حضرت معاذؓ کہتے ہیں کہ خدا کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: ’’اے معاذ! خدا کی قسم میں تمہیں بہت چاہتا ہوں، پھر فرمایا : ’’میں تمہیں وصیت کرتا ہوں، اے معاذ! کسی بھی نماز کے بعد یہ کلمات پڑھنا مت چھوڑنا۔ اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَ شُکْرِکَ وَ حُسْنِ عِبَادَتِکَ ’’اے میرے اللہ تو میری مدد فرما، اپنے ذکر کے سلسلے میں، اپنے شکر کے سلسلے میں اور اپنی اچھی عبادت کے سلسلے میں۔‘‘ (ابوداؤد، نسائی)
تشریح
اللہ کے رسول ﷺ نے سادہ انداز میں حضرت معاذؓ سے یہ نہیں فرمایا کہ اے معاذ میں تم سے محبت کرتا ہوں، بلکہ ان کا ہاتھ اپنے مبارک ہاتھوں میں لیا اور پھر اللہ بزرگ و برتر کی قسم کھا کر ارشاد فرمایا: معاذ! مجھے تم سے محبت ہے، اس اندازِ اظہار میں کس قدر روح نواز کیفیت ہے۔
وصیت کرنے سے پہلے اس شدید اظہار محبت میں بڑی زبردست حکمت ہے۔ رسول اکرمﷺ کی زبان مبارک سے اپنے لیے یہ الفاظ سن کر، اور اس ادا کے ساتھ کہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ان کا ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں یقینا حضرت معاذ سراپا شوق بن گئے ہوں گے۔ اور اس ہدایت کو جذب کرنے اور حرز جاں بنانے کے لیے پوری طرح یکسو ہوگئے ہوں گے اور انتہائی قدر کے ساتھ ان ہدایات کو حضرت معاذؓ نے حضورؐ سے سنا ہوگا۔
اس حدیث سے وعظ و نصیحت کا پیغمبرانہ انداز اور طریق تربیت بھی سامنے آتا ہے۔ وہ یہ ہے نصیحت اور وعظ کی اصل بنیاد خلوص و محبت ہے۔ اور جس کے دل میں محبت ہوگی وہ سامنے والے کو گمراہ اور گناہوں میں مبتلا کیسے دیکھ سکتا ہے، جب کہ وہ جانتا ہے کہ گناہ کا لازمی نتیجہ جہنم کی آگ ہے۔
اس طرح خیر کی تعلیم دینا بھی اس انتہائی خلوص کے سبب ہے جس کا اظہار حضورؐ نے حضرت معاذؓ سے فرمایا: جس کے دل میں خلوص ہوگا اس کے لیے ہم چاہیں گے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نیکیوں اور خیر سے ہم کنار ہو اور جنت میں اعلیٰ ترین مقام کا حق دار بنے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے حضرت معاذ کو یہ کلمات سکھاکر پوری امت کو اخلاص، ایثار اور ذکر و فکر کی تعلیم فرمائی۔
کس قدر عظیم تھے یہ لوگ جن کو اللہ کے رسولؐ نے اپنی محبت کا یقین دلایا۔ اور جنہوں نے اپنے کانوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آواز میں رسولؐ کی ہدایات سنیں، حضرت معاذؓ کو رسولؐ نے وصیت فرمائی کہ ہر نماز کے بعد یہ دعا ضرور پڑھا کرو۔ کبھی اس دعا کو چھوڑنا نہیں۔
اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَ شُکْرِکَ وَ حُسْنِ عِبَادَتِکَ
’’اے میرے اللہ تو میری مدد فرما، اپنے ذکر کے سلسلے میں، اپنے شکر کے سلسلے میں اور اپنی اچھی عبادت کے سلسلے میں۔‘‘
دعا بڑی مختصر ہے، مگر کس قدر جامع ، اس دعا میں مومن اللہ تعالیٰ سے جن تین چیزوں میں مدد اور توفیق کی دعا کر رہا ہے، غور کیا جائے تو یہی تین چیزیں مومن کی زندگی کا حاصل ہیں۔
’’ذکر، شکر اور حسن عبادت‘‘
ذکر تمام عبادات کا جوہر مقصود ہے۔ اور عبادات اسی لیے ہیں کہ ذکر رب ذہن و فکر اور قلب و دماغ کا مستقل وظیفہ بن جائے۔
اللہ تعالیٰ کے عظیم احسانات اور بے پایاں نعمتوں کے زندہ احساس سے جذبہ شکر پیدا ہوتا ہے اور شکر ہی ایمان کی بنیاد ہے۔
مومن کی زندگی میں ساری دل کشی اور رعنائی حسنِ عبادت سے پیدا ہوتی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ان خصائل و اوصاف سے کسی کی ذات اسی وقت آراستہ ہوتی ہے جب خدا کی مدد اور توفیق شامل حال ہو، اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے وصیت فرمائی کہ اللہ تعالیٰ سے توفیق و مدد کی دعا برابر ہر نماز کے بعد مانگتے رہنا کبھی اس دعا کو نہ چھوڑنا۔ اللہ تعالیٰ نے بھی حسن عمل کرنے والوں کو قرآن مجید میں خوش خبری دی ہے۔ فرمایا:
ترجمہ: ’’حسن عمل کرنے والوں کے لیے اس دنیا میں بھلائی ہے اور آخرت کا گھر تو ضرور ہی ان کے حق میں بہتر ہے بڑا ہی اچھا گھر ہے متقیوں کا۔ دائمی قیام کی جنتیں، جن میں وہ داخل ہوں گے، نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی اور سب کچھ وہاں عین ان کی خواہش کے مطابق ہوگا۔ یہ جزا دیتا ہے اللہ متقیوں کو، ان متقیوں کو جن کی روحیں پاکیزگی کی حالت میں جب ملائکہ قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں سلام ہو تم پر جاؤ جنت میں اپنے اس حسن عمل کے بدلے جو تم کرتے رہے ہو۔‘‘(سورہ نحل) lll