنے مطالعہ کو وسیع کر نے کی فکر میں لگا رہنا چاہیے۔ جس مضمون کی تدریس اس کے ذمّہ ہے اس میں اضافہ ہو نا ضروری ہے۔ کسی نفس مضمون کے با رے میں جو کچھ ہم نے پانچ سال قبل پڑھا تھا اگر اس موضوع پر تحقیقی مقالات کا مطالعہ کیا جا ئے تو معلوم ہو گا کہ دنیا ہی بدل گئی ہے۔ اس لئے ایک معلّم کے لئے یہ ناگزیر ہے کہ وہ برابر مطالعہ کر تا اور اپنے آپ کو اپ ڈیٹ کرتا رہے۔ ایک اچھے معلّم کو اپنے موضوع کے علا وہ دوسرے موضوعات کا بھی مطالعہ اور شوق دونوں ہو نا چاہیے۔ جو معلّم اپنے طلبہ کو اسلامی رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں انکی ذمّہ دا ری اور بڑھ جا تی ہے۔ انھیں جدید زما نہ کے حالات و مسائل پر غور و فکر کرتے رہنا چاہیے۔ اسلام کی روشنی میں مسائل کا حل پیش کر نا چا ہیے۔ بہر حال ایک اچھے استاد کو ایک اچھا طالب علم بھی ہو نا چا ہیے اور ہر وقت نئے علوم کی تلاش میں رہنا چا ہیے۔
علامہ اقبالؔ کے انگریز استاد پروفیسر آرنلڈ مطالعے کے بے انتہاء شوقین تھے۔ ایک مرتبہ بحری جہاز پر سفر ہر تھے ان کے ساتھ علامہ شبلی ؒ بھی ساتھ تھے بحری جہاز کے انجن میں خرا بی پیدا ہو نے کی وجہ سے جہاز کے کپتان نے اعلان کیا کہ اب بچنا مشکل ہے جہاز ڈوب سکتا ہے جہاز پر کہرام مچ گیا لیکن پروفیسرصاحب مطالعہ میں غرق تھے۔ شبلیؔ نے پروفیسر آرنلڈ سے پوچھا ’’آپ کو معلوم ہے ہم صرف چند منٹ کے مہمان ہیں۔ جواب ملا: ہاں میں جانتا ہوں میری زندگی کے بس چند منٹ با قی ہیں جو بہت قیمتی ہیں مجھے ان کا صحیح استعمال کر لینے دو ‘‘ یہ کہہ کر وہ دو با رہ مطالعہ میں مصروف ہو گئے خدا کا کرم انجن ٹھیک ہو گیا اور سب بچ گئے علا مہ شبلیؔ نے یہ پو را واقعہ اپنی کتاب یعنی اپنے سفر نا مے میں بیان کیا ہے اور مطا لعہ کی اہمیت بتا ئی ہے۔
(۲)فنِ تدریس میں مہا رت :
ایک معلّم کی دوسری ناگزیر صفت فنِ تدریس پر مہارت حاصل کر نا ہے۔ استاد کو چاہیے کہ اس فن کی با قاعدہ تربیت حاصل کرے یا پھر اس فن پر مختلف کتابوں کا مطالعہ کرے تدریس کے نئے طریقے سوچتا رہے اس سے اس کے اندر ایک غیر معمولی نکھا ر پیدا ہو جا ئے گا۔
فنِ تدریس کے ما ہرین کے نزدیک ایک استاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ علم نفسیات سے بخوبی واقف ہو۔ ہر طالب علم کا ذوق، عمر، صلاحیت، ماحول اور نظریہ جُدا ہو تا ہے۔ ان سب باتوں کے پیش نظر استاد طلبہ سے معاملہ کرے ۔اسی طرح عہدِ طفولیت بچپن ، لڑکپن اور عنفوانِ شباب کے رجحانات کو جاننا بھی ضروری ہے تا کہ تدریس کو آسان، پرُکیف اور اثر انگیز بنا یا جا سکے۔ توجہ، حافظہ ، جبلتوں کا علم اور عادات وغیرہ کے با رے میں پوری آگاہی ہونی چاہیے۔ پڑھانے کے نئے نئے طریقے اختیار کر نے چا ہئیں۔ ایک لگا بندھا انداز بچّوں میں دلچسپی کم کر تا ہے۔ امام غزالیؒ اپنی کتاب ’’ احیاء العلوم ‘‘ میں بچّوں کی تربیت کے با رے میں فر ما تے ہیں:
’’اگر ایک طبیب تمام بیماریوں کے لئے ایک ہی نسخہ تجویز کرے تو اکثر ہلاکت کا سبب ہو گا۔ بالکل یہی حال معلّم کا ہے۔ وہ اگر اپنے زیر تعلیم بچوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکے گا تو انھیں ہلاک کر دے گا۔ ان کے قلوب پر موت طا ری کردے گا اس لئے مر بی کا فرض ہے اپنے زیر تربیت بچوں کو ان کے حال، عمر اور مزاج کے مطا بق راستے تجویز کرے اور ان کے لئے وہی ریاضت تجویز کرے جس کے وہ متحمل ہو سکیں۔‘‘
اس کے علا وہ طلبہ کی حوصلہ افزائی کر تا رہے ان کی خوبیوں کا اعتراف کرے اور ان کی خامیوں کو طنز کا نشا نہ نہ بنا ئے ۔ خوشگوار ماحول بنائے پھر دیکھیے کیسے معلّم اور طلبہ خوشگوار فضا میں پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔
(۳)اعلیٰ کردار کا حامل ہو نا :
ذوقِ مطالعہ اور فن تدریس کے بعد ایک معلّم کے لئے مثالی کردار کا ہو نا انتہائی ضروری ہے، ورنہ وہ طلبہ میں علم تو منتقل کردیگا لیکن ان کی شخصیت کی تعمیر نہیں کر پائے گا۔ کبھی کبھی اپنے والدین کی بہ نسبت طلبہ اپنے استاد کے اثرات اور اوصاف زیادہ قبول کر لیتا ہے۔ اس لئے ایک معلّم کو اخلاص ، تحمل وبردباری ، خوش طبعی، قناعت ، توکل، پاک دامنی، سچائی ، ایفائے عہد ، عدل، نرم خوئی ، خوش گفتاری ، موقع شناسی اور حکمت کے جو ہر سے لبریز ہو نا چا ہیے۔ اگر ایک معلّم میں ذوقِ مطالعہ اور تدریس کا فن موجود ہو لیکن اس کا دل بنی نوع انسان کی محبت سے خالی ہو تو وہ معلّم کامیاب معلم نہ بن سکے گا۔
طلبہ اخلاقی اقدار کے حا مل اساتذہ کو دل سے پسند کرتے ہیں، ان کی نقل کر تے ہیں، ان کو اپنے لیے نمو نہ بناتے ہیں، ان کے درس میں دلچسپی لیتے ہیں، ان کی خواہش ہو تی ہے کہ ایسا معلّم ان کے درجہ میں زیا دہ دیر رہے اور وہ اس سے سیکھتے رہیں۔ معلّم کو وقت کا پا بند ہو نا بھی بہت ضروری ہے۔ اس سے اس کے طلبہ وقت کے پا بند بنیں گے اور جو وقت کا پا بند ہو گا اللہ اس کو ضرور کامیاب کر تا ہے ۔ اس لئے معلّم اپنے فرض کو سمجھیں اور ذرا بھی لاپرواہی سے کام نہ لیں کیونکہ طلبہ کا مستقبل ان کے ہاتھ میں ہے۔حضرت معقل بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے رسول ِکریم ؐ کو فرماتے سنا آپؐ نے فرمایا:
’’جس کسی نے مسلمانوں کی اجتماعی معاملات کی کوئی ذمہ داری قبول کی اور ان کے ساتھ خیر خواہی نہیں کی اور ان کے کام کی انجام دہی میں پوری کو شش نہیں کی جس طرح وہ اپنے کاموں میں کر تا ہے تو اللہ اس ذمّہ دار کو منھ کے بل جہنّم میں گرادے گا۔‘‘
معلم ایک اجتماعی ذمہ داری کو اس پیشہ سے جڑنے کے ساتھ ہی قبول کرلیتا ہے۔ یہ اجتماعی ذمہ داری قوم و ملک کی نئی نسل کو تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کرنے کی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری تعمیری ذمہ داری ہے اس لیے اس میں کوتاہی قوم و ملک کے مستقبل کو نظر انداز کرنے کے مانند ہے۔