گزشتہ دنوں ایک اخبار کے بین الاقوامی صفحے پر بین الاقوامی اہمیت کی ایک افسوسناک خبر شائع ہوئی۔ ٹوکیو سے موصول ہونے والی اس انتہائی المناک خبر میں بتایا گیا تھا کہ:
’’دنیا کا معمر ترین کتا مرگیا۔ اس کی عمر ۲۶ سال ۸ ماہ تھی۔ جاپانی خاتون یومیکو شینو ہارا کی ملکیت یہ کتا یکم اپریل ۱۹۸۵ء کو پیداہوا تھا۔ اس کا نام گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل تھا‘‘۔
لیکن اس کتے کے مرنے سے کتے کی سوگوار مالکن مادام یومیکو شینو ہارا اور دنیا کے باقی ماندہ اور غم زدہ معمر کتوںہی کو نہیں خود ہمیں بھی بہت صدمہ پہنچا ہے۔
مرنا برحق ہے۔ موت سے کس کو رستگاری ہے؟ آج وہ، کل ہماری باری ہے۔ مگر کسی ایسے کتے کا مرنا، جس کا نام گنیز بُک آف ورلڈریکارڈ میں شامل ہو، (ورلڈ) ریکارڈصدمے کا باعث ہے۔ اِسی صدمے کی وجہ سے آج ہماری حالت بُری ہو رہی ہے۔ اس وقت ہم ایک ہاتھ سے یہ کالم لکھ رہے ہیں اور دوسرے ہاتھ میں تھامے ہوئے رومال سے اپنی ٓانکھ اور بہتی ہوئی ناک پونچھے جارہے ہیں۔ اگر ہم میر ببر علی انیسؔ ہوتے تو جس طرح انہوں نے اپنی بکری کا مرثیہ لکھا تھا، اسی طرح ہم اِس آں جہانی کتے کا مرثیہ لکھتے اور کہتے:
آنکھیں تو کھلی رہ گئیں پر مرگیا کتا
افسوس کہ دُنیا سے سفر کر گیا کتا
مگر افسوس (یعنی کتے کی موت کے افسوس پر مزید افسوس) کہ ہم میر ببر علی انیسؔ نہیں ہیں، ورنہ صرف مرثیہ ہی نہیں اور بھی بہت کچھ کہتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭٭٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خبر سے پتا چلتا ہے کہ آں جہانی کتا صرف کتا نہیں تھا، بلکہ ’’بہت کتا‘’ تھا، یعنی ۲۶ سال ۸ ماہ سے کتا تھا۔ اتنے عرصے سے …اور اتنے عرصے تک… کتا رہنا بھی بڑے دل گردے کا کام ہے۔ آپ کسی کو لمحہ بھر کے لیے بھی کتا بنا کر دیکھ لیجیے۔ اگر وہ آپ کی ٹانگ نہ لے لے، آپ کے پاجامے کے چیتھڑے نہ اُڑاڈالے، اور آپ کے لیے ’’بھائوں قائوں‘‘ کرتے ہوئے بھاگ کھڑے ہونے کے سوا کوئی اور امکانی راہ نہ چھوڑے تو جو سزا کتے کی وہ ہماری۔ صاحب! تجربے کا کوئی بدل نہیں۔ اب اس دنیا کو ایسا سینئر اور تجربہ کار کتا کہاں ملے گا؟ یعنی ایسا کہاں سے لائیں کہ ’’کتا‘‘ کہیں جسے۔ وہ بھی ’’دنیا کامعمر ترین کتا‘‘۔ ہائے افسوس:
جو ’’گُتّگاں‘‘ تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لا ساقی
ہمیں دنیا کے معمر ترین کتے کی موت پر رنجیدہ دیکھ کر ہمارے ایک دوست نے دلاسا دیا:
’’جا بچہ اور انٹرنیٹ پر۔ اور Kutta لکھ کر کھوج لگا بچہ۔ Browsing میں Search فرما بچہ۔ پھر دیکھ تماشاکتوں کا‘‘۔
ہم نے جھٹ مشورے پر عمل کیا۔ لیکن صاحبو! آنکھ جو کچھ دیکھتی تھی لب پہ آسکتا نہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے مرحوم شاعر قمر جمیل کے دیکھے ہوئے خواب والی مجبوری ہمیں بھی لاحق ہوگئی کہ ’’کتا‘‘ لکھ کر انٹرنیٹ پر…
خواب میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں سب کو دِکھا نا مشکل ہے۔ یہ مشکل آسان اِسی طرح ہوسکتی ہے کہ آپ سب لوگ فرداً فرداً خود ہی دیکھ لیں۔ آپ کو ہماری مجبوری کا اندازہ ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭٭٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عام طور پر کسی انسان کو ’’کتا‘’ کہہ کر اس کی توہین کی جاتی ہے۔ مگر بعض انسان ایسے بھی ہیں کہ جن کو ’’کتا‘‘ کہہ دینے سے کتا بھی اپنی توہین محسوس کرتا ہے۔ قصہ مختصر کہ بعض اوقات انسان کو کتا کہنے سے انسان کی توہین ہوتی ہے اور بعض اوقات کتے سے انسان کو تشبیہ دینے سے کتے کی توہین ہو جاتی ہے۔ آپ کہیں گے کہ کتا تو ہمیشہ ہی سے ’’صاحبِ توہین‘‘ ہے۔ کیا کوئی کتا انسان سے بہتر ہوسکتا ہے؟ جی ہاں ایک انسان ایسا بھی گزرا ہے جس نے اس قضیے کو طے کردیا ہے۔
فتنۂ تاتار کے زمانے میں حضرت جمال الدین بخاریؒ اپنا وطن چھوڑ کر کا شغر سے تین سو میل دورمشرق میں ایک دُور اُفتا دہ مقام ’’آق سُو‘‘ میں آبسے تھے۔ ایک رات اس وقت کے تاتاری حکمران کا شہزادہ تغلق تیمور خان اسی علاقے میں آکر شکار کے لیے خیمہ زن ہوا۔ صبح حضرت کے کسی ساتھی نے نمازِ فجر کے لیے اذان دی۔ خان کی نیند میں خلل پڑا۔ اس نے غضب ناک ہو کر ’’الصلوٰۃ خیر من النوم‘‘ کا اعلان کرنے والے ’’گستاخ‘‘ کی گرفتاری کا حکم دیا۔ حضرت خود گرفتار ہو کر چلے گئے۔ شہزادہ تغلق تیمور خان نے شدید غصہ، اور توہین آمیز انداز میں حضرت سے سوال کیا:
’’مجھے یہ بتا کہ تُو بہتر ہے یا یہ کتا تجھ سے بہتر ہے؟‘‘
حضرت نے بڑے تحمل سے جواب دیا:
’’اگر میں اپنے مالک کا فرماں بردار، و فادار ہوں تو انسان ہونے کی حیثیت سے میں بہتر ہوں، ورنہ یہ کتا مجھ سے ہزار درجہ بہتر ہے‘‘۔
یہ الفاظ محض الفاظ نہ تھے۔ حضرت کے دِل کی گہرائیوں سے دی جانے والی شہادت تھی۔ دل پر اثر کر گئی۔ یکا یک تغلق کی حالت غیر ہوگئی اور اس کا لہجہ بدل گیا۔ حضرت کو عزت و تکریم کے ساتھ خیمہ میںلایا۔ اپنی نشست پر بٹھایا اور پوچھا: ’’وہ کیا چیز ہے جو انسان کو کتے سے بہتر بناتی ہے‘‘۔
حضرت نے فرمایا: ’’ایمان‘‘
پھر اسلام کی حقیقت اس کے سامنے ایسے مؤثر انداز میں پیش کی کہ خان رونے لگا۔ اس نے کہا:
’’ابھی تو میرے اختیارات محدود ہیں۔ جب میں بادشاہ بنوں گا تو ضرور اسلام قبول کروںگا‘‘۔
تغلق کی تخت نشینی سے پہلے ہی حضرت جمال الدین بخاریؒ کا انتقال ہوگیا۔ مگر انتقال سے قبل آپؒ نے اپنے صاحبزادے ارشد الدین کو یہ سارا قصہ سنایا اور فرمایا: ’’تغلق تخت نشین ہو تو اُس کو اپنا وعدہ ضرور یاد دِلانا‘‘۔
1347ء میں تغلق تیمور خان کو ’’خاقان‘‘ کے عہدے پر فائز کیا گیا۔ ارشد الدین یہ خبر سنتے ہی دارالحکومت کی طرف روانہ ہوگئے۔ مگرسخت ’’پروٹوکول‘‘ کی وجہ سے دربار تک رسائی نہ ہوئی۔ آخر حضرت ارشدالدین کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ آپؒ نے فجر کے وقت ایسی زور دار اذان دی کہ اِرد گرد کی تمام وادی گونج اٹھی۔ خاقان کی نیند اُچاٹ ہوگئی۔ حضرت گرفتار کرکے اندر لے جائے گئے۔ حضرت نے فرمایا: ’’میں اسی شخص کا بیٹا ہوں جسے آپ نے قبول اسلام کا قول دیا تھا۔ والد انتقال کرچکے ہیں، ان کی وصیت کے مطابق میں حاضر ہوا ہوں‘‘۔
خاقان کو اپنا وعدہ یاد آگیا۔ اس نے کہا کہ: ’’میں تو تخت نشینی کے وقت ہی سے ان کا انتظار کر رہا تھا‘‘۔
حضرت ارشد الدین کی ہدایت پر اس نے غسل کر کے کلمۂ طیبہ پڑھا اور صرف اس کے اسلام لانے کی وجہ سے ایک لاکھ ساٹھ ہزار تاتاری بت پرستی چھوڑکر حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے۔ اِسی قصے کا ذکر اقبالؔ نے اس شعر میں کیا ہے:
ہے عیاں فتنۂ تاتار کے افسانے سے
یا سباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے
کبھی کبھی اپنی سائیکل،موڑ سائیکل یا کار کے ساتھ ساتھ بھاگتے ہوئے کتے کو دیکھ کر خود بھاگتے بھاگتے ذرا سوچنا تو چاہیے کہ:
’’میں بہتر ہوں یا یہ کتا مجھ سے بہتر ہے؟‘‘
——