ذمہ دار کون…؟

فریدہ انجم قمر

’’کیا بات ہے باجی آج بڑی خاموش ہیں؟‘‘ میں نے اپنی کام والی باجی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جو روز آتے ہیں بڑی زور دار آواز میں سلام کرنے کے بعد اپنے کام سے لگ جاتیں اور دن بھر چہک چہک کر باتیں کرتی رہتیں۔

’’کچھ نہیں باجی!‘‘ وہ بھی مجھے باجی ہی کہہ کر بلایا کرتی تھیں۔ ’’کیا کریں، اپنے تو نصیب ہی خراب ہیں۔ دن رات ایک کرو تب جاکر گھر کی دال روٹی چلتی ہے۔ تین بچوں کا ساتھ، ان کی پڑھائی لکھائی، گھر کا کرایہ، راشن پانی اور پھر مہنگائی کا دور۔پتا نہیں اللہ کب مہربان ہوگا؟‘‘ کہتے کہتے ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔

’’باپ نے پیدا کرنے کی ذمہ داری نبھادی اور بس۔‘‘

میں نے انہیں تسلی دی کہ ’’اللہ پربھروسہ رکھو۔ وہ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ ابھی تم اتنی محنت کررہی ہو انشاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا جب تم سکون کی زندگی گزار سکوگی۔ تمہارے بچے تمہارے سکون کا ذریعہ بنیں گے۔‘‘

’’اسی امید پر تو اتنی مشکلیں سہہ کر زندگی گزار رہی ہوں۔ بس اللہ میرا اچھا کرے۔‘‘ وہ بولی

’’ضرور کرے گا۔ بس اسی پر توکل رکھو۔‘‘

اور پھر میں نے ہمت کرکے وہ سوال بھی پوچھ ہی لیا جسے مدت سے پوچھنا چاہتی تھی۔ ’’برا نہ مانو تو ایک بات پوچھوں۔‘‘ ہاں پوچھو!

’’تم اپنے شوہر کو چھوڑ کر کیوں آگئیں؟ شاید اسے کبھی احساس ہوتا کہ میرے بھی بیوی بچے ہیں، میری بھی زندگی ہے۔‘‘

میرے اس سوال پر اس نے اپنی پوری داستان غم کہہ ڈالی۔

بانو اپنے سب بہن بھائیوں میں چھوٹی اور لاڈلی تھی۔ سب بہن بھائیوں کی شادیاں ہوچکی تھیں۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی اس کے ایک دور دراز علاقے سے رشتہ آیا۔ لوگ ظاہری طور پر بہت اچھے تھے۔ لڑکا کاروباری بتایا گیا تھا اور دیکھنے بھالنے میں بھی کوئی کمی نہ تھی۔ ماں باپ نے زیادہ چھان بین کی ضرورت نہ سمجھی اور شادی کردی۔ مگر شادی کے فوراً بعد یہ راز کھلا کہ لڑکے کا ذاتی کاروبار کچھ نہیں اور یہ کہ وہ نشہ خور ہے۔ ماں باپ نے اپنے ہونہار کے کرتوت لڑکی کے گھر والوں سے چھپائے اور اس کی زندگی کو جہنم بنا ڈالا۔

بانو نے اس دھوکہ بازی پر ناراضگی جتائی، تو سسرال والوں نے جواب دیا ’’شادی سے پہلے سب میں ہی بری عادتیں ہوتی ہیں مگر شادی کے بعد تو بیوی اچھے اچھوں کو سدھاردیتی ہے۔‘‘ گویا نشہ خور شوہر کے سدھار کی مزید ذمہ داری ڈال دی گئی۔ اس نے اپنی سی کوشش کی۔ ماں باپ کے پاس واپس بھی نہ جاسکتی تھی۔ وہاں رکھا بھی کیا تھا۔ روز مزدوری کرنے والے باپ، بھائی۔ کس آس پر واپس جاتی۔ اس لیے اس نے زندگی کو جدوجہد کی نئی راہوں پر ڈال دیا۔ شوہر تو بس اپنے پینے کھانے سے دلچسپی رکھتا تھا۔ ضرورت پڑی تو بیوی کے پاس آیا ورنہ تو کون میں کون؟ یکے بعد دیگرے تین بچے اس دنیا میں آگئے۔ پہلی بیٹی اور دو بیٹے۔ چاند سی بیٹی دیکھ کر بھی ظالم کا دل نہ پگھلا اور نہ ہی وطیرہ بدلا۔ گھر کی حالت بد سے بدتر ہونے لگی۔ اسے تو صرف اپنے نشہ سے مطلب تھا۔ نشہ نہ ملتا تو توڑ پھوڑ کرتا اور بیوی کو مارتا۔ بانو تنگ آگئی بچوں کی حالت نے اسے گھر سے باہر کام کے لیے نکلنے پر مجبور کردیا۔ اللہ اس پر مہربان تھا کئی اچھے گھروں میں کام مل گیا۔ اب تو شوہر کو اور بھی آسانی ہوگئی دن بھر پڑا رہتا۔ بیوی سے زبردستی پیسے ہتھیا لیتا۔ اگر نہ دے تو گھر کا سامان بیچ دیتا، کبھی آٹا، کبھی چاول اور برتن تک بیچ ڈالتا۔ بانو شام میں تھکی ہاری آکر جب پکانے کے لیے دیکھتی تو جان جل کر رہ جاتی۔ ایک دن تو حد ہی ہوگئی۔ بانو بڑے ارمانوں سے اپنی بیٹی کے لیے نئی چپلیں خرید کر لائی کہ عید قریب تھی۔ ظالم نے بانو کے کام پر نکلنے کے بعد وہ بھی بیچ ڈالے۔ بس بانو کی قوت برداشت جواب دے گئی اور اس نے اپنا سامان باندھ لیا۔ بچوں کو لیا اور اپنے میکے آگئی اور کسی پر بوجھ بننے کے بجائے یہاں بھی خود ہی روزی روٹی کمانے کی ٹھان لی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی مدد کی اور مناسب کام مل گیا۔ اور وہ کرایہ کا ایک کمرہ لے کر اور اپنی ماں کو ساتھ لے کر رہنے لگی۔

اسکول سے بچوں کی سرٹیفیکٹ لانے کا مسئلہ آیا تو اپنے دور کے بھائی کو بھجوایا وہاں سسر نے کہا کہ کیوں اتنی مصیبت اٹھارہی ہے یہاں آکر کیوں نہیں رہتی؟اگر اسے اپنے ہی خاندان پر فخر ہے تو بھگتے مگر بچوں کے بارے میں پوچھنے کی توفیق نہ ہوئی۔

بانو ہمارے سماج کی تنہا مظلوم نہیں۔ کتنی ہی لڑکیاں ہیں جن کی زندگیاں بدکردار شوہروں کے سبب جہنم زار بنی ہوئی ہیں۔ مگر ایک بات ضرور ہے کہ اس میں کہیں نہ کہیں ان والدین کا قصور ضرور ہے جو رشتہ تلاش کرتے وقت دولت اور خاندان دیکھ لیتے ہیں اور دین کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ یہ دینداری کو نظر انداز کرنے ہی کے نتائج ہیں جو سما ج میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ کاش کچھ لوگ سماج میں دینی بیداری کا عزم لے کر اٹھیں اور سیکڑوں ہزاروں لڑکیوں کی زندگیو ںکو اس جہنم زار سے بچائیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں