ذہنی دباؤ

زبیر وحید

جدید طرز زندگی سے پیدا ہونے والی گھٹن، خوف اور مستقبل کی غیر ضروری فکر نے انسانی رویوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ طرزِ زندگی کو یقینا ذہنی دباؤ کا ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے۔ ذہنی دباؤ سے اعصابی ضعف، جھٹکے، دل کے دورے اور السر جیسے امراض لاحق ہوتے ہیں۔ ذہنی دباؤ کے کچھ مثبت اثرات بھی ہیں لیکن یہ مثبت اثرات کس قدر قابل تحسین ہیں، اسے سمجھنا ذرا مشکل ہے۔
فکروغم اور ذہنی دباؤ کے بغیر زندگی بے معنی اور پھیکی ہوتی ہے۔ ہمیں چوکس رہنے کے لیے وقتی پریشانیوں اور خوف سے پیدا ہونے والی تحریک کی ضرورت ہوتی ہے۔ فکر ہمیں متحرک اور چست بھی بناتی ہے۔ شمالی آئر لینڈ کے نفسیات دانوں نے یہ بات محسوس کی ہے کہ افراتفری والے شہری علاقوں کے لوگ نفسیاتی امراض کے ہسپتالوں سے کم تعداد میں رجوع کرتے ہیں۔ اشتراکی ملکیت یا جائیداد کے اشتراکی استعمال سے متصف دباؤ والے سماج میں خود کشیاں بہت کم تعداد میں ہوتی ہیں اور ذہنی دباؤ سے پیدا ہونے والی بیماریاں بھی کم ہوتی ہیں۔ شاید اس لیے کہ خطرات میں رہنے کے باعث ایڈرینل گلینڈ ذہنی دباؤ کے ہارمونز مثلاً ایڈرینالین زیادہ مقدار میں ناراڈرینالین اور کورٹی سون کا اخراج کرتے ہیں۔ بوریت دماغی بیماریوں کی جڑ ہے اور کچھ لوگ اس کو دور کرنے کے لیے خطرناک دماغی کھیل کھیلتے ہیں۔ مثال کے طور پر جوا، اسکنگ اور تیز موٹر سائیکلنگ تاکہ وہ اپنی سستی، اداسی اور بے قراری کو دور کرسکیں۔
ماہرین چوہوں پر تجربات سے یہ واضح کرچکے ہیں کہ جن چوہوں پر بار بار ذہنی دباؤ ڈالا گیا وہ دباؤ سے محفوظ رہنے والے چوہوں کے مقابلے میں زیادہ دیر زندہ رہتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ وقفہ وار ذہنی دباؤ میں بار بار رہنے سے ایڈرینل گلینڈ جسم میں ہارمونز کے دفاعی میکانیکی نظام کو تیز تر کردیتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے انفیکشن کے دوران جسم کا مدافعتی نظام کا شروع کردیتا ہے۔
اس تجربے کی روشنی میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ امریکہ کے صدر، سوائے غیر طبعی موت کے، نائب صدروں کے مقابلے میں اوسطاً زیادہ دیر زندہ رہے اور ناکام صدارتی امیدواروں کی نسبت بھی انھوں نے لمبی عمر پائی۔ بالکل اسی طرح صنعتوں میں بھی دیکھا گیا ہے کہ ایسے افراد جو اونچے عہدوں پر فائز ہیں، ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ لمبی زندگی پاتے ہیں، جو روزانہ احساس محرومی سے دوچار ہوتے ہیں اور نچلے عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔ ایک کمپنی میں کیے گئے سروے کے مطابق ورکشاپ میں کام کرنے والے مزدور اونچے عہدوں پر فائز افراد کے مقابلے میں دل کے امراض کا دوگنا شکار ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد پر ذہنی دباؤ زیادہ ہوتا ہے لیکن اس دباؤ کے نقصان وہ اثرات کم ہوتے ہیں۔ ذہنی دباؤ کے نقصان دہ اثرات اس کی مجموعی شدت کے مقابلے میں اس کے معیار میں زیادہ مضمر ہوتے ہیں۔
ایک جانور یا پرندے کا عام ذہنی دباؤ کے خلاف ردعمل اپنے جسم کو ’’اڑانے یا لڑنے‘‘ کے لیے تیار کرنا ہوتا ہے۔ جانور کے عضلات تناؤ کا شکار ہوتے ہیں، نبض تیز چلتی ہے، فشار خون زیادہ ہوتا ہے، اور جوئے خون میں شکر اور چربیلے تیزاب کی مقدار بڑھ جاتی ہے، جوعضلاتی سرگرمیوں کے لیے بنیادی ایندھن ہیں۔ زمانہ قدیم میں جب کہ ذہنی دباؤ کا سب سے بڑا ذریعہ نوکیلے دانتوں والے چیتے کے آجانے کا خوف ہوتا تھا، ان تبدیلیوں میں کچھ اشارے موجود ہوتے تھے، جن کی بدولت فوری رد عمل کی ضرورت ہوتی تھی۔ لیکن آج سماج کے بدلے ہوئے حالات اور ترقی کے باعث ایسے کسی بھی فوری ردعمل کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اب ہم اپنے جھگڑالو اور تیز مزاج باس کے لیے بھی بڑے عمومی ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم غصے میں یا کسی ناروا بات کو سن کر اس کی ناک پر مکا نہیں مارتے، یا دفتر میں چیخ و پکار کرتے ہوئے دیوانہ وار بھاگتے دوڑتے نہیں ہیں۔ اس طرح ہمارا اعصابی تناؤ برقرار رہتا ہے جس کی وجہ سے ہماری گردن کے پٹھے اکڑ جاتے ہیں۔ اس مسلسل تناؤ کو دور کرنے کی غرض سے ہم ہیلتھ کلبوں میں جاتے ہیں اور مالش کرواتے ہیں۔ یوں باس صحیح معنوں میں دردِ سر کے بجائے گردن کا درد بن جاتا ہے۔ بلند فشار خون کے تحت ممکن ہے فشار خون بڑھتا جائے چنانچہ اس کو روکنے کے لیے ہم فشار خوف کو کم کرنے والی ادویات لیتے ہیں اور یوں ہم دل کے امراض کے کلبوں کے ممبر بن جاتے ہیں۔ اگر جسم میں چکنائی بڑھ جائے تو یہ عروق خون کی دیواروں پر جم کر انہیں خطرناک حد تک تنگ کردیتی ہے۔
یہ ذہنی دباؤ کی نقصان دہ صورت ہے۔ جو اس وقت ہوتی ہے جب ذہنی دباؤ کسی بھی مخصوص جسمانی سرگرمی سے دور نہیں ہوپاتا۔ اگر اس بات کا انکشاف ہوجائے کہ ذہنی دباؤ ہے تو اس کے کچھ خطرناک اثرات کو جسمانی ورزشیں کرکے دور کیا جاسکتا ہے، جس سے غیر ضروری عضلاتی کھنچاؤ سے بھی نجات ملتی ہے اور جوئے خون میں موجود زائد شکر اور چکنائی کو بھی جلایا جاسکتا ہے۔ ذہنی دباؤ کو دور کرنے والی زبردست سرگرمیاں تیرنا، دوڑنا، سائیکل چلانا اور تیز چلنا ہیں۔ خود کو ذہنی دباؤ سے آزاد کرنے کے لیے جذباتی پریشر ککر کا ڈھکنا کھولیں اور اس میں سے نکلنے والی بھاپ (ذہنی تناؤ) کے ساتھ ہی خود سے وعدہ کریں کہ چیخ کر یا زمین پر پاؤں پٹخ کر بہر طور کسی بھی صورت اس غیر ضروری ذہنی بوجھ سے نجات حاصل کرنی ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں